کیا گلیمر سے چمکے گی جمہوریت؟

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں کھیل، سنیما سے جڑی غیر سیاسی ہستیوں کے الیکشن لڑنے کا چلن پرانا ہے۔ موجودہ لوک سبھا انتخابات کے شروع میں یہ ٹرینڈ کمزور پڑتا لگ رہا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ ریکارڈ ٹوٹتا نظر آرہا ہے۔ آدھا الیکشن نکل جانے کے بعد بھی کھیل اور فلمی ستاروں کو ٹکٹ دیئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے لیڈروں، کارکنوں کی صلاحیت اور کارکردگی پر اتنا بھروسہ نہیں ہے کہ انہیں الیکشن میں اتارا جا سکے۔ کسی غیر معروف شخص کو ٹکٹ دینے کا جوکھم اٹھانے کے مقابلہ فلم یا کھیل سے جڑے کسی شخص کو اپنا امیدوار بنانا بہتر سمجھتی ہیں۔

ستاروں کے چناؤ میں آنے سے عوام خود بخود ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور پارٹی کا ان کی وجہ سے کوریج بڑھ جاتا ہے۔ ہمارا ملک ابھی تک ہیروزم کے سحر سے باہر نہیں نکل پایا ہے۔ اوپر سے 70 سالوں میں بھی عوام م کی سمجھ اتنی پختہ نہیں ہو پائی ہے کہ وہ اپنے امیدوار کو اس کی صلاحیت و کام کی بنیاد پر منتخب کر سکے۔ وہ جھوٹے وعدوں، نعروں، پروپیگنڈے اور مصنوعی ماحول سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اسی سادہ لوحی کا سیاسی جماعتیں گلیمر کے ذریعہ  فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔

 دیکھا گیا ہے کہ سیاست میں عام طور پر وہی ستارے داخل ہوتے ہیں جن کا کیرئیر ڈھلان پر ہوتا ہے۔ ان کے لئے سیاست کیرئیر کی دوسری پاری جیسی ہوتی ہے۔ انہیں سخت محنت سے کمائے ہوئے نام اور مقبولیت کی وجہ سے سیدھے چناؤ لڑنے کا موقع مل جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایسی سیٹوں سے ان ستاروں کو اپنا نمائندہ بناتی ہیں جہاں پچھلا امیدوار بدلنا ہوتا ہے۔ بالی وڈ اداکار سنی دیول کو پنجاب کے گرداس پور، مشہور گلوکار ہنس راج ہنس کو شمال مغربی دہلی، کرکٹ کھلاڑی گوتم گمبھیر کو مشرقی دہلی، بھوجپوری فلموں کے ہیرو روی کشن کو یوپی کے گورکھپور اور دنیش لال یادو عرف نرہووا کو اعظم گڑھ سے بی جے پی نے اکھلیش یادو کے سامنے چناؤ میں اتارا ہے۔

وہیں اولمپک کھیلوں میں تمغہ جیتنے والے بوکسر بجندر سنگھ  جنوبی دہلی اور بالی وڈ اداکارہ ارملا ماتونڈکر  نارتھ ممبئی سے کانگریس کے ٹکٹ پر چناؤ لڑ رہے ہیں۔ صوبائی پارٹیاں بھی پیچھے نہیں ہیں۔ ٹی ایم سی نے اداکارہ وماڈل نصرت جہاں، من من سین اور می می چکرورتی کو الیکشن میں قسمت آزمانے کا موقع دیا ہے۔ بالی وڈ کے دم دار ایکٹر پرکاش راج کرناٹک کے بیگلورو سینٹرل سے انتخابی میدان میں ہیں۔ کھیل اور فلمی دنیا کی ہستیوں کو پیراشوٹ سے انتخابات میں اتارنے کی وجہ سے زمینی سطح پر لوگوں کے درمیان کام کرنے والے کارکنان کو دھکا لگتا ہے۔ ان کے ایک نہ ایک دن الیکشن لڑنے کا موقع ملنے کی امید پر پانی پھر جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اصل جمہوریت کی جگہ جمہوریت کے ڈرامہ نے عوام کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ بلکہ عام اور بیدار شہریوں کو اس طرح عوام میں بدلا گیا ہے کہ ان کے نام پر اپنے غلط فیصلوں کو بھی صحیح ثابت کیا جاتا ہے۔

بحران تب شروع ہوتا ہے، جب سیاست پیچھے چھوٹ جاتی ہے اور گلیمر بڑا ہو جاتا ہے۔ 1984 میں جب امیتابھ بچن نے الہ آباد سے بہوگنا جیسے لیڈر کو ہرا دیا تھا، تو وہ سیاست پر گلیمر کی جیت تھی۔ امیتابھ بچن کی جیت میں جمہوریت میں سنجیدگی کی ہار بھی چھپی تھی۔ 1991 میں راجیش کھنہ نے لال کرشن اڈوانی کو دہلی میں لگ بھگ ہرا ہی دیا تھا۔ تب اڈوانی صرف 1500 ووٹوں سے جیت پائے تھے۔ ستاروں یا ان کی خاص شبیہ کے سیاست میں استعمال کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ ستاروں کے سیاسی استعمال کے معاملہ میں بی جے پی کو سبقت حاصل ہے۔ اس نے رامائن، مہا بھارت سیریلز کے اداکاروں کی مقبولیت کو بھنانے کے لئے سب کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی تھی۔ سیتا کا کردار ادا کرنے والی دپیکا بڑودا سیٹ سے جیتی تھی۔ رامائن کے راون اروند ترویدی بھی بی جے پی کے ٹکٹ سے لوک سبھا پہنچے تھے۔ مہا بھارت کے کرشن اور یودھشٹھر بھی انتخابی مہا بھارت کا حصہ بنے۔ یہ سلسلہ نو جوت سنگھ سدھو، ونود کھنہ، دھر میندر، پریش راول، ہیمامالنی، اسمرتی ایرانی سے ہوتے ہوئے کرن خیر تک آتا ہے۔

سیاسی گلیارے میں کچھ ستاروں کی بھد بھی پٹی۔ بی جے پی کے ٹکٹ پر بیکانیر سے جیتے دھرمیندر کو تلاش کرنے کے لئے ان کے حلقہ کے لوگوں نے لا پتہ کے پوسٹر چھپوائے۔ کچھ ایسا ہی واقعہ گووندہ کے ساتھ بھی چرچا میں رہا۔ کھیل و فلم سے جڑی ہستیوں کے بارے عام خیال ہے کہ وہ سیاست میں سنجیدگی سے کام نہیں کرتے۔ یہ ثابت بھی ہو چکا ہے لیکن کئی شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے فلم ٹیلی ویڑن سے حاصل اپنی پہچان کو پیچھے چھوڑ کر سیاست کو زیادہ سنجیدگی سے لیا۔ سنیل دت اس کی نمایاں مثال ہیں۔ کچھ حد تک ونودکھنہ، شتروگھن سنہا، راج ببر، سدھو، اسمرتی ایرانی اور جیا پردہ کو بھی اس فہرست میں رکھا جا سکتا ہے۔ جنوبی ہند میں تو پوری سیاست ہی فلمی ہستیوں کے ارد گرد گھومتی رہی ہے۔

 سیاست میں سنجیدہ بحث و مباحثہ کی جگہ گھٹنے اور سطحیت میں اضافہ کے پیچھے ستاروں کا داخلہ، باہو بل، دھن بل اور جرائم پیشہ لوگوں کے اثرات کا بڑھنا ہے۔ اس کی وجہ سے جمہوریت میں سوچ اور نظریہ کا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ جس کو راشٹر واد، فرقہ یا طبقہ واریت، بدعنوانی، سماجی انصاف جیسے جملے بازی سے پر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت پر اکثریت پسندی کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے اور سیاسی لیڈران عوام کے درمیان اپنا اعتماد کھوتے جا رہے ہیں۔ اس سے بچنے کے لئے ہی آئین ساز اسمبلی نے سوچ سمجھ کر پارلیمانی جمہوریت کو چنا تھا۔ تاکہ ملک پر کسی ایک کی بالا دستی نہ ہو بلکہ اس کی ترقی میں سب برابری کی بنیاد پر شریک ہوں۔

 بے یقینی کی کیفیت میں عوام کو گمراہ کرنا آسان ہوتا ہے کہ کچھ نہیں ہو سکتا اب کوئی مسیحا ہی سب کو ان کی تکلیفوں سے نجات دلا سکتا ہے۔ ایسے میں عوام جملے باز سے لے کر مسخری میں ماہر یا مول تول کرنے والے کسی شخص کو منتخب کر لیتے ہیں۔ دنیا بھر کی مثالیں یہی بتا رہی ہیں۔ یوکرین میں اسی جون میں کامیڈین وولودی میر جیلینسکی صدر بننے جا رہے ہیں۔ اسے روایتی سیاسی جماعتوں سے لوگوں کی بڑھتی مایوسی کا نتیجہ مانا گیا۔ دراصل سیاسی جماعتوں کے اپنی خاص نظریاتی پہچان کھونے اور عوام کی پریشانیاں کم نہ ہونے کی وجہ سے ستاروں کو سیاست میں جگہ دی جا رہی ہے۔ یہ سوچنے کا وقت ہے کہ کیا گلیمر سے جمہوریت چمکے گی یا سیاسی سوجھ بوجھ سے۔ جمہوریت میں ساری طاقت ووٹ میں پوشیدہ ہے۔ اسی کے ذریعہ سیاسی پارٹیوں، لیڈران اور الیکشن کے نظام کو درست کیا جا سکتا ہے۔ یہ موقع ہے جمہوری قدروں کی بازیابی کا۔ اس کے لئے بس اپنے ووٹ کا سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہوگا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔