گجرات الیکشن: کیا بی جے پی پھر بازی مار لے گی؟ 

 نازش ہما قاسمی

دو مرحلوں میں ہونے والے گجرات انتخابات مکمل ہوچکے ہیں؛ پہلے مرحلے میں ۶۸ فیصد اور دوسرے مرحلے میں ۷۰ فیصد ووٹ ڈالے گئے ہیں ووٹ فی صد کا بڑا تناسب کسی بڑی تبدیلی کی جانب اشارہ کرتا ہے ویسے اس الیکشن میں جو طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا اس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں، ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کی گئ الزام تراشی کی گئ، عزت کی نیلامی کا بازار گرم کیا گیا وہ اوچھی گھٹیا اور نیچ سیاست کی اعلی ترین مثال ہے؛ منی شنکر ایئر کا وزیر اعظم کو نیچ کہنا پھر اس کے جواب میں وزیر اعظم کا سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری وغیرہ کو گجرات الیکشن جیتنے کیلیے پاکستان سے ساز باز کرنے کا الزام لگانا اور اس پر اڑے رہنا ایک گٹھیا اور ناقابل معافی حرکت تھی۔

بی جے پی کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ ہندو بنام مسلم حکمرانی کرے لیکن جب جب یہ داو فیل ہوتا نظر آیا اس نے بیچ مین پاکستان کو گھسیٹا ہے اس سے قبل بھی بہار الیکشن میں اسی طرح کی حرکت کی گئی مہا گٹھ بندھن کو ہرانے کے لیے تمام تر حربے آزمائے گئے جب احساس ہوا کہ تمام تدابیر ناکام ہورہی ہیں تو سیدھے جذبات پر حملہ کرتے ہوئے بی جے پی صدر امیت شاہ نے کہا اگر بہار الیکشن میں مہاگٹھ بندھن جیت جائے گا تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے۔ اسی طرح گجرات الیکشن کو بھی جیتنے کی کوشش کی گئی ترقی کا رول ماڈل گجرات جو بقول راہل گاندھی محض آٹھ دس لوگوں کا ہی رول ماڈل ہے تمام گجراتیوں کا نہیں اس سے صرف چنندہ لوگون کی ہی ترقی ہوئی ہے آج بھی گجرات بی جے پی کے ۲۲ سالہ دور اقتدار میں پچھڑا ہوا ہے یہاں بھی وکاس کے نام پر الیکشن لڑنے کی کوشش کی گئی لیکن اپوزیشن اور گجرات کے ارواح ثلاثہ ہاردک پٹیل اور دیگر دو نوجوانوں نے وکاس کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ جب گیند پالے سے سرسکتا ہوا محسوس ہوا تو سیاست کی بدترین تاریخ کا باب کھولتے ہوئے وزیر اعظم نے ایسا الزام عائد کیا کہ ملک کے لیے شرمندگی کی بات ہوگئی۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ گجرات الیکشن میں آئی ایس آئی چاہتا ہے کہ کوئی مسلمان یعنی احمد پٹیل وزیر اعلی ہو، اس طرح بی جے پی کے الیکشن جیتنے کا حربہ اور داو رہا ہے۔

بہار مین مکمل ناکامی کے باوجود اس نے سی ایم ہیک کرکے حکومت بنالی، گوا منی پور میں جبرا بنائی اور یوپی میں تمام رائے عامہ کے مخالف ہونے کے باوجود بھی ای وی ایم کی مہربانی سے حکومت قائم کی ہے۔ اب تمام ترایگزٹ پول گجرات میں بی جے پی کو اکثریت میں دکھا رہے ہیں ہوسکتا ہے یہاں بھی حکومت بن جائے۔ خیر گجرات کے تمام بڑے بڑے سورماؤں کی قسمت کا فیصلہ اب ای وی ایم میں بند کیا جاچکا ہے،عوام نے اپنی جمہوری طاقت کو ایک مشین میں بند کردیا ہے،کل کا سورج کس کیلئے نوید سحر لائے گا اب اس کیلئے زیادہ انتظار کی ضرورت نہیں ہے،گجرات کو سارے ملک کیلئے رول ماڈل بنا کر پیش کیا گیا تھا،اب خود اسی گجرات میں مودی جی کا امتحان ہے،گزشتہ بائیس سالوں سے گجرات میں بی جے پی براجمان ہے، بظاہر ہی سہی لیکن بی جے پی نے گجرات کی ترقی کا ڈھنڈورا پورے ملک میں پیٹا ہے۔

گجرات میں وکاس کو اس انداز سے پیش کیا گیا گویا کہ وہ کوئی ہندوستان کا ایک صوبہ نہیں بلکہ الگ سے ایک ملک ہے جس کی مکمل باگ ڈور بی جے پی اور مودی جی کے ہاتھ میں ہے،پورا ملک خصوصا نارتھ انڈیا میں گجرات کو ایک سنہرا سپنا بنا کر پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ اگر یہاں بھی بی جے پی کی حکومت بنے گی تو یہاں بھی گجرات جیسی ہی ترقی ہوگی، لیکن ہوا کیا یہ اب جُگ ظاہر ہوگیا ہے،کہاں کتنی ترقی ہوئی اور کتنا گھوٹالہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، گجرات کا الیکشن وکاس کے نام پر شروع ہوا اور آہستہ آہستہ پاکستان تک پہونچ گیا، گجرات کے وکاس کا اصل چہرہ پہلے راہل گاندھی نے(وکاس پاگل ہوگیا ہے) سے شروع کیا اور اس کی پوری پول کھول دی گجرات کے تین نوجوانوں نے گجرات کے حقیقی صورت حال کو عوام کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ گجرات میں اصل وکاس کس کا ہے، ایک طرف بی جے پی اپنے تمام لاؤ لشکر کے ساتھ بشمول وزیر اعظم کے میدان میں تھی تو دوسری طرف کانگریس کے نئے منتخب شدہ صدر راہل گاندھی تنہا تھے، اس پورے الیکشن میں ایسا کہیں محسوس نہیں ہوا کہ یہ وہی راہل ہے جسے بی جے پی پپو کہ کر بلایا کرتی تھی، راہل گاندھی نے گجرات کے تین نوجوان کندھوں پر بھروسہ کرتے ہوئے پورا الیکشن لڑا ہے۔

کل کی صبح کون گجرات کا سنگھاسن سنبھالے گا اور کسے سنیاس ملے گا یہ الگ بات ہے، اگر ایگزٹ پول کی بات کی جائے تو اب اس میں بہت زیادہ دم نہیں رہ گیا ہے، خصوصا تعلیم یافتہ طبقہ کی نظر میں اس کی اہمیت معدوم ہوتی جارہی ہے پھر بھی یہ معمہ ہے عقدہ ہے جو کل کھل جائے گا۔ یہ الیکشن ۲۰۱۹ کے لوک سبھا کا سیمی فائینل الیکشن ہے اگر بی جے پی واقعی جیت جاتی ہے تو ملک اور جمہوریت کیلیے خطرناک ہوگا اور اگر کانگریس کے پالے میں گیند جاتی ہے وہ حکومت بناتی ہے تو ہوسکتا ہے اس کامیابی سے ۲۰۱۹ میں کانگریس پورے ملک کے عوام کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ ویسے آثار و قرائن اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتے ہیں کہ کانگریس ہی بازی مارے گی کیونکہ الیکشن کمیشن کی ناقص کارکردگی، ای وی ایم میں صریح دھاندلی اسی کی طرف اشارہ کررہی ہے، اور کمل کھلنے کی امیدیں قوی ہوتی جارہی ہیں، جمہوریت پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے، اتنے شکوک و شبہات کے باوجود الیکشن کمیشن ای وی ایم ہی پر کیوں بضد ہے، خیر دہلی کی طرح کوئی معجزہ ہوجائے اور عام آدمی پارٹی کی طرح کانگریس بی جے پی کا صفایا کردے تو ممکن ہے راہل گاندھی اپنی ساکھ  اور عزت  بچانے میں کامیاب ہوجائیں جو ذمہ داری ان کو سونپی گئی ہے اسے الیکشن جیت کر سرخرو ہوسکیں۔

گجرات الیکشن کی جیت یہ ثابت کرے گی کہ ۲۰۱۹ میں ملک کی باگ و ڈور کس کے ہاتھ میں جانے والی ہے اگر بی جے پی کامیاب ہوجاتی ہے اور کانگریس ناکام تو یہ المیہ سے کم نہیں ہوگا لیکن اگر ناکامی کے بعد کانگریس تمام اپوزیشن کا اتحاد کرکے مخلص ہوکر جمہوریت کی بقا اور ظلم کی چکی میں پسنے والی ڈیجیٹل انڈیا کے غلام عوام کی دادرسی کے لیے مکمل طور پر اٹھ کر لڑے گی تو ہوسکتا ہے سابق وزیر اعظم ہند اٹل بہاری کی حکومت کے بعد دس سال تک کانگریس کی حکومت قائم ہوگئی تھی اسی طرح نریندر مودی کے پانچ سالہ دور اقتدار کے بعد کانگریس پھر آجائے۔ اس کے لیے راہل گاندھی کو تمام اپوزیشن کو متحد کرنا ہوگا نوجوان نسل کو ساتھ لے کر تبدیلی کی راہیں ہموار کرنی ہوں گی اور دیگر سیکولرازم کی پاسدار پارٹیوں سے جمہوریت کی بقا کے لیے دہائی دے کر اتحاد کرنا ہوگا۔ اسی وقت بی جے پی کے عفریت کو روکنے میں کامیاب ہوں گے، نفرت کی سیاست کا خاتمہ ہوگا، بی جے پی کو اپنی حکمت عملی کی خامی کا احساس ہوگا، لیکن اگر بی جے پی فتح یاب ہوتی ہے تو نفرت کی سیاست جو تقویت حاصل ہوگی اور ملک کے مختلف انتخابات میں نفرت ہی فتح کی کنجی ہوگی مسلمانوں پر ملامت کرکے پاکستان کا سہارا لے کر فتح کا پرچم لہرایا جائیگا۔!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔