گجرات ہی سے مودی کے زوال اور راہل کے عروج کی شروعات

عبدالعزیز

 اکتوبر 2001سے پہلے نریندر مودی کو اگر کچھ لوگ جانتے تھے تو محض آر ایس ایس کے پرچارک کی حیثیت سے۔ اسی سال گجرات میں زبردست زلزلہ آیا تھا۔ بی جے پی پارٹی کے کیشو بھائی پٹیل گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے وہ زلزلہ کے متاثرین کو ٹھیک سے راحت پہنچانے میں ناکام رہے  جس کی وجہ سے گجراتیوں میں بی جے پی کے خلاف غم و غصہ کی لہر پیدا ہوگئی تھی اسے ختم کرنے کیلئے نریندر مودی کو گجرات بھیجا گیا وہ تنظیمی امور کیلئے جانے جاتے تھے مگر انہیں حکمرانی کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ مودی کو گودھرا کا سانحہ بہت بڑے تحفہ کی شکل میں مل گیا اور گجرات میں وہ بہت بڑا فساد کرانے میں کامیاب ہوگئے مسلمانوں کی دشمنی کا پرچاراور  مسلمانوں کا قتل عام کچھ اس طرح ہوا کہ  گجراتی زلزلہ کی تکلیف اور مصیبت بھول گئے اور نریندر مودی ان کے ہیرو بن گئے۔ جب اسمبلی کا پہلا الیکشن نریندر مودی کی سربراہی میں ہوا تو مودی کی ہیرو شپ( Heroship)کو بڑھا وا مل گیا۔ مودی گجراتیوں کو خواب کی ایک اور گولی ’’گجراتی اسمیتا‘‘ (گجراتیوں کی آن بان، جاہ و جلال) کے نام سے کھلانے میں کامیاب ہوگئے ہر الیکشن کے ہر جلسہ میں یہ بات کہہ کر گجراتیوں کا من بڑھانے اور پاکستان اور مسلمان کا نام لے کر ان کی نفرت اور غصہ میں غیر معمولی اضافہ کرنے لگے۔ چار پانچ سال کے اندر گجرات کو ہند توا کا تجربہ گاہ(Hindutava Laboratory) بنا دیا جسے ’’گجرات ماڈل‘‘ کے نام سے فرقہ پرست مشہور کرنے لگے۔

 مودی نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت اور تعصب اور نفرت کے پرچار کو اس قدر بڑھایا کہ 2014ء کے لوک سبھا کے الیکشن سے کچھ پہلے تیسری بار گجرات کے لوگوں کو خواب غفلت کی گولی کھلانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ مودی کی نفرت اور فرقہ واریت میں کامیابی دیکھ کر  آر ایس ایس نے بی جے پی کے تمام مرکزی لیڈروں کو بشمول ایڈوانی پیچھے دھکیل دیا۔ 2014ء کے لوک سبھا کے الیکشن میں بی جے پی کی طرف سے مہم چلانے کے سربراہ اور وزیر اعظم کیلئے امیدوار مقرر کردیئے گئے۔ مودی نے اپنے ایک قریبی ساتھی امیت شاہ کو جو سایہ کی طرح گجرات میں ان کے ساتھ لگے رہتے تھے اترپردیش کا انچارج بنا دیا۔ شاہ اترپردیش میں پہنچتے ہی رام مندر کی تعمیر کا پرچار شروع کیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی سیاست شروع کی۔ اترپردیش کو ہاتھ میں لینے کی وجہ یہ تھی کہ دہلی کا راستہ اترپردیش ہی سے جاتا تھا۔ اسی ریاست میں کئی ریاستوں کے برابر لوک سبھا کی سیٹیں (80) تھیں جو مرکزمیں حکومت بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں ۔

پورے ملک میں مودی نے جو کچھ کیا وہ سب کو معلوم ہے۔ وعدوں کا انبار لگا دیا اور نفرتوں کی باڑھ۔ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ان کے وعدوں اور نفرتوں کے جال میں پھنس گئی اور مودی ملک کے وزیر اعظم ہوگئے۔ بہار کا الیکشن ہار کر بھی نتیش کی سازش کی وجہ سے جیت گئے  اور اترپردیش کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ کر بھاری اکثریت سے کامیابی درج کرالی۔

گجرات اور ہماچل پردیش:

 گجرات اور ہماچل پردیش کا الیکشن ، ایک ساتھ ہونے والا تھا مگر الیکشن کمشنر حکمراں ٹولے کی بات مان کر الیکشن تو الگ الگ کرایا مگر نتائج کا اعلان ایک ہی تاریخ مقرر کی۔ معاملہ ہماچل پردیش کا زیادہ نہیں تھا کیونکہ وہاں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ سارا زور گجرات کے الیکشن پر بھاجپا اور کانگریس کی مرکوز ہوگئی۔ نریندر مودی اور راہل گاندھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوگئے۔ یہ پہلی بار ہوا اس سے پہلے اترپردیش اور بہار کے الیکشن میں بھی راہل گاندھی میدان میں اترے تھے مگر وہ چھوٹے کھلاڑی تھے دونوں ریاستوں میں کانگریس معمولی اور کمزور پارٹی تھی جبکہ سماج واد ی پارٹی اترپردیش میں اور آر جی ڈی و جے ڈی یو بہار میں بڑی اور اہم پارٹیاں تھیں ۔ لیکن گجرات میں بھاجپا سے کانگریس کا سیدھا مقابلہ تھا مودی اور راہل ایک دوسرے کے رو برو تھے۔ مودی اپنے غرور اور گھمنڈ میں چور چور تھے اور اپنی داداگیری کا بھی نشہ تھا جبکہ راہل خاکساری اور عاجزی کو لے کر میدان میں اترے تھے۔ راہل نے گجرات کے تین اہم نوجوانوں کو مختلف طبقہ سے اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ گجرات میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی (GST) کا بہت اثر تھا۔ مودی نے گجرات کے چھوٹے بیوپاریوں کے غصہ کو دیکھ کر جی ایس ٹی میں ترمیمات ضرور کیں اور ان کے غصہ کے سامنے جھک بھی گئے پھر بھی تاجروں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ مودی کی تشویش بڑھتی گئی۔ دوسری طرف ہاردک پٹیل، میوانی اور ٹھاکر نے پورے گجرات کو بی جے پی کے خلاف جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

راہل گاندھی ( Issue based politics )ایشوز کی بنیاد پر سیاست شروع کی۔ کسانوں کی پریشان حالی، جوانوں کی بیروز گاری اور مودی کے جھوٹے وعدوں کا پول کھولنا شروع کیا جس کی وجہ سے بی جے پی میں گھبراہٹ اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوگئی۔ مودی نے اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کیلئے بی جے پی کے سارے وزراء اعلیٰ، منسٹرس اور مرکزی کابینہ کے وزراء کو گجرات الیکشن میں جھونگ دیا۔ دو مہینہ تک احمد آباد ملک کی راجدھانی میں تبدیل ہوگئی۔ بی جے پی کے خلاف جو آندھی اٹھی وہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی اچانک منی شنکر ایئر کا مودی کو سہارا مل گیا۔ مودی نے منی شنکر ایئر کے اس ریمارک کہ مودی بڑا نیچ قسم کا آدمی ہے پورے گجراتیوں کے اپمان (بے عزتی) بتایا اور کہاکہ ایئر نے مودی کو نیچ ذات کا آدمی کہہ کر پورے گجرات کا اپمان کیا۔ اس طرح ’’گجراتی اسمیتا ‘‘ کے جذبہ کو ابھارا اور ایئر کے ایک ڈینر (عشائیہ ) کو بھی گجرات کے الیکشن کا موضوع بنا دیا۔ یہ کہنا شروع کیا کہ ایئر کے ڈنر میں پاکستانی سفیر اور ملک کے سابق وزیر اعظم اور سابق فوجی سربراہ، سابق نائب صدر نے ملکر طے کیا ہے کہ ایک مسلمان احمد پٹیل کو گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا دیں گے اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ آخری وقت میں مودی کی من کھڑت کہانی اور پاکستان اور مسلمانوں کی دشمنی کام آگئی۔ گجراتیوں میں پاکستان اور مسلمان کا ڈر اور دہشت پیدا کرنے میں مودی پھر کامیاب ہوگئے اور اس طرح سے کانگریس اپنے ہی جال میں گول مارا جسے سلف گول(Self goal) کہتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے ایک فیصد ووٹ جو کانگریس کی جھولی میں پڑنے والے تھے یہ بی جے پی کی جھولی میں چلے گئے۔ مودی کی سب سے مرغوب غذا رام مندر کا مسئلہ ہے اسے بھی وہ اٹھائے بغیر نہیں رہے اسے بھی خوب خوب اٹھایا اور کانگریس کورام مندر کے نام پر گھیرنا شروع کیا۔

 راہل گاندھی کو بڑی بے شرمی کے ساتھ ’’غیر ہندو‘‘ قرار دینے کی بھرپور کوشش کی۔ گائوں گائوں میں پرچار کیا کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے اور راہل گاندھی مسلمان کا بیٹا ہے راہل کے نانا پنڈت نہرو کو ہندوئوں کا دشمن قرار دینے میں ذرا بھی شرم آڑے نہیں آئی۔ پورے ملک میں مودی کی اس بات کو لوگوں نے پسند نہیں کیا مگر گجراتیوں کے اسمیتا کو ٹھیس ضرور پہنچی۔ ان تمام گری اور گندی سیاست کے باوجود نریندر مودی اور امیت شاہ کانگریس سے محض پندرہ بیس سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوئے کانگریس کے کئی امیدوار ایسے بھی ہارے جو دس پندرہ سو ووٹوں سے ہارے لہٰذا اس بار الیکشن کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے اور اس کی ہر ایک چیز پر نظر ڈالی جائے۔ ماحول کا جائزہ گہرائی سے لیا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ بی جے پی کی اخلاقی شکست ہوئی ہے اور بی جے پی کی انتخابی سیاست میں جیت ضرور ہوئی ہے مگر کانگریس ہاری نہیں ہے۔ الیکشن میں ہار جیت فٹ بال میچ یا ٹینس کے کھیل کی طرح نہیں ہوتی۔ مودی اور شاہ کا سر نیچا ہوا ہے۔ شاہ کی نظر گجرات کی 150 سیٹوں پر تھی مگر 99  بھی سے زیادہ نہیں حاصل کرسکے مودی جی بھاری اکثریت کا خواب دیکھ رہے تھے مگر وہ سب کچھ کرکے بھی نصف سیٹوں سے صرف سات سیٹس زیادہ لاسکے۔ اگر کانگریس دس پندرہ سیٹیں اپنی کم عقلی اور کم حکمت عملی سے گنواتی نہیں تو سویا ننانوے سیٹس کانگریس کو ملتیں اور بی جے پی اسی بچاسی سیٹوں پر سمٹ کر رہ جاتی۔ جو کچھ بھی ہوا دیکھا جائے تو رزلٹ (نتیجہ) کانگریس کے حق میں گیا راہل گاندھی کی لیڈر شپ (قیادت ) نہ صرف مستحکم اور مضبوط ہوئی بلکہ عوام و خواص کیلئے قابل قبول ہوگئی۔ مودی کا تکبر اور دھونس جمانے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے اور چلانے والی قیادت بے رنگ ہوگئی۔ راہل گاندھی کے نرم لب ولہجہ نے مودی کو سکھادیا کہ اب یہ آنکھ بند کرکے اور دوسروں کو بیوقوف بنانے والا بھاشن عوام کے نزدیک بے اثر اور بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔

کانگریس کو سب سے بڑا فائدہ نئی نسل کے لئے مقناطیسی قیادت ہے جس مین راہل کے علاوہ ہاردک پٹیل، الپس ٹھاکر، جگنیش سیوانی کی شکل میں حاصل ہوئی ہے یہ گجرات میں نمودار ہوئے ہیں مگر یہ ملک کی سطح پر بھی اپنا نقش چھوڑنے کے لائق ہیں ۔ کانگریس کو سب کو لے کر آگے قدم بڑھانا ہوگا محض کانگریس سے ہی بی جے پی کی جاہلیت اور مودی کی فرقہ وارایت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ گجرات نے اسٹیج بنا دیا ہے یہاں سے آگے کا راستہ بھی صاف نظر آرہا ہے اور راہل کے آگے بڑھنے کا راستہ بھی صاف ہوگیا ہے وہ متبادل لیڈر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں جس کا ملک کو انتظار تھا اپنی جماعت کو بھی وہ جواں سال بناسکتے ہیں اور جو ملک کی آنکھوں میں دھول ڈال رہا ہے اسے بھی بچھاڑ سکتے ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔