گجرات سے اتر بھارتیوں کا انخلاء

نازش ہما قاسمی

گجرات کے سابر کانٹھا میں ایک بہاری مزدور کے ذریعے ۱۴؍ ماہ کی بچی کے ساتھ عصمت دری کرنے کے بعد اس ملزم سے بدلہ لینے کےلیے گجراتیوں نے پورے شمالی ہندوستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے انہیں وہاں سے بے دخل کرنا شروع کردیا ہے۔ ٹرینوں میں بہار اور یوپی جانے والوں کا اژدہام ہے۔ انخلا کی تصویری جھلکیاں دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے آزادی ہند کے وقت مہاجرین ہجرت کرکے پاکستان جارہے ہوں۔ ہر طرف ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ہزاروں افراد اپنی روزی روٹی چھوڑ کر فساد کے خوف سے وہاں سے اپنے اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکے ہیں اور جو بچے ہیں انہیں بھی مالک مکان کی جانب سے گھر چھوڑ کر اپنا کاروبار سمیٹ کر اپنے آبائی وطن جانے پر مجبور کیاجارہا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے کہ اب ملک میں مذہبی عصبیت کے ساتھ ساتھ علاقائی عصبیت بھی عروج پر ہے۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ عصمت دری کا ملزم کوئی مسلمان نہیں ہے؛ ورنہ شاید پورے ہندوستان سے مسلمانوں کو کھدیڑنے کی کوشش کی جاتی اور فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ عصمت دری کے ملزم کو واقعی سزا ملنی چاہیئے اور سخت سے سخت سزا ملنی چاہیئے، لیکن سزا دینے کا کام حکومت کا ہے عوام کا نہیں؟

حکومت نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور اقتدار میں یہ واضح کردیا ہے کہ مکمل طور پر ناکام ہے؟ اس حکومت میں سب سے زیادہ عصمت دری کی وارداتیں رونما ہوئیں؛ بلکہ حکومت میں شامل افراد ہی عصمت دری کے ملزم ثابت ہوئے۔ پھر یہ سرکار کس طرح سے اپنوں ہی کے  خلاف قانون پاس کرے اور اپنے ہی آدمیوں کو سزا دے۔ حکومت اگر واقعی بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو پر عمل پیرا رہتی تو انصاف کرتی،  عورتوں اور معصوم بچیوں کا جینا دوبھر نہیں کرتی؛ لیکن وہ خود ہی اس معاملے میں گلے تک ڈوبی ہوئی ہے تو خاک انصاف کرے گی۔اس معاملے میں مقامی ٹھاکر کمیونٹی کے رہنما نے عوام الناس سے اپیل بھی کی ہے؛ لیکن اس اپیل کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے، لوگ بدستور ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ ملزم کی والدہ نے بھی بیان دیا ہے کہ اگر میرا بیٹا واقعی قصور وار ہے تو اسے پھانسی پر چڑھا دو؛ لیکن اس کی آڑ میں اتربھارتیوں کو ہجرت پر مجبور نہ کرو۔ وزیر اعلیٰ گجرات وجے روپانی بھی اپیل کررہے ہیں؛ لیکن کوئی اثر نہیں ہورہا ہے، گجرات میں بالقصد خوف و دہشت کا ماحول بنایا گیا ہے؛ تاکہ  اتربھارتی وہاں سے چلے جائیں؛ کیونکہ گجراتیوں کا مقصد پورا ہوگیا؟ اتربھارتیوں سے جو کام کروانا تھا علاقے کے ڈیولپ کا وہ مکمل ہوچکا۔ اب امیتابھ بچن بھی اعلان نہیں کررہے ہیں کہ کچھ دن گجرات میں رہو ؟ برانڈ ایمبیسڈر تھے وہ، اب وہ بھی خاموش ہیں؛ کیونکہ کچھ دن گجرات میں رہنے کے دن اب پورے ہوگئے، اب وہاں سے چلے جائو۔ اتنی بڑی تعداد میں ہجرت دیکھ کر خوف محسوس ہونے لگا ہے کہ علاقائی عصبیت اگر پروان چڑھ گئی تو کیا ملک تقسیم نہیں ہوگا؟ ملک ایک بار پھر تقسیم ہوجائے گا۔ اور جب تقسیم ہوگا تو اپنے پیچھے کرب،  تکالیف اور لاشیں چھوڑے گا، اس تقسیم کے درد کو ۱۹۴۷ میں ہندوستان وپاکستانی عوام جھیل چکے ہیں، اب کسی اور تقسیم کے درد کو برداشت کرنے کے لئے ہم ہندوستانی عوام کے اندر سکت نہیں ہے۔

گجراتیوں نے جس طرح سے اتربھارتیوں کے خلاف مہم چھیڑی ہے اگر اتربھارتی ذرا بھی عقل وشعور سے کام لیں تو ان کا ناطقہ بند ہوجائے؛ لیکن ہم یہاں ان کے ناطقے کی بات نہیں کریں گے؛ کیوں کہ اگر ایسی بات کرینگے تو فرقہ پرست کہلائیں گے۔ جس طرح سے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی جارہی ہے اور اتربھارتیوں کو روکنے کے بجائے وہاں سے بھگانے کی کوشش کی جارہی ہے یہ خطرناک تصویر ہے اس سے ملک میں بدامنی اور انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ پہلے تو صرف ممبئی میں ہی اتربھارتیوں پر الیکشن کے وقت مظالم کا سلسلہ شروع ہوتا تھا؛ تاکہ مراٹھی ووٹ حاصل کیا جاسکے؛ لیکن اس بار گجرات سے یہ مہم شروع ہوئی ہے اور ممکن ہے حکومت بھی اسے شہہ دے رہی ہو؛ کیونکہ ابھی حکومت” رافیل” اور” می ٹو” مہم میں گھری ہوئی ہے، عوام الناس کے اذہان کو کنورٹ کرنے کےلیے یہ گیم پلان ہو اور گجراتیوں کے درمیان سرخروئی کا موقع بھی؛ لیکن اتربھارتیوں کو بھی عقل وخرد کے ناخن لینے چاہئیے، انہیں چاہئے کہ ۲۰۱۹ کے عام انتخابات میں اپنے اتحاد کا ثبوت پیش کریں او رملک کو گجراتیوں کے اقتدار سے بچائیں۔ یہاں ہم نام نہیں لیں گے کہ گجراتیوں کا اقتدار! جی گجراتیوں کا ہی ملک میں ڈنکا بج رہا ہے۔ اقتدار پر وہی قابض ہیں۔ گنے چنے دیگر جگہوں سے ہیں؛ لیکن امارت ان ہی گجراتیوں کے ہا تھوں میں ہے اس لیے وہ جو چاہ رہے ہیں کررہے ہیں؛ لیکن یہاں آپ کو بھی سوچنا چاہیئے!۔آپ آخر کیوں دوسری جگہوں پر نوکریاں کرتے ہیں؟ کیا آپ کے یہاں کمپنیاں نہیں قائم کی جاسکتی ہیں ؟ پورا ہندوستان ترقی کی طرف گامزن ہے کیا صرف ملک میں گجرات ہی رول ماڈل ہے جیساکہ اس کا ڈھنڈورہ پیٹا جارہا ہے؟ آپ کے یہاں بھی کمپنیاں او رفیکٹریاں قائم ہوسکتی ہیں؛ لیکن آپ کو یہ سیاست داں محض استعمال کرنے کےلیے رکھے ہوئے ہیں، آپ صرف ووٹ بینک ہیں؟ یہاں ہندو مسلم کی کوئی قید نہیں،  دونوں کمیونٹی محض ووٹ بینک ہے۔ آپ کے دلوں میں نفرت پھیلائی جاچکی ہے۔ آپ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ہیں؛ لیکن حاصل کیا ہوا دشمن بننے سے، وہی پچھڑا پن نصیب میں ملا اور دوسری جگہوں سے ہجرت قسمت میں لکھی گئی۔ اگر دونوں اتحاد کے ساتھ اپنے اپنے علاقے میں رہتےتو آج آپ کو دوسری جگہوں کا رخ نہیں کرنا پڑتا اور برسوں سے قائم کی ہوئی اپنی تجارت سے ہاتھ نہیں دھونا پڑتا آج آپ ایک بار پھر بے روزگار ہیں۔ کسمپرسی کے عالم میں لوگ آپ سے جھوٹی ہمدردی کو بھی تیار نہیں۔ آپ کے علاقے کے وزرا اعلیٰ بھی صحیح ڈھنگ سے آپ کےلیے آواز نہیں اُٹھا رہے؛ جبکہ پورا ملک ہر ایک ہندوستانی کا ہے وہ جہاں چاہے بلا روک وٹوک تجارت کرے؛ لیکن کیوں آپ کو اپنی تجارت سے ہاتھ دھونا پڑرہا ہے؟ کیوں آپ کو بے روزگاری کی طرف ڈھکیلا جارہا ہے؟ کبھی بھی غور نہیں کریں گے آپ؛ کیوں کہ آپ کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے، ہندو مسلم کا،  الجھے رہئے۔ مندر مسجد میں لٹکے رہیے، سیاست داں اپنا کام کرتے رہیں گے۔ کس خوشی میں ۲۰۱۴ میں ووٹ دئیے تھے ؟ اسی لیے نا کہ اچھے دن واپس آئیں گے، اکائونٹ میں پندرہ پندرہ لاکھ آجائیں گے؟ لاکھوں بے روزگاروں کو روزگار مہیا ہوگا، کہیں بھی بلا روک ٹوک تجارت اور مزدوری کریں گے؟ کرلیے! نہیں نا۔ رام مندر تعمیر ہوگی ؟ ہوگئی ؟ نہیں نا ویسے اب سمجھ میں آجانا چاہئے کہ یوپی میں مندر نہیں بلکہ فیکٹریوں کی ضرورت ہے،  روزی روزگار کی ضرورت ہے۔

اب بھی وقت ہے ہوشیار ہوجائیں اور ۲۰۱۹ میں پوری آب وتاب سے اُٹھیں؛ کیوں کہ بہار اور یوپی ہی ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے، یہیں سے سب سے زیادہ ممبرآف پارلیمنٹ ہیں، اگر آپ یہاں فرقہ پرست پارٹیوں کو روکنے میں کامیاب ہوگئے تو دہلی کا تخت ان سے چھن جائے گا۔آپ بنارس جیتنے والے سے احمد آباد سے بھگائے جانے کا بدلہ لے سکتے ہیں؛ لیکن شرط ہےہندو مسلم نہ کریں۔ ہندوستان کی تہذیب ہی آپسی بھائی چارگی ہے۔ یہ جو نفرت پھیلا رہے ہیں وہ آپ کے دشمن ہیں۔ آپ کو لڑا کر، آپ کے گھر بار اجاڑ کر ہی ان کی کرسی آپ کی لاشوں پر ٹکتی ہے اس لیے ایسا نہ ہونے دیں اپنی بقا اور خوش حالی کےلیے ان کی کرسیاں گرادیں۔ سوچیں ان کی اشتعال انگیزی میں آکر آپ عوام کا ہی نقصان ہے گھر آپ کا جلتا ہے کبھی سنا آپ نے کہ کسی نیتا کا گھر جلا ہو؟ کسی لیڈر کا لڑکا فساد کی بھینٹ چڑھا ہو نہیں سنا ہوگا؟ پھر کب آپ ہوش میں آئیں گے ؟ اب تو آجائیں اور نفرت پھیلانے والوں کو منہ توڑ جواب دیں!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔