کیا کشمیرکا مسئلہ ناقابل حل ہے؟

عـبـدالـعـزیز

        ہندوستان اورپاکستان دونوں ملکوں کے عوام وخواص عرصہ درازسے محسوس کررہے ہیں کہ کشمیرکے مسئلہ کوحل نہ کرنے سے دونوں ملکوں کازبردست نقصان ہورہاہے۔  کشمیرکے عوام اپنی جدوجہدکوآزادی سے تعبیرکرتے ہیں جبکہ ہندوستان کے بیشترعوام وخواص اورحکومت ایسے لوگوں کوعلیحدگی پسندیاانتہاپسندکہتی آرہی ہے ، کشمیرکے اندربھی دوقسم کے افرادہیں ایک گروپ ملک کے ساتھ رہنے اورمرنے کاحامی ہے جب کہ دوسراگروپ آزادی کاطالب ہے۔  حریت پسندوں کاگروپ کی نمائندگی حریت کانفرنس کے دودھڑکررہے ہیں دونوں کے بنیادی مقاصدمیں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ایک نرم رویہ رکھتاہے جبکہ دوسرے کے بارے میں غیرمعتدل رویہ کی بات کہی جاسکتی ہے۔

        آزادی کے بعدملک کے پہلے وزیراعظم جواہرلال نہروطاقت وروزیراعظم تھے وہ چاہتے بھی تھے کہ کشمیرکامسئلہ ان کی زندگی میں حل ہوجائے مگران کے رفقاء کشمیرکے متعلق ان کی پالیسی کوناپسندکرتے تھے جس کی وجہ سے وہ ایک قدم آگے اوردوقدم پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ جواہرلال نہروکے بعدوزیراعظم کی حیثیت سے اٹل بہاری باجپائی بھی مسئلہ کوحل کرناچاہتے تھے۔

        کہاجاتاہے کہ آگرہ Summit کے وقت مسئلہ کاحل دونوں ملکوں کے درمیان طے ہوگیاتھا۔  جنرل پرویزمشرف بھی مسئلہ کاحل چاہتے تھے جس کی وجہ سے مسئلہ طے ہوگیامگرایل کے ایڈوانی آرایس ایس کے اشارے پراڑگئے جس کی وجہ سے باجپائی اورمشرف کی کاوشوں پرپانی پھرگیا۔

        سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے بس کی بات نہیں تھی کہ وہ مسئلہ کے حل کے سلسلہ میں پیش قدمی کرتے ، وہ چاہتے ضرورتھے مگران کی کمزوری آڑے آتی تھی۔ مسٹرنریندرمودی ، باجپائی سے مختلف ہیں وہ سب سے پہلے اپنے بارے میں سوچتے ہیں کہ ان کے لئے کیابہترہوگاپھرآرایس ایس اوربی جے پی کامفادکس چیزمیں مضمرہے اس لئے مسٹرمودی کے آتے ہی کشمیرکامسئلہ سب سے زیادہ پیچیدہ ہوگیا۔  مسٹرمودی پاکستان سے بظاہردوستی کرنے میں سب سے زیادہ فعال اورخواہش مندنظرآتے ہیں مگرمسئلہ کے حل کے معاملے میں مخلص نہیں ہیں۔ ان کے ذہن میں ہے کہ حریت کانفرنس کی نمائندگی کوکوئی اہمیت یاوقعت نہ دی جائے جبکہ کشمیرکے مسئلہ میں پاکستان حریت کانفرنس کوایک فریق سمجھتاہے۔  نریندرمودی حکومت سے پہلے کی حکومتیں حریت کانفرنس کی نمائندگی کوپسندتونہیں کرتی تھیں مگربادل ناخواستہ قبول کرتی تھیں اس لئے مسئلہ زیادہ پیچیدہ اورسنگین نہیں ہوتاتھا۔  مسٹرمودی کی پالیسی کشمیرکے معاملہ میں بالکل ناکام ہوگئی ہے اگرچہ انہیں بی جے پی اورپی ڈی پی کی مخلوط حکومت بنانے میں کامیابی ضرورملی ہے مگریہ مخلوط حکومت کشمیر کی اکثریت اپنے لئے ناقابل برداشت سمجھتی ہے کیونکہ بے جے پی کے لوگوں کی فرقہ پرستی کشمیرمیں اسی طرح ہے جس طرح ملک کی دوسری ریاستوں میں ہے۔  بی جے پی ہرریاست میں گجرات جیسی صورت حال پیداکرناچاہتی ہے۔  گجرات ماڈل اس کاخواب ہے اگرچہ اب یہ خواب گجرات ہی میں چکناچورہوچکاہے۔  مسٹرمودی کی پسندکی وزیراعلیٰ انندی بین کوکئی وجوہ سے استعفیٰ دیناپڑا۔  ہردیک پاٹل کی تحریک پورے گجرات کواپنی لپیٹ میں لے لی ہے۔  وزیراعلیٰ کوتحریک کے لیڈروں کے سامنے جھکناپڑاجولوگ تحریک کے دوران گرفتارہوئے تھے انہیں بغیرکسی شرط کے رہاکرناپڑا۔ چاربے قصوردلت نوجوانوں پرگائے کے نام نہادمحافظوں کی طرف سے مظالم نے گجرات کی حکومت کواندراورباہرسے بالکل ہلاکررکھ دیا۔ پنچایت الیکشن میں 31  اضلاع میں سے 22  اضلاع میں کانگریس کی کامیابی نے بھی بی جے پی کی کمرتوڑدی۔  وزیراعلیٰ گجرات کے بیٹے اورایک ایم ایل اے کے زمین اسکینڈل نے بھی رہی سہی ساکھ بالکل ختم کردی جس کی وجہ سے نریندرمودی کواپنی پسندکی وزیراعلیٰ کوہٹانے پرمجبورہوناپڑا۔  یہ ہے گجرات کامعاملہ جہاں ان کی حکومت مستحکم تھی اورجس کاماڈل پورے ملک میں چلاناچاہتے تھے۔

        کشمیرمیں بھی گجرات ماڈل کی تیاریاں شروع تھیں۔  گائے کے ذبیحہ کامعاملہ ، دلت طلبہ کامعاملہ بی جے پی کے لوگ کشمیرمیں بھی اٹھارہے تھے اورپرامن ماحول کوخراب کررہے تھے۔ حزب المجاہدین کے کمانڈروانی کی ہلاکت کے بعدکشمیرکامعاملہ ہاتھ سے بالکل نکلاہوادکھائی دے رہاہے۔

        کانگریس کی یہ بات صحیح ہے کہ کانگریس نے اپنی حکمت عملی سے کشمیرکے پہاڑوں میں جوآگ سلگ رہی تھی اسے بجھانے میں ایک حدتک کامیاب ہوئی تھی مگرکشمیرکی موجودہ مخلوط حکومت اورنریندرمودی کی حکومت نے سلگتی آگ میں تیل کاکام کیاہے جس سے حالات انتہائی بگڑچکے ہیں۔

        جولوگ یہ تجویزدے رہے ہیں کہ کشمیرکی موجودہ حکومت نظم ونسق سنبھالنے میں ناکام ہوئی ہے اسے استعفیٰ دے دیناچاہئے۔ ان کی تجویزمیں وزن ہے کیونکہ کشمیرکامسئلہ فرقہ پرستی سے سلجھنے کے بجائے الجھنے کے گدارپرہے۔  بی جے پی کی فرقہ پرستی سے ملک کاہرحصہ متاثرہورہاہے ، کشمیرکچھ زیادہ ہی متاثرہوچکاہے۔

        کشمیرکامسئلہ ایسانہیں ہے کہ وہ ناقابل حل ہے اگرباجپائی کی یہ بات حکومتوں کے ذہن میں ہوکہ کشمیریت اورانسانیت کوملحوظ خاطررکھناچاہئے تومسئلہ حل ہو سکتاہے۔ لیکن آج توحالت یہ ہے کہ جوکشمیریت اورانسانیت کی بات کرے گااسے سنگھ پریوارکے لوگ غداروطن اورپاکستان نوازی کاطعنہ دیئے بغیرنہیں رہیں گے۔  اس وقت ملک کے اچھے بھلے لوگوں کی زبان بندہے بلکہ گنگ ہے ، صرف کمیونسٹوں یابایاں محاذکے لوگ سچ بولنے کی جرأت کررہے ہیں جس کی وجہ سے وہ سنگھ پریوارکے نشانے پرہیں ، میرے خیال سے کشمیرکوبچاناہے توکشمیریوں کوساتھ لئے بغیرممکن نہیں ہوگازورزبردستی سے کسی کوآج قابومیں رکھناایک مشکل عمل ہے۔  فوج کے بل بوتے پرکشمیرکامسئلہ حل نہیں ہوسکتاہے اگرحل ہوگاتوافہام اورتفہیم ، گفت وشنیدسے ہی حل ہوگااورکشمیرکے حریت پسندوں کوبھی ہندوپاک کے علاوہ ایک فریق سمجھناہوگاان کونظراندازکرکے مسئلہ کاحل ناممکن ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔