گاندھی کو کیوں مٹا دینا چاہتے ہیں مودی اورشاہ؟

ڈاکٹر قمر تبریز

موہن داس کرم چند گاندھی، جس نے ہندوستانیوں کو انگریزوں کی غلامی کے خلاف لڑنے کا حوصلہ بخشا۔ وہ گاندھی، جسے برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے ’ننگا فقیر‘ کہہ کر ذلیل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کی عظمت کا لوہا چرچل کو بھی ماننا پڑا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس گجرات نے موہن داس کرم چند گاندھی کو جنم دیا، آج اسی گجرات سے تعلق رکھنے والے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ تاریخ کے صفحات سے گاندھی کے نام کو مٹا دینا چاہتے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر سال 2 اکتوبر کو جس دن ہندوستان اور پوری دنیا کے لوگ گاندھی کا یومِ پیدائش مناتے ہیں ، مودی نے وزیر اعظم بنتے ہی، اس 2 اکتوبر کو ’سووچھتا دیوس‘ منانے کا اعلان کرکے گاندھی کو تاریخ کے صفحات سے ختم کرنے کی ہی کوشش کی تھی۔ دنیا میں جتنی بھی باضمیر قومیں ہیں ، وہ اپنے رہنما اور قائد کو اچھے القاب و آداب کے ساتھ یاد رکھتی ہیں ۔ ان کے یومِ پیدائش پر جشن مناتی ہیں ، لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے مہاتما گاندھی کے یومِ پیدائش کو جھاڑو لے کر صفائی کرنے کے نام پر منسوب کر دیا ہے۔ اور اب، ان کے سپہ سالار امت شاہ اسی گاندھی کو ’چالاک بنیا‘ کا لقب دینے پر تلے ہوئے ہیں ۔

دراصل، گاندھی اور مودی کے ہم نواؤں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ گاندھی نے ہندوستانیوں کو ’عدم تشدد‘ کا سبق پڑھایا تھا، جب کہ مودی اور ان کے ہم نوا ’تشدد‘ میں یقین رکھنے والے لوگ ہیں ۔ مودی پوری دنیا میں گھوم گھوم کر یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ہیں ، جب کہ ملک کے اندر ان کے ہم نوا لگاتار مسلمانوں اور دوسری قوموں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں ، کبھی ’گھر واپسی‘ کے نام پر، کبھی ’گئو رکشا‘ کے نام پر، تو کبھی ’اینٹی رومیو اسکواڈ‘ کے نام پر۔ گاندھی نے گجرات کی سرزمین سے پوری دنیا کو پیغام دیا تھا کہ تشدد کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے، بلکہ ’عدم تشدد‘ اور ’ستیہ گرہ‘ سے بڑی سے بڑی لڑائی جیتی جا سکتی ہے۔ لیکن، مودی اور ان کے سپہ سالار امت شاہ نے 2002 میں جس طرح گجرات میں مسلمانوں کے خلاف ’تشدد‘ کا ننگا ناچ کھیلا، اب وہ پورے ہندوستان میں اسی ’تشدد‘ کی توسیع کر رہے ہیں ۔ ابھی اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی حکومت کو بنے ہوئے بہت زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں ، لیکن وہاں قانون اور انتظامیہ کی صورتحال جس طرح خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے، اس کا کسی نے تصور نہیں کیا تھا۔ اسی طرح، مدھیہ پردیش میں شیوراج کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے جس طرح کسانوں پر گولیاں چلائی ہیں ، وہ بھی مودی کے ’تشدد‘ پر مبنی نظریات کی ہی توسیع ہے۔

مودی اور امت شاہ اس ہندو شدت پسند تنظیم کے پیروکار ہیں ، جس نے موہن داس کرم چند گاندھی کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اب، جب اقتدار ان کے ہاتھ میں آگیا ہے، تو وہ گاندھی اور اس کے نظریات کو پوری طرح دفن کر دینا چاہتے ہیں ۔ مودی گجرات کے ساحل پر سردار ولبھ بھائی پٹیل کی مورتی بنوانے پر کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں ، حالانکہ انھیں اگر مورتی بنوانی ہی تھی، تو سب سے پہلے گاندھی جی کی بنواتے، کیوں کہ پٹیل کا مرتبہ گاندھی جی سے بڑا نہیں ہو سکتا۔ گاندھی اگر نہیں ہوتے، تو نہ پٹیل ہوتے اور نہ ہی جواہر لعل نہرو۔ گاندھی کی جدوجہد اور دوراندیشی نے پٹیل کو پٹیل اور نہرو کو نہرو بنایا۔ لیکن، مودی اور امت شاہ کو لگتا ہے کہ جب تک ہندوستان کی تاریخ سے گاندھی کا نام نہیں مٹایا جائے گا، تب تک ان دونوں کا نام تاریخ کے صفحات میں درج نہیں ہوگا۔ شاید اسی لیے وہ اس نچلی سطح تک اتر آئے ہیں ۔

کمال تو یہ ہے کہ آپ کسی بڑی لکیر کو مٹا کر اس کے سامنے اپنے نام کی کوئی بڑی لکیر نہ بنائیں ، بلکہ اگر آپ میں صلاحیت ہے، تو اپنے کارناموں سے اس سے بڑی لکیر کھینچ کر دکھا دیں ۔ مودی اور امت شاہ کے ہاتھ خون سے اتنے رنگے ہوئے ہیں کہ وہ لاکھ کوشش کر لیں ، گاندھی سے کبھی بڑے نہیں ہو سکتے۔ انھیں تو صرف ’چوری چورا کانڈ‘ سے سبق لینی چاہیے، جب جدوجہد آزادی اپنے عروج پر تھی اور ملک کے تمام بڑے لیڈروں کو یہ امید ہو چلی تھی کہ اب انگریز ہندوستان چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ لیکن، گاندھی جی کو جیسے ہی یہ پتہ چلا کہ کچھ لوگوں نے گورکھپور کے پاس واقع چوری چورا کے مقام پر کچھ انگریزوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے، انھوں نے اپنی پوری ’عدم تعاون تحریک‘ ہی واپس لے لی۔ گاندھی جی ’عدم تشدد‘ کے نام پر بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار تھے۔ ان کا صرف ایک ہی منتر تھا کہ انگریز چاہے جتنا ظلم کر لیں ، وہ ان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ اسی لیے، جب کبھی انگریزوں کا ظلم بڑھتا، گاندھی جی بھوک ہڑتال پر بیٹھ جاتے۔

آج اسی گاندھی کو ’سوٹ بوٹ‘ کے دلداہ مودی اور ان کے اشارے پر پورے ہندوستان کو اپنی مٹھی میں بند کر لینے کا خواب پالنے والے امت شاہ ایک ’جھاڑو‘ میں قید کر دینا چاہتے ہیں ۔ پیشہ سے گاندھی جی ایک بیرسٹر تھے، لندن سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے، کوٹ پینٹ پہنا کرتے تھے۔ لیکن، جب انھوں نے پورے ہندوستان کا دورہ کیا اور یہاں کی غریبی کا قریب سے مشاہدہ کیا، تو انھیں اپنا کوٹ پینٹ پریشان کرنے لگا۔ تبھی سے گاندھی جی نے کوٹ پینٹ کو پھینک کر دھوتی پہن لی، اور ہاتھ میں ایک لاٹھی پکڑ لی۔ لاٹھی کسی پر چلانے کے لیے نہیں ، بلکہ اپنے کمزور ہوتے جسم کو سہارا دینے کے لیے۔ ایک دھوتی تھی، جس سے وہ اپنا آدھا جسم ڈھکتے اور آدھا جسم کھلا رہتا۔ عیش و آرام میں پلا بڑھا گاندھی، چاہتا تو زندگی بھر اسی عیش و آرام سے گزار دیتا، لیکن اپنے ہم وطنوں کی غریبی اس سے دیکھی نہیں گئی اور اس نے انگریزی لباس کو ترک کر دیا۔ تعریف کی بات تو تب ہوتی، جب مودی اور امت شاہ بھی گاندھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اسی دھوتی اور لاٹھی کو اپنا لباس بناتے، لیکن یہ لوگ اب عظیم گاندھی کی شان میں گستاخی کرنے سے نہیں چوک رہے ہیں ۔ اور طرہ یہ ہے کہ اپنے کو ’سب سے بڑا دیش بھکت‘ کہتے ہیں ۔

یہ فرضی ’دیش بھکت‘ ہیں ، جو ملک کا نام بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ انھیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ ایک ’شدت پسند ہندو تنظیم‘ کے پیروکار ہیں ۔ کوئی کسی تنظیم کا رکن ہو، اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے، لیکن اگر ملک کے تانے بانے سے اگر یہ لوگ کھلواڑ کریں گے، تو اسے کوئی بھی سچا محب وطن برداشت نہیں کر سکتا۔ جس وقت ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تھا، اس وقت اس ’ہندو شدت پسند تنظیم‘ کے لوگ نہیں چاہتے تھے کہ گاندھی جی مسلمانوں کو پاکستان جانے سے روکیں یا پھر آپس میں ایک دوسرے کا خون بہانے والے ہندوستانیوں کے خلاف کچھ بولیں ۔ لیکن، گاندھی جی کی فطرت میں ایسا نہیں تھا کہ کسی کا قتل ہو رہا ہو اور وہ خاموش بیٹھے رہیں ۔ اسی لیے، 15 اگست 1947 کو جب ہندوستان آزاد ہوا، تو دہلی میں جہاں سردار پٹیل اور جواہر لعل نہرو آزادی کا جشن منا رہے تھے، اس وقت گاندھی نوا کھالی میں ایک غریب کی جھونپڑی میں بیٹھ کر آنسو بہا رہا تھا کہ اس نے انگریزوں کے خلاف یہ لڑائی اس لیے نہیں لڑی تھی کہ اسے یہ دن دیکھنا پڑے۔ وہ چاہتے تھے کہ آزاد ہندوستان میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور تمام مذہب و مسلک کے لوگ آپس میں مل جل کر رہیں ۔ لیکن، کچھ شرپسند عناصر ایسا تب بھی نہیں چاہتے تھے اور اب بھی نہیں چاہتے۔ یہ لوگ تب بھی خون خرابہ کر رہے تھے اور آج بھی پورے ملک میں خون خرابہ کر رہے ہیں ۔

مودی اور امت شاہ کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر انھوں نے گاندھی جی کے نظریات کو اہمیت نہیں دی اور ان کے نقش قدم پر نہیں چلے، تو ہندوستان اپنی طاقت کھو دے گا۔ ہمیں آج پوری دنیا میں اس بات پر ناز ہے کہ سب سے زیادہ مذاہب کو ماننے والے ہندوستان میں رہتے ہیں ۔ اس سماجی تانے بانے کو جتنا مضبوط رکھا جائے، ہم ہندوستانیوں کے لیے وہ اتنا ہی کارگر اور باعث فخر ہوگا۔ مودی اور امت شاہ کی جوڑی نے گجرات میں جو خون کی ہولی کھیلی تھی، اسے فوری طور پر پورے ہندوستان میں پھیلنے سے روکنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہمارا ملک بری طرح منتشر ہو جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔