گر جو ساڑی کسی خاتون کی اتاری جائے

محمد شعیب رضا نظامی فیضی

بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں ملک کے ہر باشندے کو بولنے، کھانے، پینے، رہنے، سہنے، پہننے، اوڑھنے، اور اپنے پسندیدہ مذہب پر عمل پیرا ہونے کا مکمل اختیار ہے۔ اور یہی چیز بھارت کو دیگر تمام ممالک سے ممتاز کرتی ہے کہ ایک ہی ملک کے ایک صوبہ، ایک ضلع بلکہ ایک شہر اور گاؤں میں بھی مختلف قسم کے لوگ بودوباش اختیار کرتے ہیں؛ ایک ہی گاؤں میں کوئی عبداللہ ہے تو کوئی ہری رام، کوئی ہروندرکور ہے تو کوئی ڈی شوزا۔ کوئی گوشت کھاتا ہے تو کوئی ہری سبزیوں پر اکتفا رتا ہے، کہیں کا رش گلا مشہور ہے تو کہیں کا پیٹھا، کہیں تھالیوں میں کھانا پروسا جاتا ہے تو کہیں کیلے کے پتوں پر کھانے سجائے جاتے ہیں۔ کوئی ہندی بولتا ہے تو کوئی اردو، کسی کو بھوج پوری زبان بھاتی ہے تو کسی کو مراٹھی اور تمل زبان راس آتی ہے۔ کوئی شہر کی گہما گہمی میں رہنا پسند کرتا ہے تو کسی کو گاؤں دیہات کی آب و ہوا راس آتی ہے۔ کوئی دھوتی کرتا پہننا پسند کرتا ہے تو کوئی کرتا پائجامہ، کسی کو پگڑی باندھے رہنا اچھا لگتا ہے تو کسی کو گلے میں ٹائی لٹکانا۔ غرض کہ بھارت ایک ایسا چمنستان ہے جس میں طرح طرح کے پھول کھلے ہوئے ہیں جو مختلف جہات میں، مختلف اوقات میں اپنی بھینی بھینی خوش بوؤں سے اس پورے گلستان کو معطر کرکے ہمیشہ سرسبزوشاداب رکھتے ہیں۔ اور یہی وہ خوبی ہے جو امریکہ ہو یا روس، چین ہو یا یوروپ، بھارت کے سوا کہیں نہیں پائی جاتی۔

ہاں مگر! اب ایسا لگتا ہے کہ یہ بھارت کی تاریخ کا ایک سنہرا ماضی تھا جو گزر گیا اور وقت کی عظمت رفتہ کے مانند ہوگیا جو اب لوٹ کر نہیں آسکتا ہے۔ کیوں کہ بھارت کی موجودہ تصویروں میں اس خوب صورتی اور دل ربا مناظر کا کوئی عکس و پرتو نظر نہیں آتا۔ آج بھی ہیں تو وہی سارے لوگ مگر ان کی ذہن و دماغ میں ایسا زہر گھول دیا گیا ہے کہ ہر آن ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کو تہ تیغ کرنے کی کوشش میں لگے ہیں ایک دوسرے کی عزت و ناموس کو پامال کرنے میں کوشاں ہیں۔ انھیں ایک دوسرے کا کھانا،پینا،رہنا،سہنا پسند نہیں انھیں ایک دوسرے کی بولی، پہناوا، دھرم و مذہب حتیٰ کہ ایک دوسرے کا چہرہ بھی پسند نہیں۔

نفرت کی ان تصویروں کو اگر یکجا کیا جائے تو بھارت کی موجودہ شبیہ کسی کے سامنے پیش کرنے میں شرمندگی محسوس ہوگی۔نفرت کے ان سوداگروں نے ملک میں فرقہ پرستی کی ایسی بنیاد ڈال دی ہے کہ ایک ہندو کسی مسلم کو کہیں بھی مار گراتا ہے، کسی مسلم کو ہندو مذہبی نعرہ لگانے پر مجبور کردیتا ہے اور انکار کی صورت میں بڑے آرام سے موت ے گھاٹ اتار دیتا ہے اور سستی شہرت حاصل کرنے کی خاطر کچھ ہندو تنظیمیں جو دہشت گردی کا اڈہ بنتی نظر آرہی ہیں وہ ان قاتلین کی حمایت میں اتر جاتی ہے جس سے ان کی دہشت پھیلانے کے ارادہ کو مزید تقویت حاصل ہوجاتی ہے۔ اور اب حد تو یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں ایک طبقہ کے مخصوص پہناؤے(حجاب) پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ کسی خاتون کو اس کا چہرہ اور نیم بدن دکھانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ذرا تصور تو کریں کہ کوئی لڑکی کہیں جارہی ہو اور کچھ نوجوان اسے سر سے دوپٹہ اتارنے پر مجبور کردیں، یا اس نے ساڑی پہن رکھی ہو اور اسے ساڑی کی بجاے اسکرٹ پہننے کو کہا جائے تو اس عورت پر کیا بیتے گی؟ کیا ہمارے ملک کی عدالت اس حرکت کو نظر انداز کردے گی؟ یا کوئی انصاف پسند طبقہ اسے قبول کرلے گا؟ یا کوئی باپ اپنی بیٹی، بھائی اپنے بہن کے ساتھ ہوئے اس سلوک کو برداشت کرسکے گا؟ اگر ہاں تو تھو ہے ایسی عدالت، سماج، اور ماں باپ، بھائی اور شوہر پر، اور اگر نہیں تو پھر کیسے کرناٹک کے ان مسلم بچیوں کو حجاب اتارنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟ جس طرح ایک ساڑی والی عورت کو ساڑی کی بجائے اسکرٹ پہننے پر مجبور کرنا قانوناً جرم ہے بعینہ ایک حجاب والی کو اس کا حجاب اتارکر ننگے سر آنے پر مجبور کرنا ظلم نہیں؟

اب کہاں گئے عدل و مساوات کا ڈنکا بجانے والے؟ کہاں گئے عورتوں کی آزادی اور ان کے حقوق کا ڈھونگ کرنے والے؟ کہاں گئے میرا بدن میری مرضی کا نعرہ لگانے والے؟ کیوں کسی کو ان مسلم بچیوں پر ہورہا ظلم نظر نہیں آتا؟ کیوں کسی کو ان مسلم بچیوں کے مستقبل کی فکر نہیں؟ کیوں کوئی نہیں بولتا کہ جس طرح ملک کے ایوانوں میں ہر ممبر کو اپنے پسند کا لباس پہن کر آنے کی اجازت ہے اسی طرح تعلیم گاہوں میں ہر بچے اور بچی کو اپنے پسند کی لباس زیب تن کرنے کی اجازت نہیں؟

ملک کی اہم ترین جگہ (پارلیہ منٹ) میں ایک شخص بھگوا رنگ میں رنگا دھوتی کرتا پہن کر ماتھے پر ٹیکہ قشقہ لگا کر آتا ہے تو دوسرا شخص کرتا پائجامہ پہن کر ٹوپی لگا کر آتا ہے تو وہیں تیسرا شخص پینٹ شرٹ پہننے کے بعد  ٹائی لگا کر آتا ہے اور چوتھا شخص سر پر پگڑی باندھ کر آتا ہے اور بلاتفریق یہ سب کے سب اپنے مذہبی شعار کی نمائش اور اپنے مذہب پر کاربند ہونے کی ہی غرض سے ایسے  مخصوص لباس پہنتے ہیں جو ان کا دستوری حق ہے جس سے نہ ہمیں اور نہ آپ کو اور نہ ہی دستور اور قانون کو حق اعتراض حاصل ہے۔ پھر ایک کالج میں کیوں کسی کو اس کا مخصوص لباس پہن کر آنے کی اجازت نہیں؟ وہ بھی ایسی صورت حال میں کہ وہ حجاب کو مذہبی شعار سے کہیں زیادہ اس نسبت سے پہنتی ہیں کہ ان کی عزت و ناموس محفوظ رہے۔ جس طرح ہمارے ہندو بھائی اور بہنوں کا ماننا ہے کہ ساڑی پہننے میں خواتین کی پردہ داری ہوتی ہے، اور جس طرح ہمارے سکھ بھائی بہنوں کا یقین ہے کہ شلوارقمیص پہننے میں خواتین کی عزت محفوظ رہتی ہے، اور جس طرح مغربی تہذیب و تمدن کے دلداہ لوگوں کا گمان ہے کہ نیم برہنہ ہونے میں خواتین کی شان و عزت دوبالا ہوجاتی ہے، اسی طرح ہم مسلمانوں کا یہ یقین کامل ہے کہ حجاب ہی ہمارے بہو-بیٹیوں کی عزت و ناموس کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ پھر کیوں ہمارا سماج و معاشرہ، ہمارے ملک کی عدلیہ، قتدار کی کرسی پر بیٹھے ملک کے حکمران، انسانی بالخصوص عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والی تنظیمیں، ہر معاملہ میں مسلمانوں کی شبیہ داغ دار کرنے کے لیے کوشاں رہنے والی میڈیا اور مسلم خواتین کو تین طلاق کا فریب دینے والے مودی-یوگی کو ان مسلم بچیوں کی بے بسی نظر نہیں آتی؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔