گردشِ دوراں

اکرم شروانی

 ہزارہا صدیوں پر محیط گردشِ دوراں کا سفر باوا آدم کے زمانہ سے جاری تھا۔ صدیاں جو سوتی نہیں بلکہ جاگتی رہتی ہیں اور نہ صرف یہ کہ جاگتی رہتی ہیں بلکہ دبے پائوں گذرتے ہوئے وہ اُن تہذیبوں کے نقشِ پا کو اپنے دامن میں سمیٹتی رہتی ہیں جو ہر نئے دور کے ساتھ جنم لیتی ہیں، پھلتی پھولتی ہیں اور پھر فنا ہوجاتی ہیں۔ تہذیبوں کے یہی نقش پاوقت کے سینہ پر منجمد ہو کر تاریخ کو جنم دیتے ہیں۔ تاریخ جو بنائی نہیں جاتی بلکہ جو افراد اور اقوام کے نیک و بد اعمال سے خود بخود بنتی رہتی ہے جسے ایک بار ماہ و سال کی گرد بن جانے کے بعد نہ مٹایا جاسکتا ہے اور نہ بدلا جاسکتا ہے۔ گردش دوراں کا یہ سفر نامہ بھی چند ایسی ہی صدیوں کی داستان ہے جنھوں نے یکے بعد دیگرے اس ملک کے تہذیب و تمدن کا نظارہ کیا جسے کبھی ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس دیس پر کبھی سات سمندر پار والوں کی حکمرانی تھی لیکن جب سونے کے تمام پر نوچ لیے گئے تو اس بے بال و پر چڑیا کو ناموافق حالات کی تیز آندھیوں کے حوالہ کرکے وہ یہاں سے رفو چکر ہوگئے

گردشِ دوراں کے اس سفر میں بیسویں صدی کا ایک خاص مقام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس صدی کے وسط میں یہ دیس ’’پرایوں ‘‘ کے تسلط سے آزاد ہوا لیکن تجربہ نے یہ بتلایا کہ در اصل یہ مصنوعی آزادی قید و بند کا دوسرا دور تھا جس میں ’پرایوں ‘ نے نہیں بلکہ ’اپنوں ‘ نے ہی یہاں کے بھولے بھالے عوام کو اپنی چیرہ دستیوں اور استحصال کا شکار بنایا اور ہزاروں سال سے یہاں بسنے والی اقوام کو ایک دوسرے سے لڑا کر اپنا اُلّو سیدھا کیا۔ آزادی کے نام پر جب اس دیس کے ٹکڑے ہوئے تو اس کے ساتھ ہی لا تعداد انسانی دلوں ا ور جسموں کے بھی ٹکڑے ہوگئے۔ ان ٹکڑوں میں کلیجے کے وہ ٹکڑے بھی شامل تھے جو ’غنچہ‘ کے مانند اس دنیا میں آئے اور پھر حسرتیں دِل میں چھوڑ کر ’بِن کھِلے ہی مُرجھا گئے ‘۔اس طرح وقت گذرتا رہا۔ تاجداروں کے سر سے تاج گرتے رہے، حکمرانی کے طور و طریق اور ڈھانچے بدلتے رہے۔ کبھی شہنشاہوں کو ’مطلق العنان‘ کہا جاتا تھا لیکن اب شاطر حکمرانوں نے جمہوریت کا لبادہ ا وڑھ لیا تھا اور وہ مجبور عوام پر ’مختاری‘ کی تہمت دھر کر جو چاہتے تھے سو آپ کرتے رہتے تھے

پھر اکیسویں صدی نے اس سرزمین پر آنکھیں کھولیں تو اس نے بھیڑ کی کھال میں چند ایسے بھیڑیوں کی جماعت دیکھی جو نفرت کا بیوپار کرکے مشینی شعبدہ بازی کے ذریعہ عوامی رائے کو اپنے حق میں موڑ کر برسر ا قتدار آئی تھی۔ بظاہر اس جماعت کی قیادت پل پل بہنوں اور بھائیوں کے غم میں بدیشی ڈنر کھانے والے ایک مہابَلی پُرش کررہے تھے لیکن اصل میں اس کی باگ ڈور ایک ایسی جابرانہ تنظیم کے ہاتھ میں تھی جو اس چمن زار میں گلہائے رنگارنگ کے وجود کو برداشت نہیں کرتی تھی

 اس تنظیم کا عقیدہ تھا کہ پُرکھوں کے زمانہ سے اس چمن میں بھگوا رنگ کے صرف گیندے کے پھول ہی پائے جاتے تھے۔ باقی تمام پھول جن میں ویلنٹائن والا پردیسی گلاب بھی شامل ہے ’ لَو جہاد‘ (LOVE JIHAD)کی قلمکاری کے ذریعہ انہیں کی کوکھ سے پیدا ہوئے۔

تنظیم کے اس زہریلے پودے کی تخم ریزی تو بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں ہی ہوئی تھی لیکن اکیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے یہ ایک تناور درخت بن چکا تھا جس کی شاخیں دور دور تک پھیل گئی تھیں۔ یہ شاخیں جنھیں تنظیم کے رنگروٹ اپنی زبان میں ’شاکھائیں ‘ کہتے ہیں اس سرزمین پر منافرت کا زہر پھیلانے کا کاروبار کرتی رہی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے انھیں شاکھائوں میں سے ایک پر براجمان ہوتے ہوئے تنظیم کے گروگھنٹال نے ’من و تو‘ کافرق اس طرح سمجھایا ’’یہ دھرتی جنم جنم سے ہماری باپوتی رہی ہے اور ’من‘ یعنی ہم ہی اس کے اصل ٹھیکیدار ہیں۔ ہمارے علاوہ یہاں جتنے بھی ’تو ہی تو اللہ ہو‘ نظر آتے ہیں وہ سب کے سب ہمارے ہی سیزیرین آف شوٹ (CAESAREAN OFF SHOOT)ہیں جن کے ا ندر اب تک ہماری ہی ’مانس گند‘ بسی ہوئی ہے جس دن وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمارے رنگ میں رنگنے کے لیے تیار ہوجائیں گے اس دن ’من و تو‘ کا سارا فرق ہی مٹ جائے گا اور ہم ان پر ’گھر واپسی‘ کے سارے دروازے کھول دیں گے۔‘‘

یہ تنظیم تواریخ کی اُن کتابوں کو بھی نہیں مانتی جن میں اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے کہ یہ دھرتی یہاں بسنے والی تمام اقوام کی یکساں ملکیت ہے اور اس پر ہر قوم کا برابر کا حق ہے۔ اس تنظیم کا ماننا ہے کہ دیس کی ترقی میں غیروں کو ساجھے دار بتلانے والے اتہاس کار (مؤرخ) دیش دروہی ہی نہیں بلکہ ’مورکھ‘ بھی ہیں جنھیں اس بات تک کی جانکاری نہیں کہ اس دیس کا اتہاس سدا سے ہی ’جٹادھاری‘ رہا ہے چنانچہ تنظیم کی طرف سے کٹھ پتلی سرکار کو آدیش دیا گیا ہے کہ وکاس کے تمام کام کاج تیاگ کر لیکھکوں کی ایک منڈلی تیار کی جائے جو ہماری سوچ کے انوسار اتہاس کو دوبارہ لکھے اور چین سے قبروں میں سونے والے گڑھے مردے اُکھاڑ کر DNAٹیسٹ کے ذریعہ یہ ثابت کرے کہ وہ سب بھگوادھاری ہی تھے جنھیں پڑوسی ملک کے دہشت گردوں نے سفید کفن میں لپیٹ کر یہ پوتر دھرتی ہتھیانے کی غرض سے یہاں دفنادیا۔

چنانچہ حکم حاکم کے ساتھ ہی مرگ مفاجات کا عمل شروع ہوگیا اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس عظیم الشان ملک کی تاریخ کا بخیہ اُدھیڑا جانے لگا۔ یہ عمل تنظیم کی سخت نگرانی میں باقاعدگی کے ساتھ اوپر سے آنے والے آدیشوں کے عین مطابق ہورہا تھا۔ ان تابڑ توڑ آدیشوں کا ریلا کچھ اس طرح کا تھا:

’’لکھّو کہ ہماری وچتر مہا سبھا کے مہان اتہاس کاروں نے دریافت کیا ہے کہ دیس کے سارے اتہاسک بھون (تاریخی عمارتیں ) جن پر غیروں کے نام کی چھاپ لگی ہوئی ہے واستو میں ہمارے ہی پوروجوں کی بنائی ہوئی ہیں، اس بات کا پکا ثبوت حاصل کرنے کے لیے جب ہم نے جڑیں کھودنے والی اپنی یووا بریگیڈ (YUVA BRIGADE)سے ان عمارتوں کی جڑیں کھدوائیں تو وہاں سے گڈمڈ حالت میں استری و پرشوں کی مورتیاں برآمد ہوئیں۔ کیا یہ اس بات کا پکا ثبوت نہیں کہ یہ سارے بھون ’ہڑپّا‘ اور ’’مونہجودارو‘‘ سبھیتا (تہذیب) ہی کا ایک حصہ ہیں ؟‘‘

’’اپنی اس مہت پونٹر کھوج کے حوالہ سے جنتا کو بتلائو کہ تاج محل کا اصلی نام تیجومہالیہ‘ ہے جسے پراچین کال میں ہَون کنڈ کے لیے تیار کرایا گیا تھا بعد میں شاہ جہاں بادشاہ نے اپنی اردھانگنی ’’ممتاج محل‘‘ کو دفنانے کے لیے اسے ہتھیا لیا اور اس کا نام ’تاج محل‘ رکھ دیا۔‘‘

’’اسی طرح مہرولی میں گڑا ہوا ’وشنو ا سٹمبھ‘ جسے مورکھ لوگ انجانے میں ’قطب مینار‘ کہتے ہیں راونڑ کا وہ بان ہے جسے شری لنکا سے اس وقت داغا گیا تھا جب وہ ’شری‘ نہ تھا۔ پھر جب راونڑ رام کی لیلا میں جل کر بھسم ہوگیاتو اسے ایک پوتر نام دے کر راونڑ کی طاقت کے پرتیک (Symbol)کے طور پر یہاں اِستھاپت (قائم) کردیا گیا۔‘‘

’’ایک اور اتہاسک بھون ’ہمایوں کا مقبرہ‘ پراچین کال کی ایک بھوج شالا (بھنڈار خانہ) تھی جہاں دیش کے جانے مانے مہارشی پیٹ پوجا کرنے کے بعد بازو کے کمروں میں ’سندریوں ‘ کے ساتھ تَنِک وسرام کرلیا کرتے تھے جیتے جی تو اس کا کچھ بس نہ چلا پرنتو مڑنوں پرانت (بعد از مرگ) ہمایوں نے یہاں اپنے پائوں پسار لیے۔‘‘

’’اس ستیہ (سچ) کو سامنے لائو کہ لو جہاد (LOVE JIHAD)کی پرکریا شروع کرنے والا ’مغل اعظم‘ کا اکبر بادشاہ تھا۔ اب ہماری نئی نسلیں (MOBOCRACY)کے ذریعہ اس رسم کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کررہی ہیں۔ ‘‘

’’نیا اتہاس گڑھنے میں اس بات کی بھی چرچا کرو کہ بادشاہوں کے بھیس میں باہر سے آنے والے بنجاروں نے اس دیس کے وکاس میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ اس بات کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے یہاں مُجرے اور قوّالیاں تو بہت کرائیں لیکن ’شوچالیہ‘ ایک بھی نہیں بنوایا، جبکہ راج پاٹ ہمارے ہاتھ میں آتے ہی ہمارے مہابلی پردھان منتری نے دیش کے کونے کونے کو شوچالیوں سے پاٹ دیا ہے۔‘‘

’’اس بات کو بھی اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری پارٹی کے ’دیش بھگتوں ‘کو چھوڑ کر پرایا رنگ اپنانے والے سارے دیش باسی دیش دروہی ہیں۔ وہ ایک ایسے کلچر کا پرچار کرتے ہیں جو آتنک سکھاتا ہے۔ ان کے ایک مہا کوی نے برسوں پہلے اپنے شاہین کو کَسرِ (قصر) سلطانی کے گنبد سے اُڑا کر ہمارے پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے کے لیے بھیج دیا تھا۔ تب سے یہ وہیں بیٹھا بیٹھا ہماری جاسوسی کررہا ہے اور ہمارے جوانوں کو اس کی ہر اُڑان پر نظر رکھنی پڑ رہی ہے۔ کیا یہ آتنک واد کا کھلا ثبوت نہیں ہے؟‘‘

یہ اُن آدیشوں میں سے چند ایک کا نمونہ تھا جن کی بنیاد پر تا ریخ کی یہ نادر الوجود کتاب تیزی کے ساتھ تیاری کے  مراحل طے کررہی تھی اور جس کے مقصد کے حصول کو  ابھی تک صیغہ راز میں رکھا گیا تھا۔

تو یہ کہانی شروع ہوئی تھی گردشِ دوراں کی اُن صدیوں کے سفرنامہ سے جن کی آغوش میں بیتے ہوئے وقت کے سینکڑوں طوفان پوشیدہ تھے۔ اس قافلہ میں شامل موجودہ اکیسویں صدی کا سفر خاموشی کے ساتھ جاری تھا۔ ایسی خاموشی جو کسی بڑے طوفان کی آمد کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ دبے پائوں گذرنے والی اس صدی کے ماہ و سال اس گہری سازش کی آنچ کو محسوس کررہے تھے جس کے ذریعہ ملک کی برسر اقتدار اکثریتی پارٹی اپنی طاقت اور تعداد کے بل بوتہ پر ملک کی دوسری بڑی اکثریتی پارٹی (جسے اقلیت کا نام دیا جاتا ہے) کو مٹانے کے درپے تھی اور اس کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے آزمائے جارہے تھے۔ ملک کی ا فواج، پولیس اور دیگر اہم محکموں میں سے ’’ناپسندیدہ‘‘ اقلیتی افراد کا تقریباً مکمل صفایا بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی تھی۔

جب سو۱۰۰  ’کھوجوں ‘ کی ایک ’کھوج‘یہ نئی تا ریخی کتاب تیار ہوگئی تو ا سے ’بھارت کا بھگوا ا تہاس‘ نام دے کر جبراً ملک کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں و مدارس کے نصاب میں داخل کردیا گیا— اور شاید یہی اس کا اصل مقصد بھی تھا۔جب اس کے ردّ عمل کے طور پر زہر پھیلنے لگا یعنی نئی نسلوں کا برین واش (Brain Wash)ہونے لگا تو ایک ایسی بے لگام اور سرپھری فوج وجود میں آئی جس کے ہاتھوں میں ترشول، آنکھوں میں نفرت کی چنگاریاں اور ’دیش بھگتی‘ کے نام پر ہونٹوں پہ زہریلے نعرے تھے۔جسے نہ رواداری پسند تھی اور نہ بھائی چارہ جس نے قانون کے رکھوالوں کی سرپرستی میں دیگر مذاہب کے کمزوروں، بے بسوں اور نہتوں کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا بیڑہ اٹھایا تھا اور اس کام کے لیے موب لنچنگ(Mob Lynching)کا طریقِ کار اختیار کیا تھا۔ تعصب اور منافرت کی آنچ دن بہ دن تیز ہورہی تھی۔ آئے دن کے فرقہ وارانہ فساد میں ایک ہی فرقہ اپنے جان و مال سے ہاتھ دھورہا تھا۔ نفرت بھری تقریروں (Hate Speeches)کے ذریعہ ملک کے نوجوانوں کو تخریب کاری پر اُکسایا جارہا تھا۔ تنظیم کے غنڈوں کے ہاتھوں نہ اقلیتی ادارے محفوظ تھے اور نہ ان کی عبادت گاہیں اور ملک کا ایک کوہ نور تعلیمی ادارہ تو تنظیم کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہتا تھا جِسے ثقافتی موت (Cultural Death)سے ہمکنار کرانے کے لیے نت نئے بہانے تراش کر ایڑی چوڑی کا زور لگایا جارہا تھا۔

خوف و ہراس کے اس ماحول میں ماضی کی فضائوں میں گونجتا ہوا یہ نغمہ باربار سماعت سے ٹکراتا تھا  ؎

نثار میں تیری گلیوں کے  اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے

نظرچرا   کے چلے جسم و جاں بچاکے چلے

گردش دوراں تھمتی نہیں اس کا سفر جاری رہتا ہے لیکن اس کے جِلو میں سفر کرنے والی صدیاں اپنے دور میں گذرے ہوئے ان سنگین واقعات اور حوادث کی شاہدبن جاتی ہیں جو تاریخ کی شکل میں وقت کے ماتھے پر ایک کلنک کا ٹیکہ ہوتا ہے۔ اس سرزمین پر سایہ فگن اکیسویں صدی بھی ایک ا یسے ہی نازک دور سے گذر رہی تھی جس میں رو نما ہونے والے غیر یقینی حالات نے ایک قوم کو ا پنے ہی وطن میں بے وطنی کی کیفیت سے دو چار ہونے پر مجبور کردیا تھا۔

صدیوں کے اس قافلے میں جب آگے نکل جانے والی صدیو ں نے پلٹ کر دیکھا تو پایا کہ ان کے پیچھے آنے والی صدی کا ہر لمحہ کسی انجانے خطرے کے خوف سے ڈرا ڈرا اور سہما سہماسا ہے۔ اپنے ہم سفر کی یہ حالت دیکھ کر وہ، اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بزبان تاریخ اُن قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں سنانے لگیں جن سے ان کا سابقہ پڑا تھا۔ ’’اری ہمیں دیکھ ہمیں ! چشم فلک نے ہمیں کیا کیا خونیں نظارے نہیں دکھلائے ہیں۔ ہمارے زمانے میں ایک ہٹلر ہوا کرتا تھا جس نے لاکھوں انسانوں کو گیس چیمبر میں جھونک کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ایک مسولینی ہوا کرتا تھا جس نے خون کے دریا بہادیے۔ ہم نے وہ چنگیزی بربریت بھی دیکھی ہے جب قتل و غارت گری کا بازار گرم کرکے انسانی کھوپڑیوں کے پیرامڈ (Pyramid)لگادیے جاتے تھے۔ لیکن گذرے ہوتے وقت کے ساتھ وہ تمام اشقیاء خاک میں مل گئے۔

 تیرے دور میں وطن کے جن حق پرستوں پر وقت پڑا ہے وہ بھی جلد ہی گذر جائے گا چونکہ نیکی ہی ہمیشہ بدی پر فتح پاتی ہے۔‘‘ اسی درمیان کہیں دور سے ایک بوڑھی صدی کی باز گشت اُبھری۔ ’’میں نے اُس فرعون کی فرعونیت کا دور دیکھا ہے جس نے خدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی قوم پر سرزمین مصر کو تنگ کردیا تھا۔ پھر انجام کیا ہوا۔ خدا نے اس کی سرکوبی کے لیے اپنے ایک برگزیدہ بندے کو اسی کی گود میں پلوایا جس کے عصا سے دو ٹکڑے ہوجانے والے دریائے نیل نے بعد میں فرعون اور اس کے تمام لائو لشکر کو منٹوں میں نگل لیا۔ تاریخ گواہ ہے۔ ظالموں کا ہمیشہ یہی حشر ہوتا ہے۔ تیری کوکھ میں پلنے والی یہ زہریلی تنظیم اور اس کے بل بوتے پر مظلوموں کے تئیں دم خم دکھانے والے یہ غُنڈے بھی عوامی شعور کو احساس آتے ہی مٹ جائیں گے۔ تیرے دور میں یہ حق و باطل کی لڑائی ہے جس میں آخر کار فتح حق ہی کی ہوگی۔ کیا تو نے وہ اُمید افزا نغمہ نہیں سنا  ؎

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بُجھایا نہ جائے گا

تبصرے بند ہیں۔