کیا ہوگا سنگھ پریوار کا انجام؟

عالم نقوی

اس سلسلے میں اہل الرائے متفق نہیں بلکہ ان کی آرا مختلف اور متضاد ہیں۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ مودی  ۲۰۱۹ کا انتظار کرنے کے بجائے اسی سال ۲۰۱۸ کے اختتام پر  لوک سبھا تحلیل کرکے  ملک میں عام انتخابات کروادیں گے۔ ایک  اور گروہ کہتا ہے کہ اگر بی جے پی کرناٹک کا الکشن ہار گئی تو مودی ۲۰۱۹ میں اپنے وقت ہی پر لوک سبھا الکشن کروائیں گے لیکن اس کے لیے ’’تیاریوں ‘‘کی نوعیت مختلف ہوگی جس کا اشارہ موہن بھاگوت کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے سنگھ کی ’سینا ‘ کو بھارتی سینا سے بہتر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’وہ صرف تین دن کے نوٹس پر میدان میں اتر سکتی ہے‘‘ ! ظاہر ہے کہ  میدان  سے ان کی مراد ’لائن آف ایکچول کنٹرول ‘ یا ہند چین سرحد نہیں ہے ! اس کی تائید ایک مسلم رہنما مولانا خلیل ا لرحمن سجاد نعمانی اور ایک دلت لیڈر  پرکاش امبیڈکر کے بیانات سے بھی ہوتی ہے جس میں مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف بھاگوت کی مسلح سینا کے  ممکنہ ’’استعمال ‘‘کا انتباہ دیا گیا ہے!

ایک تیسرا گروہ بھی ہے جو کہتا ہے کہ مودی یوگی بھاگوت اینڈ کمپنی کرناٹک،تریپورہ اور لوک سبھا  سمیت  مستقبل کے سبھی انتخابات ہار رہی ہے! اس گروہ کے نزدیک سام دام دنڈ بھید، خون، فساد اور ای وی ایم  کچھ بھی سنگھ پریوار کے کام نہیں آئے گا کیونکہ بھارت واسیوں کی اکثریت دنگا اور  قتل عام  نہیں امن اور استحکام چاہتی ہے !

مثلا! اروند کالا نے لکھا ہے کہ نریندر مودی اپنی زندگی کی بدترین شکست کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کے آثار نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ ناندیڑ (مہاراشٹر )کے  حالیہ بلدیاتی الکشن میں بی جے پی کا صفایا ہو گیا ہے اور کانگریس نے ۷۱ میں سے ۶۷ سیٹوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ دوسرا نمبر دہلی کا ہے جہاں  اسٹوڈنٹس یونین کے ایک الکشن میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کا صفایا ہو گیا۔ اسی طرح جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی اور حیدرآباد یونیورسٹی کے الکشن میں بھی بی جے پی حامی  امیدواروں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ دہلی کی بوانا اسمبلی سیٹ کے ضمنی الکشن میں نہ صرف عام آدمی پارٹی امیدوار جیتا ہے بلکہ کانگریس کو دوسری اور بی جے پی کو تیسری پوزیشن حاصل ہوئی ہے۔ عام آدمی، غریبوں اور کسانوں پر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی لائی ہوئی  تباہی  سنگھ پریوار کے سیاسی زوال کا اشاریہ ہے۔

اروند کالا کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کی حد درجہ احمقانہ اور جاہلانہ  گائے پالیسی ان کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہونے والی ہے۔ گائے پالنے والے  ملک کے اٹھارہ کروڑ نہایت غریب کسان خاندان   گائے کی فروخت پر پابندی کے کالے قانون کی وجہ سے فی خاندان ۲۵ ہزار کروڑ روپئے کے حساب سے  نہ صرف ساڑھے چار لاکھ کروڑ روپئے سال کی آمدنی سے یکلخت محروم ہو گئے ہیں  بلکہ یہی لاکھوں کروڑوں  بھوکی گائیں ان  کسانوں کی فصلیں بھی  برباد کر رہی ہیں !اس طرح اندھی حکومت کا ایک کالا قانون کروڑوں کسانوں کی بھکمری کا سامان بنتا جارہا ہے۔ گائے پالنے والے یہ اٹھارہ کروڑ کسان اگلے الکشن میں مودی کی پارٹی کو بہر حال ووٹ نہیں دینے والے !

اب رہا شہروں کا معاملہ تو ملک کے مشہور ماہر اقتصادیات مہیش ویاس کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی روزگار سے محرومی کا ایک بڑا سبب بن چکی ہے صرف ایک سال کے دوران پرائوٹ سکٹر میں سات کروڑ لوگ اچانک بے روزگار ہوگئے ہیں یعنی  ملک میں  بھکمری کے شکار افراد کی تعداد میں اچانک مزید اٹھائس کروڑ  کا اضافہ ہو گیا ہے۔ کم از کم شہروں کے  یہ اٹھائیس کروڑ  لوگ بھی اگلے الکشن میں مودی اینڈ کمپنی کو ووٹ نہیں دینے والے !

جی اس ٹی نے تو پورے ملک میں معمول  کی تجارتی سرگرمیوں کو تقریباٍ مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔چھوٹے اور اَن پڑھ تاجر  نہ  جی ایس ٹی کی کاغذی مار جھیل   سکتے ہیں  نہ چارٹرڈ  اکاؤنٹنٹس کی مہنگی  فیس  کا بوجھ اُٹھا  سکتے ہیں۔ دوسری طرف ملک  کی بے  روزگاروں  کی  فوج میں روزانہ تیس ہزار نوجوانوں کا اضافہ ہو جا تا ہے اور روزگار کے نئے مواقع کو کون کہے کہ جو تھے وہ بھی جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کی نذر ہو گئے ہیں۔ تو اب یہ نوجوان کیا کریں گے ؟ غیر قانونی اور غیر اخلاقی کاموں کے سوا حکومت نے اُن کے لیے اور کچھ چھوڑا ہی نہیں۔ سو دہلی میں اگر رہزنی اور ڈکیتی  کی وارداتوں میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے !

لارسن اینڈ ٹوبرو ملک کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے  وہاں پچھلے  تین برسوں میں  ۱۴ ہزار افراد چھٹنی کی نذر ہو چکے ہیں۔ ایف ڈی ایف سی بینک نے اس دوران گیارہ ہزار افراد کو باہر کا راستہ دکھا یا ہے۔ اور ’یَس بینک ‘نے اپنے دس فی صد اسٹاف کو نکال باہر کیا ہے۔ غرض یہ کہ بامبے اسٹاک ایکسچینج میں مندرج ۱۲۱ کمپنیاں چھَٹنی کرنے والی کمپنیز میں شامل ہیں۔ اِن کمپنیوں میں نئی اَسامیوں کی تعداد میں بھی ہر سال اِضافے کے بجائے کمی ہو رہی ہے۔ آئی ٹی (انفارمیشن ٹکنالوجی اور کمپیوٹر ) کمپنیوں کا حال سب سے زیادہ خراب ہے۔ لہٰذا بی جے پی کے دوبارہ اقتدار میں واپس آنے کے امکانات تو برائے نام ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پھر   دلی میں مودی۔ شاہ اور جیٹلی کے پھیلائی ہوئی گند کو صاف کرنے کے لیے تخت ِ اقتدار پر بیٹھے گا کون  ؟کانگریس ؟ ہمارے نزدیک اگر وہ دو بارہ آبھی جاتے ہیں تو سنگھ پریوار کی پروردہ بیورو کریسی  انہیں سکون  اور ایمانداری سے کام کرنے دے گی، ہمیں اس میں شک ہے۔ اب یہ ملک مکمل اُووَر ہال چاہتا ہے یعنی انقلاب۔ ۔! اور اس کے آثار قریب ترین مستقبل میں تو ہمیں نظر نہیں آتے ! تو پھر کیا ہوگا ؟ صرف   فاشسٹ اور ظالم سنگھ پریوار ہی نہیں ملک  کے سارے مُسرفین و مُترفین ، کل نہیں تو پرسوں اپنے انجام کو پہونچ کے رہیں  گے لیکن جسے حقیقی معنی  میں ’امن اور استحکام ‘ کہتے ہیں  اُس کے لیے اہل ایمان کو ابھی  مزید قربانیاں دینی ہوں گی، اس کے بغیر گوہر مراد ہاتھ آنے والا نہیں۔ ۔ فھل من مدکر ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔