کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہے غماز ِ چمن

ریاض فردوسی

اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تم ہی غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو۔ (آل عمران آیت۔139)

اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔(پارہ۔26۔سورہ محمد۔ آیت۔7)

جو رحمٰن کا غائبانہ خوف رکھتا ہو اور توجہ والا دل لایا ہو۔  (سورہ ق۔آیت۔33)

بندہ اللہ تعالی کی ذات کو اپنے ہوش وحواس سے محسوس نہ کر سکتاہے، پھر بھی وہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ڈرتاہے۔ اس کے دل پر دوسری محسوس طاقتوں اور علانیہ نظر آنے والی زور آور ہستیوں کے خوف کی بہ نسبت اس اَن دیکھے رحمان کا خوف زیادہ غالب ہے۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ رحمٰن ہے، اس کی رحمت کے بھروسے پر وہ گناہ گار نہیں بنا بلکہ ہمیشہ اس کی ناراضی سے ڈرتا ہی رہا۔ اس طرح یہ آیت مومن کی دو اہم اور بنیادی خوبیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ محسوس نہ ہونے اور نظر نہ آنے کے باوجود اللہ سے ڈرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اللہ کی صفت رحمت سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود گناہوں پر جَری نہیں ہوتا۔ یہی دو خوبیاں اسے اللہ کے ہاں قدر کا مستحق بناتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے امام رازی نے بیان کیا ہے۔ وہ یہ کہ عربی زبان میں ڈر کے لیے خوف اور خشیت، دو لفظ استعمال ہوتے ہیں جن کے مفہوم میں ایک باریک فرق ہے۔ خوف کا لفظ بالعموم اس ڈر کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کسی کی طاقت کے مقالہ میں اپنی کمزوری کے احساس کی بنا پر آدمی کے دل میں پیدا ہو۔ اور خشیت اس ہیبت کے لیے بولتے ہیں جو کسی کی عظمت کے تصور سے آدمی کے دل پر طاری ہو۔ یہاں خوف کے بجائے خشیت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مومن کے دل میں اللہ کا ڈر محض اس کی سزا کے خو ف ہی سے نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بھی پڑھ کر اللہ کی عظمت و بزرگی کا احساس اس پر ہر وقت ایک ہیبت طاری کیے رکھتا ہے۔ منیب،، انابت سے ہے جس کے معنی ایک طرف رخ کرنے اور بار بار اسی کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ اللہ کے ہاں اصلی قدر اس شخص کی ہے جو محض زبان سے نہیں بلکہ پورے خلوص کے ساتھ سچے دل سے اسی کا ہو کر رہ جاء۔

صاف ہو کر جب تو ائے دل، آئینہ بن جائے گا

 حسن وحدت خود بہ خود جلوہ نما ہو جائے گا

”تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے، اللہ بہت سے گناہوں سے درگزر بھی کر دیتا ہے ]الشور?: 30[

آج ہم ظلم وزیادتی، خوف ودہشت، قتل وفساد، جبروتشدداورذلت وپستی کے شکار ہیں۔مسلمان، انفرادی واجتماعی اعتبار سے جن مسائل کے شکار ہیں، اور ہماری بربادی کے چند اہم اسباب یہ ہیں!

1۔عالم اسلام کاجائزہ لیاجائیتوباہم اتفاق و اتحادنظرنہیں آتا ہے۔ایک ملک دوسرے ملک کے درپے آزار تو ہے ہی۔ لیکن معاشرتی زندگی میں اتحاد نام کی کوئی چیز باقی نہیں۔ذات و برادری، مسلک و ملت غرض کہ نفاق ہمارے درمیان پرورش پا چکا ہے۔

2۔ہماری بیحسی اور مردہ دلی۔  جس قوم کا احساس مر جاتا ہے دنیا اسے اپنے قدموں تلے روند دیتی ہے۔دنیا کے کسی خطے میں اگر کسی نصرانی یا یہودی کا قتل ہو جاتا ہے تو پوری عیسائیت و یہودیت اس کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے لیکن دنیا کے اکثر خطوں میں مسلمانوں کاموں پانی سے بھی بے قیمت بہا جا رہا ہے، مگر ہم خواب غفلت میں ہیں۔اسلامی ممالک رائفلوں کی گولیاں تک کسی غیر مسلم ملک سے خرید رہے ہو تے ہیں۔

3۔مجموعی طور پر مسلم دنیا کی اقتصادی حالت نہایت کمزور ہے۔ جو ترقی کیلئے اہم رکاوٹ اور ذلت و خواری کا سبب بنی ہوئی ہے۔ حالت یہ ہے کہ دنیا کی آدھی سے زیادہ دولت تو یہودیوں کے قبضہ میں ہے۔ اور اس میں سے آدھی سے زیادہ نصارٰی کے پاس ہے۔ اور پھر بقیہ دولت میں قوم مسلم و دیگر قومیں مشترک ہیں۔

4۔سائینسی علوم  سے بے توجہی اور تعلیمی نظام کا مستحکم طریقے سے نافظ نہ ہونا۔یامذہبی رنگ ہے یا دنیاوی حرص وحوس کا بول بالہ ہے۔درمیانی راستہ تو ہم شائد بھول ہی گئے ہیں۔اسلامی دنیا کا جائزہ لیں تو اس وقت پوری اسلامی دنیا میں صرف 500 یونیورسٹیاں ہیں، ان یونیورسٹیوں کو اگر ہم مسلمانوں کی مجموعی تعداد پر تقسیم کریں تو ایک یونیورسٹی تیس لاکھ مسلمان نوجوانوں کے حصے میں آتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں صرف امریکہ میں 57057یونیورسٹیاں ہیں اور جاپان کے شہر ٹوکیو میں 1000یونیورسٹیاں ہیں۔ مغربی دنیا کے 40فیصد نوجوان یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ مسلم ممالک کے صرف 2فیصد نوجوان یونیورسٹی کی سطح تک پہنچ پاتے ہیں۔اکبر بادشاہ اپنی بیگمات کے لیے محلات تعمیر کروا رہا تھا اس وقت بر طانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جارہی تھی۔ اسی طرح جب شاہ جہاں اپنی چہیتی بیگم ممتاز محل کی یاد میں تاج محل تعمیر کر وا رہا تھا اس وقت امریکہ میں ہاورڈ یونیورسٹی کی بنیادرکھی جا رہی تھی۔

5۔ دیگر ممالک اپنی ترقی پر نازاں اور معاشیات پر خوش ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ صنعت و حرفت میں پیش پیش ہیں۔ مگر مسلم ممالک اس میدان میں بھی بہت پیچھے ہیں۔52فیصد فیکٹریاں مغربی دنیا میں ہیں جب کہ دنیا کی 70فیصد صنعتوں کے مالک عیسائی اور یہودی ہیں۔

6۔لوگوں کے مسائل سے بے پرواہ رہنا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اس مسافر کی مدد کی اور ابو جہل سے اس کا حق دلوایا جب آپ مکی زندگی میں ظلم و ستم کا دن ورات مقابلہ کر رہے تھیں۔ہمارے محلے میں گندگی کا ڈھیر، بد اخلاقی اس قدر فروغ پا چکی ہے کہ یہ ہمارے لیے عام بات ہے۔

7۔اختلاف نظریات کے بطن سے مسلمانوں میں جدا جدا جماعتیں بن رہی ہیں اور ہر جماعت اپنے اپنے نظریہ پر سختی سے عمل پیرا ہے اور خود کو برحق اور دیگر کو باطل گردانتی ہے۔

یہ گنا ہ ایسیہیں کہ معاشرے میں ایسے عام ہیں کہ تعلیم یافتہ طبقہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ، امیر طبقہ ہو یا غریب، شہر کا رہنے والا ہو یا گائوں کا، اور یہاں تک کہ، شریف کہلانے اور شریف سمجھا جانے والا طبقہ ہو یا آوارہ اور فحاش، تقریباَ سب ہی ان گناہوں میں دن رات ایسے مبتلا ہیں کہ انہیں گناہ ہی نہیں سمجھتے حالانکہ یہ گناہ معاشرے کے بدترین اور شرمناک ترین گناہ ہیں اور ان گناہوں کو کوئی بھی فرقہ جائز نہیں سمجھتا۔مغربی ممالک کی چاپلوسی کا جذبہ اس قدر غالب ہوچکا ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اسلامی ممالک کی تباہی و بربادی کا تماشا نہایت خاموشی کے ساتھ دیکھ کر مغربی ممالک کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔

”بر و بحر میں فساد پھیل گیا ہے جس کی وجہ لوگوں کے اپنے کیے ہوئے اعمال ہیں؛ تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے کچھ اعمال کا مزا چکھا دے، شاید وہ ایسے کاموں سے باز آ جائیں ۔  الروم: 41

امت اسلامیہ کو جن بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے جن کی وجہ سے امت کی طاقت کو کمزور کیا گیا، اور شان و شوکت کو خاک میں ملایا گیا وہ باہمی اختلاف، فرقہ واریت، داخلی تنازعات، اور انتشار ہیں، انہی کی وجہ سے امت کو ماضی میں بھی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور آج بھی،اللہ کا فرمان ہے:

”تنازعات میں مت پڑو، ورنہ تم ناکام ہو جاؤ گے، اور تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی، اس لیے ڈٹے رہو، بیشک اللہ تعالی ڈٹ جانے والوں کیساتھ ہے۔  ا لأنفال: 46

آپ ﷺ کا فرمان ہے: (باہمی بغض اور حسد نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ مت موڑو، اور اللہ کی بندگی کرتے ہوئے بھائی بھائی بن جاؤ، کسی بھی مسلمان کیلئے اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی جائز نہیں ہے) لیکن آج کا مسلمان اس فانی دنیا کیلئے ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ رہے ہیں، گروہ بندی میں مبتلاہوکر ایک دوسرے کے دامن پے کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلکہ اس حقیر دنیا کیلئے -نعوذ باللہ-ایک دوسرے کا خون بھی بہا رہے ہیں۔

ایک حقیقت

خلافت عثمانیہ   1299 ء سے 1922 ء تک (تقریباً623سال)قائم رہنے والی عظیم مسلم سلطنت تھی۔یہ سلطنت تین(۳ )برا عظموں پر پھیلی ہوئی تھی ،جنوب مشرق یورپ ،مشرق وسطی ،شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے ماتحت تھا ۔1299میں عثمان اول نے سلجوقی حکومت سے خود مختاری کا اعلان کرکے عثمانی سلطنت کی بنیادڈالی۔ان کے انتقال کے بعد ایک سال کے اندر ہی عثمانی سلطنت مشرق بحیر روم اور بلقان تک پھیل گئی، مئی  1453ء کو سلطان محمد ثانی نے قسطنطنیہ کو فتح کیا ،اور اسے اپنا دارالحکومت بنا لیا ۔معیشت میں اہم ترین کردار تجارت کا تھا ،کیونکہ ایشاء اور یورپ کے تمام زمینی و سمندری راستے اسی سلطنت سے گزرتے تھے ۔ 17ویں صدی سے 19 ویں صدی کے دوران روس اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان کئی جنگیں لڑیں گئیں۔19ویں صدی میں نسلی قوم پرستی (عرب و عجم وغیرہ)کو عروج ملا ۔پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کی شکست کا سب سے بڑا سبب بغا وت کو سمجھا جا تا ہے۔عرب بغاوت میں شریف مکہ ’’حسین‘‘اور محمدابن عبد الوہاب نجدی کے متبعین بہت بڑاہاتھ تھا ،مصطفی کمال پاشا کی زیر قیادت جنگ آزادی کے آغاز اور جمہوریہ ترکی کے قیام کا اعلان کیا گیا ۔مصطفی کمال پاشا کی زیر قیادت ترک قومی تحریک نے 1920 میںاستنبول میں عثمانی حکومت اور ترکی میں بیرونی قبضہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ،1922میں خلافت عثمانیہ کاخاتمہ ہوا ،خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں جو ممالک قائم ہو ئے ان کی تعدادتقریباً 40تھی۔

ایک مثال 

بنگال کا بھیانک قحط جسمیں دس ملین لوگ مارے گئے، جب گاندھی نے اس پر لکھا تو کہا کہ یہ بنگال کے لوگوں پر انکے کرتوت کا صلہ ہے، وہ گائے کاٹتے اورکھاتے ہیں اس لئے انہیں یہ بھیانک سزا ملی ہے۔ جب کہ سب جانتے ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ یہ قحط انگریزوں کی غلط زرعی پالیسیوں کی وجہ سے پیش آئی تھی۔ امرتیہ سین نے بڑے واضح لفظوں میں کہا کہ یہ  man-made famine تھا۔ خود انسانوں نے یہ صورتِ حال پیدا کی تھی اور وہ انگریز تھے۔

 عالمی پیمانے پر مسلمانوں کو درپیش مسائل کا جب کوئی حل نہیں ملتا تو گھوم پھر کے ہسٹیریا کی کیفیت میں مسلمانوں کا دین سے دوری کو سبب بتاتے ہیں۔ تیرہ سال تک مکہ کے اولین مسلمانوں سے بھی زیادہ کوئی اسلام سے جڑا ہوا تھا؟ ان سے زیادہ کوئی عبادت گزار نہ تھا،پھر بھی کفارِ مکہ کے ہاتھوں انکے ستائے جانے کا سلسلہ کسی طرح بھی ختم نہیں ہوا بلکہ روز بروز سنگین ہوتا گیا۔ اگراسلام سے جڑنے اورعمل کرنے سے مسائل حل ہوتے تو انکے مسائل مکہ میں کیوں نہیں حل ہوئے۔ (حبشہ)اتھوپیا اور  مدینہ منورہ کی ہجرت کی ضرورت کیوں پڑی۔

یہ تو شتر مرغ والی بات ہوئی کہ کوئی راستہ نہیں سوجھتا تو ریت میں سر چھپا لو، مسائل کا کوئی حل نہیں ملتا تو اسے دینی غفلت اور اسلام سے دوری سے جوڑ کے دیکھنے لگتے ہیں؟

اگر سارے مسائل اسلام سے جڑنے  اور صرف اس پر عمل پیرا ہونے سے حل ہوجاتے تو جب کفارِ مکہ( ۷)سات ہجری میں مدینہ پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے، اور پورا مدینہ اس کی زد میں تھا تو خندق کھودنے کی کیا ضرورت تھی؟ گھر میں بیٹھ کے روزہ نماز کرتے، اللہ اللہ کرتے۔ خندق کھودنی ہی پڑی۔ ہزار صوم وصلاۃ کے باوجود سلمان فارسی ؓ کے بتاہوئے مشورے پر عمل طئے پایا گیا۔

ایک نصیحت 

مدینہ کے لوگ کھجوروں کی اچھی فصل کے لیے تلقیح کا عمل کرتے تھے۔ نر اور مادہ کے گابھے میں جفتی کا عمل کرتے تھے۔ ایک سال اللہ کے رسولﷺ نے مدینہ کے لوگوں کو اس سے باز رہنے کو کہا، اس سال فصل کم پیدا ہوئی، لوگوں نے آپ ﷺسے شکایت کی کہ تلقیح نا کرنے کی وجہ سے ہمارے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺنے کہا ”انتم اعلم بامور دنیاکم” یعنی ایسا نا کرنے کا میرا ذاتی مشورہ تھا، اب تم تلقیح کر سکتے ہو، کیونکہ تمہیں اپنے دنیاوی معاملات کے بارے میں مجھ سے زیادہ پتا ہے۔ اسکے بعد مسلمانوں نے تلقیح کے اس عمل کو جاری رکھا۔

دنیا میں کامیابی کے لیے اسباب اپنانے پڑتے ہیں، صرف دین پر تکیہ کر لینے سے کامیابی نہیں ملنے والی۔ دین پر عمل کرنا ایک بات ہے اور دنیاوی مسائل سے حل کرنے کی سعی کرنا دوسری بات ہے۔( دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔)اوکما قال ﷺ

 ایک تجزیہ 

مولانا ابوالکلام آزاد نے فرانسیسی فوجی لا بریتان کے حوالے سے جس نے مسلمانوں اور فرانسیسیوں کی کئی جنگوں کے حالات بڑے ہی تجزیاتی انداز میں لکھا ہیَ لکھتے ہیں کہ فرانسیسیوں نے جب پہلی بار مصر اور اسکے مضافات میں حملہ کیا تو مسلمانوں کے پاس منجنیق کی شکل میں مضبوط اور تہس نہس کرنے والی اس زمانے کی توپیں موجود تھیں جس سے مسلمانوں نے فرانسیسیوں کے چھکے چھڑا دیئے۔ جب مسلمان توپیں برسا رہے تھے تو فرانسیسی دور خیموں میں اپنے پادریوں کے پاس جما ہوکر عیسی مسیح سے مدد طلب کر رہے تھے۔ اور مسلمانوں کی توپوں سے اتنے مرعوب تھے کہ اسے عذابِ الہی اور دین سے دوری کا سبب گردان رہے تھے۔ لابریتان ایک دوسری جگہ لکھتا ہے کہ کچھ سالوں کے بعد جب فرانسیسوں نے مسلمانوں کی طرح توپیں بنا لیں اور وہ اس بار سمر قند اور بخارا پر حملہ آور ہوئے تو اس بار مسلمانوں کی وہی حالت تھی جو مصر پر حملے کے وقت فرانسیسیوں کی تھی۔ فرانسیسی توپیں برسا رہے تھے،اس بار مسلمان گھروں میں دبک کے بیٹھے تھے۔ سرکاری طور پر پورے سمرقند اور بخارا میں اعلان کردیا گیا کہ اس عذاب سے نجات کے لئے مسجدوں میں ختمِ خواجگان کیا جائیِ، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو حلقے میں بیٹھ کر پڑھنے اورپڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔

مشورہ

سماجی، سیاسی، معاشی مسائل اور ہمیں عالمی سطح پر درپیش چیلینجز اس وقت تک دور نہیں ہو سکتے جب تک ہم مناسب حکمتِ عملی تیارنہ کریں، اسکے خاتمے کے لیے اسباب اختیار نا کریں اور اس کے لیے مناسب منصوبہ نا بنائیں۔ جو قوم بھی حکمت عملی سے دست بردار ہوجاتی ہے  وہ تاریکیوں میں کھو جاتی ہے۔ جب تک مسلمان حکمت عملی کے عمل سے جڑے رہے وہ خود بھی کامیاب رہے اور دوسروں کے لیے بھی رہنما بنے رہے۔ جب سے پالیسی میکنگ سے یہ قوم تہی دست ہوئی ہیِ اور دوراندیشیوں سے مفلوج ہوئی ہے اس وقت سے آج تک ہمارے سامنے اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔ ہمیں دوبارہ منظم منصوبہ بندی کا عمل شروع کرنا ہوگا۔ کیا کمیاں ہیں اورکیا خامیاں ہیں، انکا تجزیاتی مطالعہ کر کے انکے خاتمے کے لیے مناسب  لائحہِ عمل تیار کرنا ہوگا۔ اسے دین سے دوری اورغفلت سے جوڑ کر دیکھنے والی طرزِ تفکیر سے باز آنا ہوگا۔ وہ ذہنی طور پر انتہائی مفلوج سوچ ہے۔ جس میں ذرا بھی دور اندیشی نہیں۔ کوئی گہری سوچ شامل نہیں۔آج دوسری قومیں کامیاب ہیں تو اس لئے نہیں کہ وہ دین دھرم سے بہت جڑی ہوئی ہیں۔ بہت عبادت گزار ہیں۔ انکی کامیابی کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ منصوبہ سازی کے عمل سے خود کو جوڑے ہوئے ہیں۔ یہود و نصاری جس پراللہ کی لعنت ہے وہ بھی کامیابی سے ہمکنار ہیں کیونکہ انہوں نے پالیسی میکنگ کے عمل سے خود کو صدیوں سے گزارا ہے۔ آج ہندوتوا بریگیڈ ملک کی گدی پر براجمان ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ دین دھرم سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ اس لیے کہ انہوں نے اس کا خواب کئی دہایوں پہلے دیکھا تھا اور اس کے لیے انہوں نے منصوبہ بندی کی تھی جس کا پھل وہ آج ایک عرصے کے بعد چکھ رہے ہیں۔

مسلمان ہرچیز کو دین سے جوڑ کر دیکھتا ہے اور ہر چیز کا تجزیہ شرعی قوانین کے چشمے سے کرتا ہے، اسے نہیں پتا کہ اس دنیا میں کائناتی نظام بھی ہے۔ اور وہ کائناتی نظام یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی عمل اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک اس کے لیے تدبیر نا اپنائی جائے اور اسے ایک خاص منصوبے سے نا گزارا جائے۔ ”وأن لیس للإنسان إلا ما سعی‘‘  اس کائنات میں انسان کی تمام حصولیابوں کا دار ومدار اس کی کوششیں ہیں، اسکی کاوشیں ہیں، کوششوں سے دست برداری اور پھر بھی کسی انہونی کا انتظار ایک مفلوظ ذہنیت کا فتور ہوسکتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا اور کوئی بھی تدبیر نہ کرنا نٹھلے پن کی علامت ہے۔(” اورتم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان کے علاوہ دوسروں کو خوف زدہ کرو۔۔القرآن۔)

 سبق آموز

جاپان جب دوسری جنگِ عظیم میں بری طرح شکست خوردہ ہوا، جاپانیوں کے حوصلے پست ہوگئے، ہیرو شیما اور نا گا ساکی جل کر تباہ ہو گئے تو اس وقت وہاں کے بادشاہ (HiroHito) نے اپنی قوم کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کردیا اور اس وقت اس نے اپنی قوم سے خطاب کیا !  اس نے کہا ”اے میری قوم کے لوگو! آیئے اب ہم اپنے ہتھیار پھینک دیں اور اس کی جگہ اوزار اٹھالیں۔ ایک دن آئے گا کہ ہم پوری دنیا کو اپنے اوزاروں سے مات دیں گے، کیا ہم ایسا کرنے کے اہل نہیں ہیں؟” اسی سوچ اوردیرپا پالیسی میکنگ کے نتیجے میں آج پوری دنیا میں جاپان آٹو موبیل (Automobile) میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ وہ عالمی پیمانے پرایک سند ہے۔ ہمیں اپنی سوچ کے دھارے کو بدلنا ہوگا۔ مفلوج ذہنیت سے نکلنا ہوگا۔ پالیسی میکنگ کے عمل سے خود کو جوڑنا ہوگا۔ منصوبہ بند طریقے سے سالہا سال تک عمل کرنا ہوگا تب جا کے موجودہ حالات سے نکل پائیں گے۔ ورنہ کئی اور صدیوں تک یہی صورتِ حال بنی رہے گی۔ ۔(معاذاللہ صد با ر معاذاللہ)

 اے قوم مسلم! تیر ے علم و عمل کی نہیں ہے انتہا کوئی

نہیں ہے تجھ بڑھ کر ساز فطرت نوا کوئی

یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا  

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

( تاریخ اسلام ،تاریخ قاسم فرشتہ،تاریخ قسطنطنیہ ،تفہیم القرآن،مضمون شرف الدین محمد قاسمی،اور دیگر ذرائع سے ماخوذ)

تبصرے بند ہیں۔