گجرات میں دو دہائیوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے

جاوید جمال الدین

آج کے کالم کی شروعات اس واقعہ سے کرنا چاہتا ہوں کہ ایک گدھا درخت سے بندھا ہوا تھا،شیطان وہاں آیا اور اسے کھول دیا ،اس کے بعد گدھا کھیتوں کی طرف بھاگا اور کھڑی فصل کو تباہ کرنے لگا۔جب کسان کی بیوی نے یہ دیکھا تو اس نے غصے میں گدھے کو جان سے مار ڈال دیا،گدھے کی لاش دیکھ کر گدھے کا مالک بھی غصے میں آگیا اور اس نے کسان کی بیوی کو گولی مار دی۔

ظاہری بات ہے کہ کسان اپنی بیوی کی موت سے اتنا مشتعل ہوا کہ اس نے گدھے کے مالک کو گولی مار دی۔

اس کے بعدجب گدھے کے مالک کی بیوی نے اپنے شوہر کی موت کی خبر سنی تو غصے میں اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ وہ کسان کا گھر جلا دے۔ بیٹے شام کو گئے اور ماں کے حکم کو پورا کرتے ہوئے کسان کے گھر کو آگ لگا دی، یہ سوچ کر کہ کسان بھی گھر میں جل کر مر جائے گا،لیکن ایسا نہیں ہوااور کسان نے  واپس آکر گدھے کے مالک کے تینوں بیٹوں اور بیوی کو قتل کر دیا اورپھر کسان نے توبہ کرلی اور شیطان کو کوسنے لگا۔شیطان کی ناراضگی بجا تھی،اس کا کہنا بھی واجبہ تھا کہ” میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا صرف گدھے کی رسی کھولی تھی لیکن سب نے رد عمل ظاہر کیا ، رد عمل کے جواب میں اور زیادہ اور شدید رد عمل ظاہر کیا اور اپنے اندر کی خباثت کو باہر آنے دیا۔یہی چیز تشدد کا باعث بن گئی۔

دوعشرے قبل ایک کارروائی پر” ردعمل” ظاہر کرنے والے بیان نے گجرات جیسی پُر امن ریاست کوتشدد کے دلدل میں جھونک دیا تھااور آج بھی وہ اس الزام سے اُبھرنہیں پایا ہے،ایسے ردعمل کی بات کرناٹک میں بجرنگ دل کارکن کے قتل پرکی گئی ہے،لیکن فی الحال امن برقرار رہا ہے۔ جہاں تک ریاست گجرات کا سوال ہے،ان دو دہائیوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے،لیکن ہلکی سی خلش ضرور نظر آتی ہے،وہ گجرات کے متاثرین کی کھوئی کھوئی سی آنکھیں سوال کرتی نظر آتی ہیں کہ آخر اس خونریزی کے قصورواروں کو سزا کیوں نہیں ہوئی اور احمدآباد بم دھماکوں کے قصورواروں کو سزائے موت اور سزائے عمر قید کی سزاسنائی گئی ہے۔ لیکن نسل کشی کے ملزمین بلا خوف وخطر آزاد گھوم رہے ہیں۔اور کئی سفید پوش ریاستی اور قومی سطح پر سیاسی طور پر سرگرم ہیں۔

گجرات فسادات بلکہ مسلم کش فسادات کو بیس سال مکمل ہونےپرریاست اور خصوصی طور پر  احمدآبادکاجائزہ لینے پر یہ محسوس ہوا ہے کہ۔ان۔دودہائیوں میں حالات نے کروٹ بدل لی ہے،لوگ اس تشدد کو بھولنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ،لیکن دل ودماغ میں پیوست یادیں نکلتی ہی نہیں ہیں۔آگے بڑھنے سے پہلے اتنے بڑے پیمانے پر تشدد کا سبب کیا تھا، ریاست گجرات میں فروری اور مارچ 2002ء میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو ایک عمل پر "ردعمل” کا نام دیا گیا،دراصل  یہ الزام عائد کیاگیا تھاکہ گجرات کے پنچ محل ضلع کے شہر گودھرا میں ایک ریل کے ڈبے کو نذر آتش کردیاگیا،جس میں اجودھیا سے واپس لوٹ رہے 59 ،ہندو کارسیوک ہلاک ہو گئے تھے،اس آتشزدگی کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا اور گجرات میں مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑا،یہ بھی الزام ہے کہ یہ فسادات میں گجرات کی ریاستی حکومت کی درپردہ مددحاصل رہی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مسلمان کش یعنی  نسل کشی قراردیاتھا۔ واضح رہے کہ 2002 کے تشدد میں  تقریباً 2500 مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا یا زندہ جلا دیا گیا۔ سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت تسرتار کی گئی اور ہزاروں مسلمان بے گھر ہوئے تھے۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیاہے کہ اس تشدد کو "گودھرا کی کارروائی کاردعمل” کہاگیاتھا،لیکن متعدد تحقیقاتی کمیشن اور کمیٹیوں نے گودھرا ٹرین آتشزدگی پر شکوک وشبہات ظاہر کیے اور سرکاری مشنری کی جانبداری کو پیش کیا ہے۔کئی رپورٹوں کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیاگیا ہے ،کیونکہ ان رپورٹوں میں حکومت وقت کو موردالزام قراردیاگیاہے۔

ان رپورٹوںیں الزام عائد کیا گیا ہے کہ فسادات کو روکنے کے لیے پولیس نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی بلکہ گجرات کے اُس وقت کے وزیر اعلی نریندرمودی پر بھی خاموش تماشائی بنے رہنے کاالزام عائد کیاگیاتھا۔یہی وجہ  تھی کہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی مرکزی حکومت نے بھی گجرات میں فسادات روکنے کی کوشش نہیں کی۔البتہ واجپئی نے مودی کو راج دھرم نبھانے کی۔ہدایت کی تھی۔

گجرات فائلس:پس پردہ حقائق کا انکشاف نامی کتاب میں معروف خاتون صحافی رعنا ایوب نے  2002ء کے گجرات فسادات کے مخفی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے، نیز نریندر مودی اور امت شاہ کے دور عروج میں ریاست میں جاری انسانیت سوز جرائم اور فرضی انکاؤنٹروں کے متعلق انہی کی زبان سے سنسنی خیز انکشافات کیے گئے۔

رعنا ایوب نے اس کتاب کا مواد تیار کرنے کے لیے  بھیس بدل کر گجرات کے ان بڑے پولس افسروں سرکاری اہلکاروں اور سیاست دانوں سے ملاقات کی جو سنہ 2001ء سے 2010ء تک صوبہ گجرات کے کلیدی عہدوں پر فائز تھے۔ حتی کہ اسی بھیس میں رعنا نے نریندر مودی سے بھی ملاقات کی۔ ان افراد سے ملاقاتوں کے دوران میں رعنا ایک مخفی کیمرا ساتھ رکھتیں اور اس کی مدد سے ان ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کر لیتیں۔ اس پوری کارروائی کے پیچھے ادارہ تہلکہ تھا،لیکن پھر تہلکہ نے اپریل 2011ء میں اس تفتیش کو بند کر دیا، تو رعنا نے اس کام کو آزادانہ طور پر جاری رکھا۔اس طرح کی تفتیشی صحافت کے لیے جسٹس بی این سری کرشنا،جنہوں نے ممبئی کے 93-1992 کے فسادات کی تحقیق کی تھی ،نے کہاکہ تفتیشی صحافت میں اس غیر معمولی جرات کے لیے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو سلام۔ بڑھتی ہوئی بے ایمانی، فریب کاری اور سیاسی ریشہ دوانیوں کے پیش نظر اس کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے۔

گجرات میں 2002 کے تشدد کے لیے چند ایک معاملات میں سزا ہوئی ہوگی ،ورنہ گلبرگ سوسائٹی کے تشدد اور آتشزدگی کے لیے کسی کو سزا نہیں ہوئی اور مرحوم سیم پی احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔جب احمد آباد کے بم دھماکوں میں ملوث قصورواروں کو سنگین نوعیت کی سزائیں سنائی جاتی ہیں،تب یہ احساس ہوتا ہے کہ فروری اور مارچ 2002 کے تشدد کے لیے قصوروار کب کیفر کردار تک پہنچیں گے۔

ریاست کا دارالحکومت حمدآباد بظاہر تو پُر سکون ہے،ان سزاؤں پر عام آدمی سوال اٹھاتے ہیں،مسلم اکثریتی علاقوں باپونگر،سرخیز،جوہا پوہ،امدوپورہ،بامبے ہوٹل،نیوفیصل کالونی اور کالوپور میں گنجان آبادی ہے اور یہاں کے مسلمان امن وامان اور انصاف کے حق میں ہیں۔باپونگر کی مومن مسجد کے نزدیک آٹورکشہ اسٹینڈ پر نماز فجر کے بعد چند افراد نے کھل کر کہاکہ ان دودہائیوں میں ریاست میں امن برقرار رہا ہے،لیکن مسلمان اپنے حقوق چاہتے ہیں اور تعلیم ،سماجی برابری اور مساوات وانصاف کے حق میں ہیں۔انہوں نے کہاکہ اس عرصے میں اقلیتی فرقے میں خوشحالی نے بھی دستک دی ہے ،شہر اور نواحی علاقوں میں سینکڑوں بستیاں آباد ہوئی ہیں اور روزگار کی طرف بھی مسلمانوں نے توجہ دی ہے،اپنے کاروبار اور تجارتی مواقع حاصل ہوئے اور ان موقعوں جا بھر پور فائدہ اٹھایاہے،پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ یہاں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ابھی بھی پسماندگی سے ابھرنے کی کوشش کررہا ہے۔ احمدآباد میں یہ بھی محسوس ہوا کہ مسلمان  سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ذات ،برادری اور فرقوں میں تقسیم  نہیں دکھائی دیا۔ اشتعال انگیزی اور نفرت کے سوداگروں کو نظر انداز کردیا اور مایوسی کا اظہار کرنے کے بجائے بہتر مستقبل کی۔امید ظاہر کررہا ہے۔کیونکہ احمد`آباد پسماندہ اور متوسط طبقے کے علاقوں میں تعلیم کی طرف رجحان بھی نظر آیا ،اس لیے امید کی۔جرن۔پیدا ہوگئی ہے،اور ایسا لگتا ہے کہ مسلمان اپنے  اہل وعیال کے ساتھ ساتھ اپنوں کے بہتر مستقبل کا خواہاں ہے۔ ایک خود اعتمادی پیدا ہوگئی جوکہ روشن مستقبل کی ضامن ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔