گجر بکروال خانہ بدوش قبائل کے مسائل: ایک سنگین مسئلہ ہے

شازیہ چودھری راجوروی

(راجوری،جموں)

مرکزی زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ  میں کل 12 قبائل آباد ہیں، جن میں گجر، بکروال، بلتی، بیڈا، بوٹو، بروکپا، چنگپا، گررہ، مون، پورگپا، گدی اور سیپی شامل ہیں۔ ان سب قبیلوں میں گجر بکروال قبیلہ جموں وکشمیر میں سب سے بڑا قبیلہ ہے۔اس قوم کی مادری زبان گوجری ہے اور اِس قبیلے میں زیادہ تر خانہ بدوش لوگ ہیں۔ جن کی گزر بسر زیادہ تر مال مویشی اور بھیڑ بکریوں پر ہی منحصر ہے۔ ان کو خانہ بدوش اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس ایسا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں، جہاں پر یہ لوگ اپنے مال مویشی اور بھیڑ بکریوں کے ساتھ گزر بسر کرسکیں۔ یہ لوگ اپنے مال مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کے چارہ اور پانی کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ مال مویشیوں کے لئے تھوڑی دیر وہاں قیام کرتے ہیں جہاں گھاس پھوس اور پتوں کی وافر مقدار میسر ہو۔پھر اِن کا پڑایسی ہی کسی دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں یہ لوگ بالائی علاقوں اور پہاڑوں کا رُخ کرتے ہیں اور سردیوں میں میدانی علاقوں کا۔بالائی علاقوں میں چراگاہیں ہوتی ہیں جن کومقامی گوجری زبان میں ”ٹہوک یا ڈھوک“ کہا جاتا ہے۔ جہاں پر یہ لوگ صدیوں سے اپنے مال مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کو چراتے آ رہے ہیں۔

یوں تو گجر بکروال قوم برصغیر کے علاوہ ایشیا، افریقہ،جنوبی امریکہ، شمالی امریکہ،آسٹریلیا اور یورپ کے مختلف ممالک میں آباد ہے۔ لیکن ہمارے ملک ہندوستان میں ٹرائبل ریسرچ اینڈ کلچرل فاؤنڈیشن کی ایک تحقیق کے مطابق لگ بھگ 4 کروڑ کے آس پاس گجر بکروال آباد ہیں اور 25 لاکھ کے قریب  مرکزی زیر انتظام جموں کشمیر اور لداخ میں گجر بکروال خانہ بدوش قبائل آباد ہیں۔مرکزی زیرِ انتظام علاقوں جموں کشمیر اور لداخ کے علاوہ گجر بکروال ہندوستان کی باقی ریاستوں اُتراکھنڈ، اترپردیش،دہلی، پنجاب، ہریانہ، راجستھان،گجرات،ہماچل پردیش، اور مہاراشٹر وغیرہ میں آباد ہیں اور ان سب کا گزر بسر مال مویشیوں اور بھیڑ بکریوں سے ہی ہوتا ہے۔یہ سب گرمیوں میں پہاڑوں کی گود میں اپنے مال مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کے ساتھ پناہ لیتے ہیں اور سردیوں میں میدانی علاقوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ اس کے لیے ان لوگوں کواپنے اہل و عیال،عورتوں اور بچوں سمیت سال میں دو بار بڑی ہجرتیں کرنی پڑتی ہیں اور چارا کی عدم دستیابی کے پیشِ نظر ہفتوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ کئی چھوٹی ہجرتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ دوران سفر اِن گجر بکروال خانہ بدوش قبائل خصوصاً اِس قبیلے کی خواتین کو اَن گنت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موسم کے تھپیڑوں کو جھیلنا پڑتا ہے، راستے میں خوراک و ادویات کی عدم دستیابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ یہ لوگ مال مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کے ساتھ پیدل سفر کرتے ہیں اور ایسے علاقوں کی طرف رُخ کرتے ہیں جہاں پر پہلے ہی ایسی سہولیات کی عدم دستیابی ہوتی ہے۔ قدرتی آفات ہوں،موسم کے تھپیڑے ہوں، حیوانی حملے ہوں، سرکاری اجارہ داریاں ہوں، یا پھر بے مہرانسانوں کی کارستانیاں، گجر بکروال طبقے نے ہر وار کو اپنے سینے پہ سہا ہے۔ یہی ایک واحد طبقہ ہے جس نے کوہساروں،جنگلوں اور صحراؤں کو اپنا مسکن بنایا اور ان کی شان کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی حفاظت بھی کی۔ مال مویشیوں کے چارے کی خاطر جنگلوں اور پہاڑوں کے نزدیک ان کا رہنا اُن کی مجبوری ہے۔

 اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی یہ طبقہ زندگی کی بنیادی سہولیات جیسے بجلی پانی سڑک سے محروم چلا آرہاہے۔اس تیز رفتار دور میں جہاں آج انسان ہوائی سفر کو ترجیح دیتا ہے وہاں اس طبقے کے لوگ ابھی بھی کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد کسی گاڑی کا د یدارکر پاتے ہیں۔بارش ہو، برف باری ہو، آندھی ہو، طوفان ہو، یا کہ سرحد کی گولہ باری ہو،فرقہ وارانہ تشدد کے شعلے ہوں، ہر جگہ اس طبقے پر عتاب ٹوٹتا رہاہے۔ دوران سفر اپنے مال مویشیوں کو پیدل سڑکوں پر لے کرچلتے ہوئے کئی بار یا تو خود یا مال مویشی گاریوں کی زد میں آ کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوہساروں اور صحراؤں سے گزرے ہوئے بھی پیر پھسلنے سے گر کر جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔ ندی نالوں اور دریاؤں سے گزرتے ہوئے بھی اچانک آئے سیلابوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔دوران سفر ادویات کی کمی اور خوراک کی کمی سے بھی جوجھنا پڑتا ہے۔خانہ بدوش صرف ہندوستان کی باقی ریاستوں سمیت جموں کشمیر اور لداخ میں ہی موسمی ہجرت نہیں کرتے بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی اسی طرح کی قبائلی موسمی ہجرت ہوتی ہے۔ مگر ان ملکوں میں اس کے لیے باضابطہ انتظامات ہوتے ہیں۔ بیرون ممالک میں ایسے طبقوں کے لئے زبردست سہولیات ہوتی ہیں۔ کئی ملکوں میں توقانون کے تحت اگر کسی کی زراعت،کسی قسم کی فصل یا باغ کو ان خانہ بدوش قبائل کے مویشیوں کی وجہ سے کوء نقصان ہوتا ہے تو اس زمیندار کو جس کی فصل یا باغ ہوتا ہے معاوضہ حکومت ادا کرتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ جموں کشمیر انتظامیہ اس قبیلے کے لئے کوئی مراعات یا پالیسی مرتب نہیں کر رہی ہے بلکہ حکومت کی طرف سے گجر بکروال طبقے کے لئے ہر سال پیکیج دیا جاتا ہے۔ پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں لیکن اس طبقے کی بد نصیبی یہ ہے کہ تعلیم سے ابھی بھی یہ طبقہ بہت پیچھے ہے اور اپنا حق لینے یا سمجھنے کا شعور نہیں ہے خاصکر خانہ بدوش طبقے کو جو کہ سالہا سال ہجرت میں ہی زندگی گزارتے ہیں۔حالانکہ جموں وکشمیر اور لداخ میں محکمہ قبائیلی امور ان قبائل کے فلاح و بہبود کیلئے کام کرتا ہے اور جب سے ڈاکٹر شاہد اقبال چودھری صاحب نے اس محکمے میں سیکریٹری کا عہدہ سنبھالا ہے تب سے ان خانہ بدوش قبائل کی مشکلات میں بھی اچھی خاصی کمی آئی ہے۔اس سال تو ڈاکٹر شاہد نے ان خانہ بدوشوں کے لئے ہر ڈسٹرکٹ میں سرکاری ٹرکوں کا انتظام کیا ہے تا کہ یہ لوگ مال مویشیوں کے ساتھ پیدل سفر کرنے کے بجائے ان ٹرکوں میں سفر کریں تا کہ دوران پیدل مسافت جن مشکلات سے ان لوگوں کو دو چار ہونا پڑتا تھا ان کا ازالہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ گورنر انتظامیہ نے سیزنل موبائل اسکولوں کو بھی متحرک کیا ہے اور اساتزہ کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا تا کہ اس طبقے کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کیا جا سکے۔ تاہم ابھی تک ان اساتزہ کی شکایات بد دستور قائم ہیں کہ ان کو تنخواہیں واگزار نہیں کی گئی ہے۔

خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوش وہ معاشرتی گروہ ہیں جو اپنی روزی روٹی کی حکمت عملی کے حصے کے طور پر بار بار، عام طور پر موسمی جسمانی نقل پذیری کرتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں اور اس نقل پزیری کے دوران آنے والی مشکلات کے پیش نظر ہمارے ملک کے محکمہ سماجی انصاف اور تفویض اختیارات نے گزٹ نوٹیفکیشن مورخہ 21.02.2019 کے ذریعہ خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوش طبقوں کی ترقی اور بہبود کے لیے تین سال کی مدت کے لییڈویلپمنٹ اینڈ ویلفیئر بورڈ تشکیل دیا تھا جس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس میں 5 سال تک کی توسیع کی جا سکتی ہے اور جس کی ذمہ داریاں کچھ اس طرح سے گنوائیں تھی۔جس میں (۱)نامعلوم، خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوش طبقات کے لیے ضرورت کے مطابق ویلفیئر اورڈویلپمنٹ پروگرام مرتب کرنا اور ان پر عمل درآمد کرنا۔(۲)ان جگہوں یا علاقوں کی نشاندہی کرنا جہاں یہ طبقے کثرت سے آباد ہیں۔(۳)موجودہ پروگراموں اور استحقاق تک رسائی میں پائی جانے والی خامیوں کا جائزہ لینا اور ان کی نشاندہی کرنا اور وزارتوں اور عمل درآمد کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ یہ یقینی بنانے کے لیے تعاون کرنا کہ جاری پروگرام نامعلوم، خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوش طبقات کی خصوصی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔(۴)نامعلوم، خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوش طبقات کے حوالے سے حکومت ہند اور ریاستوں کے علاوہ مرکزی زیر انتظام علاقوں کی اسکیموں کی پیشرفت کی نگرانی اور جانچ کرنا۔(۵)محکمہ نافذ کرنے والی ایجنسیوں (ریاستوں،زمرکزی زیر انتظام علاقوں) کے ذریعہ نامعلوم خانہ بدوش، نیم خانہ بدوش قبائل کے طلبا کی تعلیمی ترقی کے لیے ڈاکٹر امبیڈکر پری اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کی مرکز کفیل اسکیم کا نفاذ کر رہا ہے۔ ڈیاین ٹی طلبا کے لے پری میٹرک اسکالرشپ کی اسکیم ڈیاین ٹی بچوں خاص طور پر بچیوں میں تعلیم پھیلانے میں مددگار ہے۔

 اس سب کے باوجود یہ لوگ مسائل سے دو چار ہیں کیونکہ ان کی طرز زندگی کی وجہ سے یہ لوگ تعلیم سے دور رہتے ہیں۔ شعور اور بیداری کا ان میں فقدان رہتا ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ نہ تو ان اسکیموں کا فائیدہ لے سکتے ہیں اور نہ ہی جانکاری حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح حکومت کی طرف سے تو ان کو سب مراعات مل چکے ہوتے ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ ان اسکیموں کا فائیدہ بھی وہ طبقہ لے جاتا ہے جو پہلے سے ہی مستقل سکونت یافتہ ہوتا ہے، اگر ان اسکیموں کے بارے میں ایسے علاقے جہاں پر خانہ بدوش آبادی زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہے ان کی نشاندہی کر کے بیداری مہیم چلائی جائیں تو میرے خیال میں ان اسکیموں کا فائیدہ ان کے اصل حقداروں تک ضرور پہنچے گا۔اسکے  علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ان اسکیموں کے بارے میں ان لوگوں کو بیدار کیا جا سکتا ہے۔موبائیل فون آج ہر انسان کے لئے بنیادی ضروریات کا ایک حصہ ہے اور انٹر نیٹ سے جڑنا ان کی مجبوری۔اسلئے یہ خانہ بدوش لوگ بھی آج کہیں نہ کہیں سوشل میڈیا سے جڑے ہیں اور اسکے ذریعے ان لوگوں میں بیداری اور شعور لائی جا سکتی ہے۔(چرخہ فیچرس)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔