گجرات کے الیکشن نے راہل کا قد بڑھا دیا

حفیظ نعمانی

آج کانگریس گجرات میں جس حال میں ہے وہ 2012 ء سے بھی مختلف ہے شنکر سنگھ واگھیلا جیسے بھی تھے ایک بھاری بھر کم شخصیت تھے چھ مہینے پہلے نہ جانے کیا ہوا کہ وہ بھی کانگریس کو چھوڑ گئے۔ شاید انہیں خیال تھا کہ بی جے پی ان کے لئے سرخ قالین بچھائے گی لیکن وہاں سے بھی بلاوا نہیں آیا لیکن کانگریس کے پاس احمد پٹیل کے علاوہ دوسرا نام ایسا نہیں تھا جسے گجرات سے باہر بھی خاص کانگریسیوں کے علاوہ کوئی جانتا ہو جبکہ مقابلہ میں اور جو بھی ہوں جتنے بھی ہوں بی جے پی کی اور حکومت کی جان مودی جی اور امت شاہ خود ڈیرہ ڈالے پڑے تھے۔ اگر کانگریس صرف احمد پٹیل کو ساتھ لے کر لڑتی تو اس بار صرف اس لئے 40  سیٹیں شاید مل جاتیں کہ عوام حکومت سے ناراض تھے یہ راہل گاندھی کی قسمت تھی کہ انہیں نیا خون مل گیا اور ان کی شرطوں پر مل گیا اور انہیں 80  سیٹیں مل گئیں جو 22  سال سے نہیں ملی تھیں۔

راہل گاندھی نے مشین کی کوئی بات نہیں کی اور جو نتیجہ آیا اسے قبول کیا ہے انہوں نے پارٹی کارکنوں کا شکریہ ادا کیا ہے اور ان کے کام پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ بی جے پی کی جہاں بھی طاقت ہے وہ بڑے شہروں میں ہے۔ الیکشن سے پہلے خود ہم ٹی وی دیکھ دیکھ کر یہ محسوس کرتے تھے کہ سورت کے تاجر اور کارخانوں سے نکالے گئے بے روزگار، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے جتنے دُکھی ہیں وہ بی جے پی کو معاف نہیں کریں گے لیکن سورت میں 16  سیٹوں میں سے 14  بی جے پی کو ملنے کا مطلب صاف ہے کہ گرم ہندوتو ہی آخر میں کامیاب ہوا۔ یہ بات صرف گجرات میں نہیں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ بی جے پی اور حکومت کو اٹھتے بیٹھتے برا اور تاجر دشمن کہنے والے یا تعلیم یافتہ ہندو جب ووٹ دینے جاتے ہیں تو کمل کا بٹن ہی دباتے ہیں۔ ہمارے پریس کے اکائونٹنٹ پانڈے جی اپنے علاقہ کے بی جے پی کارپوریٹر سے اتنے ناراض تھے کہ اس نے ایک معمولی سا کام نہیں کرکے دیا اور ہمارے تین لاکھ روپئے خرچ ہوگئے اور اس بار بھی پارٹی نے ٹکٹ اس کو ہی دیا۔ ہمارے بیٹے نے معلوم کیا کہ اس بار آپ نے کیا کیا تو گردن جھاکر کہا کہ ووٹ تو اسی کو دے دیا۔

شہروں میں جو آج کاروباری ہے یا سرکاری ملازم ہے یہ سب یا ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو آر ایس ایس کی شاکھائوں میں فرقہ پرستی کے زہریلے انجکشن لگواکر آتے ہیں اور ایسے کم ہوتے ہیں جن کے گھر کا ماحول انہیں سیکولر ذہن کا بنادے وہ نیچی ذات کے انسان کو انسان ہی سمجھنے پر تیار نہیں اور نہ اسے اپنا بنانے پر تیار ہیں جو اُن کی حمایت کرے۔ گجرات کے الیکشن میں وزیراعظم ہوتے ہوئے جس نیچی سیڑھی پر مودی جی اترے پڑھے لکھوں کو خود شرم آنا چاہئے تھی۔ انہوں نے اس الیکشن میں کوئی تقریر ہندی یا ہندوستانی زبان میں نہیں کی ہر ریلی میں خالص گجراتی زبان بولی اور گجراتی پگڑی باندھی اور جیسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو انہوں نے موضوع بنایا ان کی تقریروں میں وکاس یا بھرشٹاچار کسی کا ذکر نہیں آیا وہ باہر کہتے ہیں کہ گجرات میں بجلی اور پانی کی کمی نہیں لیکن انہوں نے راہل گاندھی کی تقریر کا جواب نہیں دیا جنہوں نے کہا کہ ہم کھیتوں کو پانی دیں گے اور 18  گھنٹے بجلی۔

گجرات کا الیکشن شروع تو زندگی کے مسائل سے ہوا تھا مگر مودی جی نے اسے ہندو اور پاکستان اور احمد پٹیل میں گڈمڈ کردیا وہ وزیر اعظم ہوتے ہوئے یہ کہیں کہ پاکستان اور ریٹائرڈ فوجی اور منموہن سنگھ احمد پٹیل کو زیراعلیٰ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ احمد پٹیل جو راجیہ سبھا کا ممبر ہے اور وزیراعظم بھی بن سکتا ہے اس کے وزیراعلیٰ بننے سے ہندو کو ہوشیار کرنا کیا ان کے لئے باعث شرم نہیں ہے؟ اور سب باتیں تو تھیں ہی احمد پٹیل کو محمود غزنوی بنانا تو ایسا ہے جیسے وہ دستور کو جوتے سے روند رہے ہیں۔ جیسے احمد پٹیل، حافظ سعید یا مسعود اظہر ہوگئے۔

ہم مبارکباد دیں گے کانگریس کے لوگوں کو کہ راہل گاندھی جو ابھی کالے بال والے ہی ہیں انہوں نے صبر و ضبط اور بردباری کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ مودی جی گھیر گھیر کر انہیں لاتے رہے کہ وہ گالیاں بکنے لگیں لیکن راہل گاندھی نے ایک تجربہ کار اور بزرگ لیڈر کا کردار ادا کرکے یہ ثابت کردیا کہ ان کو اب صدر بنانے کا فیصلہ غلط نہیں ہے۔ وہ ہر دن ایک سوال کرتے رہے اور مودی جی نے شاید جواب اس لئے نہیں دیا کہ وہ انہیں کوئی مقام دینے پر ابھی تیار نہیں ہیں لیکن کل انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ وہ جسے ابھی چھوٹا سمجھ رہے ہیں بڑے لوگوں نے اسے سب سے بڑا تسلیم کرلیا۔ راہل گاندھی نے ٹھیک کہا کہ پورے الیکشن میں ایک بار بھی بھرشٹاچار کا نام نہیں لیا جبکہ بھرشٹاچار مودی جی کا موضوع رہا ہے۔

وزیر اعظم بننے کے تین مہینے کے بعد وہ کارگل گئے تھے وہاں ہزاروں فوجیوں نے استقبال کیا ان سے وعدہ کرکے آئے تھے کہ میں تمہیں بھرشٹاچار مکت بھارت دوں گا اور اس کے بعد پورے ملک میں یہ نعرہ دیا لیکن جے شاہ کے 80  کروڑ روپئے اور ارون شوری کا جملہ کہ نوٹ بندی کالے دھن کو سفید کرنے کا ملک کا آج تک کا سب سے بڑا گھوٹالہ ہے، نے مودی جی کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دسمبر کا آدھا مہینہ انہوں نے ریلیوں میں گلا پھاڑتے گذارا لیکن جو 2014 ء میں کہا تھا کہ گجرات کے معنیٰ ہیں گھر گھر بجلی اور کھیت کھیت پانی وہ ایک دفعہ بھی نہیں کہا اور ٹی وی دکھاتے رہے کہ کپاس اور مونگ پھلی کے کسان رو رہے ہیں ٹاٹا کے نینو کے آس پاس کے گائوں سے پانی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ گھر چھوڑکر بھاگ گئے مگر مودی جی منی شنکر ایئر، جہانگیر، شاہجہاں اور اورنگ زیب گاتے رہے یا فریاد کرتے رہے کہ ہائے مجھے نیچ کہہ دیا گجرات والو! اب تم ہی بدلہ لو اور ہائے پاکستان اور سابق وزیر مل کر احمد پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنا دیں گے۔ کیا یہ سیاست ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔