گجرات الیکشن کے نتائج: غور و فکر کے چند اہم پہلو

نایاب حسن

 دو صوبوں میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سامنے آگئے اور بی جے پی ایک بار پھر سرخ رو ہوکر نکلی ہے،الیکشن میں ہار جیت معمول کی بات ہے،مگر 2014کے بعد سے ہندوستانی انتخابی سیاست میں جوغیر معمولی انقلاب رونما ہوا ہے،اس کی وجہ سے یہ انتخابات گویا وقتی جنگ میں تبدیل ہوگئے ہیں ؛چنانچہ ہم روز بروز دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے سیاسی رہنما انتخابی تشہیر کے دوران ہر اس اخلاقی وغیر اخلاقی حربے کو اختیار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ الیکشن میں کامرانی حاصل کرسکتے ہیں، اس بار کے انتخابات میں بھی اس قسم کی کچھ نئی اور شرمناک چیزیں سامنے آئیں۔ ہماچل پردیش پربی جے پی نے زیادہ دھیان نہیں دیا ؛کیوں کہ اسے یقین تھا کہ وہاں پہلے سے کانگریس کی حکومت ہے اور اس کے پاس کانگریس کو زیرکرنے کے بے شمار اسباب ہیں، جنھیں مقامی لیڈران بھی کیش کراسکتے ہیں، کانگریس نے بھی ہماچل پردیش سے زیادہ گجرات پر توجہ مرکوز رکھی کہ گجرات الیکشن کی معنویت کی بے پناہ وجہیں تھیں، بی جے پی کا توخیر کہناہی کیا،مودی وامیت شاہ کی جنم بھومی گجرات ہے اور ان کی پوری سیاست گجرات میں ہی پلی بڑھی ہے،سو گجرات کو چھٹی بار حاصل کرنے کے لیے پورا زور صرف کیا،نہ صرف مودی و امیت شاہ ؛بلکہ بیسیوں ممبران پارلیمنٹ، حتی کہ کئی صوبوں کے وزراے اعلیٰ تک کو انتخابی تشہیر میں استعمال کیاگیا،اس دوران مودی ملک اور ملکی ترقیات کے منصوبوں سے قطعی بے تعلق رہے۔

’’سی پلین ‘‘سے اڑنے والا ڈرامہ کیا بھی، تو گجرات میں اور اس کو بھی انتخابی تشہیر کے لیے استعمال کرلیا، جب ووٹنگ کا پہلا مرحلہ گزرااور سروے آنے لگے کہ اس میں کانگریس کو زیادہ ووٹ پڑے ہیں، تو مودی اینڈ کمپنی اپنے اصلی روپ میں آگئی اور انھوں نے ’’وکاس‘‘کا چولا اتارکرپہلے احمد پٹیل کو لپیٹاکہ کانگریس جیتے گی تو میاں احمد پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنائے گی،وزیر اعظم لوگوں سے یہ پوچھتے نظر آئے کہ تمھیں مسجد چاہیے یا مندر؟اس کے بعد منی شنکر ایئر کے ایک بیان کو( جوواقعی غلط تھا)بالکل غیر متعلق سیاق و سباق میں لے جاکر باقاعدہ عوامی جلسے میں مودی نے عوام کے جذبات سے کھیل کر انھیں اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی،اس کے بعدآخری حربے کے طورپر انھوں نے تمام تر اخلاقی و انسانی اصول اور اپنے عہدے کے وقار و اعتبار کو بالاے طاق رکھ کر منی شنکر ایئر کے گھر ہونے والی ایک عام سی دعوت کونہایت پر اسرارانداز میں بیان کرکے ایک ’’خفیہ میٹنگ‘‘قراردیا اور سابق وزیر اعظم،نائب صدر، سابق فوجی سربراہ اور دیگر کئی اعلیٰ سطح کے سیاست دان و ڈپلومیٹس کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان قائم کردیا،افسوس کہ یہی چیزیں ان کے حق میں گئیں اور بالآخر دوسرے مرحلے کی پولنگ میں بی جے پی بازی مارگئی۔

 البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانگریس نے اس الیکشن میں اپنی غیر معمولی اہمیت کو تسلیم کروایاہے،راہل گاندھی جہاں اب کانگریس کے صدر کے طورپر نئے رنگ و روپ میں نظر آرہے ہیں، وہیں انھوں نے گجرات الیکشن کے دوران اپنی گفتگو، طرزِ گفتگو،دلائل و شواہد کی روشنی میں معقول خطاب،عوامی پہنچ وغیرہ کے ذریعے بی جے پی خیمے میں بھی کھلبلی مچادی تھی اور جو بی جے پی پہلے ’’پپو‘‘کہہ کر ان کی تضحیک کرتی تھی،اس الیکشن میں راہل کی وجہ سے اس کی اور اس کے تمام بڑے چھوٹے لیڈروں کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں، نتائج بھی کانگریس کے لیے بہت مایوس کن نہیں ہیں، 1985کے بعد پہلی بار کانگریس کو گجرات میں اتنی نشستیں حاصل ہوئی ہیں، گجرات کے سابق آئی پی ایس افسر سنجیوبھٹ نے ان نتائج کے حوالے سے اپنے فیس بک وٹوئٹرپیج پر ایک ریویو پیش کیا،جس کے مطابق کم ازکم انیس نشستوں پر کانگریس کو بہت معمولی فرق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی وجہ یا تو بی ایس پی کا امید واررہا یا کوئی آزاد مسلمان امید وار،یہ ایک تشویشناک امرہے،گجراتی مسلمانوں کو اس پر سوچنے کی ضرورت ہے،ظاہرہے کہ ان آزاد امیدواروں کو کانگریس ہی کوہرانے کے لیے میدان میں اتارا گیا ہوگا اور انھیں کانگریس کی مقابل جماعت نے ہی اتارا ہوگا؛کیوں کہ ا ن کو حاصل ہونے والے ووٹس سے قطعاً یہ نہیں لگتا کہ وہ خود الیکشن فائٹ کرنے کی پوزیشن میں تھے،مثال کے طورپر گودھراسیٹ پر پانچ مسلم امیدوار کھڑے تھے،ان میں سے ایک کو1713دوسرے کو1435تیسرے کو494چوتھے کو 441 اور پانچویں کومحض248ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔

 اس الیکشن میں ہندوستانی سیاسی منظرنامے پر کے کئی نئے چہرے ابھرکر سامنے آئے ہیں، ہاردک پٹیل کو گو اپنی تحریک میں مکمل کامیابی نہیں ملی،مگر جتنی ملی وہ بھی کم نہیں ہے، انھوں نے نتائج آنے کے بعد اپنے انٹرویو میں کہابھی ہے کہ گجرات کے لوگ بیدار تو ہوئے ہیں، مگر ابھی پوری طرح بیدار نہیں ہوسکے ہیں، جس کے لیے وہ آیندہ بھی اپنی تحریک جاری رکھیں گے،الپیش ٹھاکر ایک بڑے اور نمایاں اپوزیشن لیڈرکے طورپر سامنے آئے ہیں، جگنیش میوانی کی زبردست جیت گجرات کے دلت و پسماندہ قبائل و برادری کے لیے حوصلہ افزاہے اور آیندہ کچھ دلچسپ چیزیں سامنے آنے والی ہیں۔

مسلمانوں کی نمایندگی کے اعتبار سے گجرات الیکشن کو دیکھا جائے،تو9.65فیصد آبادی والے اس صوبے میں جہاں 2012میں دومسلم امید وار کامیاب ہوکر اسمبلی پہنچے تھے،وہیں اس بار چار پہنچے ہیں، پچھلی بار کانگریس نے چار امیدوار کو ٹکٹ دیاتھا اوراس بار چھ کو دیا گیا،جس طرح مسلم امیدوار وں کو ٹکٹ ملا تھا،اس اعتبار سے دیکھیں تو ان کی کارکردگی بہت عمدہ ہے۔ کانگریس کو اس بارے میں سوچنا چاہیے کہ مسلمانوں کو زیادہ نہیں، توکم ازکم ان کی مجموعی آبادی کے تناسب سے اسمبلی میں نمایندگی کا حقدارگردانا جائے اوراسی لحاظ سے انھیں ٹکٹ دینے پر غور کیا جائے۔بی جے پی نے آخری بار 1998میں ایک مسلم امیدوار میدان میں اتارا تھا، تب سے اب تک اس نے گجرات کے کسی بھی اسمبلی الیکشن میں کوئی بھی مسلم امیدوار نہیں اتارا،اِس بار بھی نہیں، ہاں اس کا غالب گمان ہے کہ جوآزاد مسلم امیدوار کھڑے تھے،انھیں بی جے پی کی طرف سے اتاراگیا ہوگا، مثال کے طور پرگودھراحلقے سے بی جے پی امیدوار سی کے راول جی نے محض258ووٹ کے Marginسے جیت حاصل کی،انھیں کل75149 ووٹ حاصل ہوئے،جبکہ کانگریس امیدوارپرمار راجندرسنگھ کوکل74891ووٹ حاصل ہوئے،اسی حلقے سے پانچ مسلم آزاد امیدوار کھڑے تھے(جن کا ذکرآیا)،جنھیں مجموعی طورپر4400ووٹ ملے،جبکہ ایک بی ایس پی (1215)اور ایک بہوجن مکتی پارٹی (1085) کا امیدوار بھی تھا۔مسلمانوں کوخاص طورپر غور کرنے کی ضرورت ہے،جب آپ کا مجموعی طورپر موقف یہ ہے کہ کانگریس اپنی جمہوریت نوازی کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے بی جے پی کے بالمقابل بہتر ہے یا یہ کہ کانگریس کا ضرربی جے پی کے مقابلے میں کم ہے اور پھر گجرات کے پس منظر میں تو آپ کے سامنے کوئی اور متبادل تھا بھی نہیں، توپھریہ آزاد امیدوارکیوں اور کس کی شہہ پر کھڑے ہوئے اور انھیں جتنے بھی ووٹ ملے،وہ کیوں ملے؟یہ تو ایک حلقے کی بات ہے،جیساکہ ذکرکیاگیا کم ازکم ایسے انیس اسمبلی حلقے ہیں، جہاں کانگریس اور بی جے پی امیدواروں کے مابین ہزاریا پندرہ سو ووٹ سے بھی کم کا فاصلہ رہا اور بی جے پی کو برتری حاصل ہوگئی، ایسی تمام نشستوں پر یا تو آزاد مسلم امیدواروں نے بیڑہ غرق کیاہے یا بی ایس پی(جس کا گجرات میں کوئی نام و نشان نہیں )نے ٹانگ اڑاکربی جے پی کی راہ آسان کی ہے، یہ بھی حیرت انگیز امر ہے کہ یوپی میں بی جے پی کی نمایندہ مخالف مایاوتی نے ایسی ریاست میں اپنے علیحدہ امیدوار کیوں اتارے،جہاں عام طورپر لوگ ان کی پارٹی کے نام تک سے واقف نہیں ہوں گے؟

 حالیہ انتخابات میں ہندوستانی انتخابی سیاست کی سطحیت بھی مزید واضح ہوکر سامنے آئی ہے،وزیر اعظم تک جب پوری صراحت سے کذب و افترا پردازی کرسکتے ہیں، تو دوسروں کی کیا بات کی جائے،بی جے پی کی’’ دوچہرگی‘‘ پہلے سے بھی زیادہ واشگاف ہوگئی ہے،الیکشن مہم کے دوران اس کا انتخابی ایشو رام مندر،ہندومسلم اور پاکستان وغیرہ تھا؛لیکن جیتنے کے بعد فوراً ہی اس کے سربدل گئے؛ چنانچہ امیت شاہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہاکہ مودی کے وکاس رتھ کی جیت ہوئی ہے، مودی نے بھی یہی بات کہی، مودی اینڈ کمپنی کے زبان و بیان کی اس ثنویت کو ملک کا باشعور طبقہ اچھی طرح محسوس کرنے لگا ہے،کئی لوگوں نے اس کی طرف اشارہ بھی کیاہے، اے بی پی نیوز چینل کے اینکر ابھیشار شرما نے اپنے ایک ویڈیوبلاگ میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی، بالی ووڈاسٹار سوارابھاسکر نے ٹوئٹ کرکے اس پر اپنے تعجب کا اظہار کیاکہ بی جے پی الیکشن کمپیننگ کے دوران تو رام مندر، پاکستان اور مسلمان ہندو جیسے موضوعات کو اُچھالتی ہے اور جیتتے ہی وکاس وکاس کرنے لگتی ہے،ضرورت ہے کہ عوامی سطح پر بھی لوگوں کے شعور وادراک میں ایسی بیداری دیکھنے کو ملے؛تاکہ گجرات میں بی جے پی کے جس سیاسی زوال(معمولی ہی سہی)کی شروعات ہوئی ہے،وہ2019تک اپنے کمال کو پہنچ سکے اور ملک کی داخلی سالمیت و یکجہتی کو درپیش چیلنجز پر قابو پایا جاسکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔