گجرات ایک بار پھر سرخیوں میں!

عظمت علی

گجرات میں علاقائی منافرت نے ملک میں تشویشناک صورت حال پیدا کردی ہے۔ گذشتہ ماہ ۲۸ ستمبر کو سابر کانٹھا علاقے میں ایک بچی کے ساتھ درندگی نے گجرات کو پھر سرخیوں میں جگہ دیدی ہے۔ بتا یا جا رہاہے کہ بہار صوبے سے تعلق رکھنے  والے رویندرساہو نامی شخص نے ۱۴ ماہ کی معصوم بچی کے ساتھ عصمت دری کی ہے۔ جس کو بہانہ بنا کر وہاں کی جنتا نے تشدد بھری تحریک کا آغاز کردیا اور شمال ہند کے بسنے والوں کے خلاف منافرت پھیلانا شروع کردی ہے۔ ہندی بولنے والوں کو ظلم کا نشانہ بنایا  جا رہا ہے اور ان کے گھروں اور دوکانوں پر آگ لگائی جارہی ہے۔ عورتیں بھی ان کے ظلم کا ھدف بننے سے نہ رہیں، جس کے نتیجے میں یوپی، بہار، جھارکھنڈ اور مدھیہ پردیش کے ہزاروں باشندوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔

قابل حیرت بات یہ کہ اس علاقائی تعصب کو بھی سیاسی رنگ دینے کی سعی کی جا رہی ہے ۔ بی جے پی، کانگریس پر الزام عائد کررہی تو کانگریس بی جے پی پر۔ ادھر اتر پردیش کی سابق وزیراعلی مایاوتی نے بھی بی جے پی کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے مودی کو جیت دلائی، ا نہیں ہی (ظلم کا) نشانہ بنا یا جا رہے۔ اب یہ احساس بھی ابھررہا ہے کہ کہ کہیں یہ نفرت بھری تحریک بھی سیاسی کٹہرے میں نہ چلی جائے اور پھر یوں طول پکڑ جائے کہ مظلوم، انصاف کے چکر ہی کاٹتا رہ جائے۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں بلکہ سماجی مسئلہ ہےاور سیاست داں محظ اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی غرض سے یہ سب کھیل تماشا رچ رہے ہیں۔

۱۴ ماہ کی ننھی سی بچی کے ساتھ درندگی کا یہ واقعہ نہایت المناک اور انسان سوز ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک مجر م کی سزا خطے کے تمام افراد پر تھوپ دی جائے اور انہیں گجرات سے منتقل ہونے پر مجبور کردیا جائے۔ ظلم ایک فرد نے انجام دیا لہذا اس کی سزا صرف اسے ہی ملنی چاہئے نہ کہ سب کو اور موصولہ خبروں کے مطابق مجرم پولیس کے حراست میں ہے لہذا دیگر کارگروں پر جفا کرنا محظ انتہا پسندی ہے اور یہ بھی تو آئین شکنی ہے کہ ہندی بولنے والوں پر ستم کیا جا رہا ہے درآنحالیکہ ہماری راشتڑیہ بھاشا ہندی ہے۔ یہ علاقائی اختلاف کہیں ملک میں رخنہ اندازی نہ پیدا کرے اور پھر صوبائی اختلاف کو بڑھاوا نہ مل جائے!

اس نفرت بھری مہم کی حقیقت تو یہ ہے کہ گجراتیوں کو اپنی کمزوری کا احساس ہو چلا ہے کہ اترپردیش، بہار، مدھیہ پردیش اور جھارکھنڈ کے باسی کا کم اجرت پر بہتر کام کرنے نے گجراتیوں کی آمدنی اور روزگار کے مواقع کم کردیئے ہیں۔

بہرکیف، یہ اپنی نوعیت کی پہلی تشدد بھری تحریک نہیں ہے بلکہ اس قسم کی اور بھی نفریت انگیز تحریکیں ملتی ہیں۔ چند برسوں قبل مہاراشٹر میں شمال ہندوستان خاص طور سے بہار اور اتر پردیش کے باشندوں پر شیو سینا اور بعد میں مہاراشٹر نونرمان کے غنڈے حملے کرتے اور ان کی املاک کو آگ لگا دیا کرتے تھے۔ جبکہ مہاراشٹرکے انڈسٹریل ڈیولیپمنٹ میں اتر بھارتیوں کا خصو صی تعاون رہا ہے۔

یہ معاندانہ تحریک بہر حال ملک کے لئے بد شگون ہے۔ اس سے گجرات کی معیشت پر بڑے برے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ شمالی ہندوستان سے جانے والے محنت کش مزدور گجرات معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئے ہیں۔ ان مزدوروں  کا وہاں سے بے دخل کیا جا نا اقتصادی کمزوری کا سبب قرار پائے گا۔ جن صنعتوں کو چلانے والے افراد وہاں سے نکال دیئے جائیں تو صنعتیں تو بیٹھ ہی جائیں گی۔ جس کا اثر دوسری کمپنیوں پر بہرحال پڑے گااور انہیں اس نقصان کو بھگتنا ہی پڑے گا۔ جب کاریگر وہاں سے بے دخل کردیئے جائیں تو انہیں روزگار کی شدید ضرورت پڑے گی جو کہ فی الحال کمیاب ہے۔ روزگارنہ ملنے کی صورت میں بے روزگاری کا یہ غصہ حکومت پر اتارا جائے گا۔ اس لئے کہ حکومت نے روزگار دینے کے نام پر صرف لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو بی جے پی کی سیاسی قوت مزید کمزور پڑجائے گی اور اب تو الیکشن بھی قریب ہے۔ لہذا، کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان مزدوروں کے لئے کیا لائحہ عمل پیش کرتی ہے۔ اگر گذشتہ برسوں کی مثل صرف بیان بازی رہی تو پھر بی جے پی کا مستقبل اندھیر ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔