گوشت فروشی اب کروڑپتی کرسکیں گے!

حفیظ نعمانی

بی جے پی کی یوپی میں نئی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مان سرور عمارت کے منصوبہ پر عمل کیا جائے گا ۔ذرائع کے مطابق طے ہوچکا ہے کہ کیلاش مان سروور عمارت لکھنؤ میں میں بنے گی۔ مختلف ریاستوں میں بنائے گئے حج ہائوس کے طرز پر ہی ا سے بنایا جائے گا۔ خبر میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر کسی کو اعتراض ہو۔لیکن کیلاش مان سروور جانے والوں کی سہولیت کے لیے عمارت بنانا اور اسے حج ہائوس کے طرز سے منسلک کرنے سے یہ تاثر ذہن میں آتا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے مسلمانوں کے لیے حج ہائوس تو جگہ جگہ بنائے لیکن ہندوئوں کے لیے کوئی عمارت ایسی نہیں بنائی جو کیلاش مان سروور جانے والوں کی قیام گاہ بن سکے۔

ہمارے خیال سے حج ہائوس کی مثال اس لیے مناسب نہیں ہے کہ جو حج کے لیے جاتا ہے رو دوسرے ملک جاتا ہے جس میں پاسپورٹ ، ویزا، ہوائی جہاز کا ٹکٹ اور جانے والے کو ان وبائی امراض سے محفوظ رکھنے کے لیے ٹیکے لگائے جاتے ہیں جن کا لگواکر آنا سعودی عرب کی حکومت نے لازمی قرار دے دیا ہے۔ ہندوستان سے مسلمان حج کے لیے تو سیکڑوں برس سے جارہے ہیں ۔ وہ پانی کے جہاز سے جاتے تھے اور سب کے سب ممبئی میں صابو صدیق مسافر خانہ میں ہفتوں پڑے رہتے تھے جب نمبر آتا تھا تو وہ جہاز پر سوار ہوتے تھے۔

پھر ایک وقت آیا کہ پانی کے جہاز سے جانا بند ہوگیا اورہوائی جہاز سے سفر ہونے لگا تو ایک ایسے دفتر کی ضرورت پیش آئی جہاں پورے صوبہ کے لوگوں کو لکھنؤ بلایا جائے اور وہاں سے اس طرح بھیجا جائے کہ ہوائی جہاز کی کوئی سیٹ خالی نہ جائے اور جانے والوں کے ٹیکے لگائے جائیں اور اس کا سرٹیفکیٹ ان کو دے دیا جائے۔ یہ عمارت مسلمانوں پر احسان نہیں ہے بلکہ حکومت نے اپنی ضرورت کے لیے بنائی ہے۔ وہاں پورا دفتر ہے اور وہی سب کو اطلاع کرتا ہے کہ کس ضلع کے لوگوں کو کس تاریخ کے جہاز سے جانا ہے۔ اوروہی دن میں دو دو جہاز روانہ کراتا ہے۔ حج ہائوس کہیں کا بھی ہو وہ سرکاری عمارت ہے۔ البتہ یہ فیصلہ بے شک سیاسی ہے کہ لکھنؤ میں حج ہائوس کا نام مولانا علی میاں کے نام سے جوڑدیا اور جب بریلوی عقیدے کے لوگوں نے اعتراض کیا کہ کیا صرف دیوبندی مسلک کے لوگ ہی حج کرنے جاتے ہیں ؟ تو دس سال کے بعد جو غازی آباد میں دوسرا حج ہائوس بنایا اسے مولانا احمد رضا خاں کے نا م سے جوڑ دیا۔ جبکہ اس کی ضرورت بالکل نہیں تھی کیوں کہ لکھنؤ حج ہائوس کی ایک اینٹ بھی مولانا علی میاں کی نہیں ہے۔ اور نہ اس کے مالک مولانا کے وارث ہوں گے اور نہ ان کا کوئی دخل ہے۔

اگر کانگریس یا سماج وادی حکومت اترپردیش میں ا یک بھی حج ہائوس نہ بناتیں اورصوبہ میں چار شہروں میں کیلاش مان سروور جانے والوں کے لیے رین بسیرے بناتیں اوروہاں سال بھر کہیں نہ کہیں کی یاترا کے لیے جانے والے ہندو بھائی قیام کرتے تو کون تھا جو اعتراض کرتا؟ حکومت تو خود ہی اجمیر جانے والوں کے لیے سہولت کی فکر کررہی ہے، مسلمانوں نے تو کبھی اس کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس لیے کہ اجمیر جانا کوئی مذہبی فریضہ نہیں کچھ مسلمانوں کے جذبہ کی تسکین ہے۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں جانے سے کچھ مل جاتا ہے۔ لیکن کسی حکومت نے اجمیر یا تریوں کے لیے کوئی چھپر بھی نہیں ڈالا کیوں کہ یہ اپنے ملک کا معاملہ ہے۔ اور جانے والے ٹرین اور بسوں سے جاتے اور آتے ہیں ۔

ہم اس کا اعتراف کرنے میں شرم محسوس نہیں کررہے کہ جب بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کے طور پر یوگی صاحب کا اعلان کیا تو پورے ملک کے مسلمانوں پرجیسے بجلی گری تھی۔ ہر مسلمان دم بخود تھا کہ راج ناتھ سنگھ کی شہرت ہوتے ہوئے یہ کیا ہوگیا؟ ہر طرف قیاس کے گھوڑے دوڑائے جارہے تھے کہ یہ کس کا فیصلہ ہے؟ اور یہ حقیقت ہے کہ ہر مسلمان نے ایک دوسرے کوتسلی دیکر آخر میں یہی کہا کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور ہر تلاوت کرنے والا کلام پاک میں پڑھتا ہے ،ترجمہ: ملکوں کا مالک وہی ہے وہ جس کو چاہتا ہے ملک کی حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے واپس لے لیتا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔اس کے بعد ہم مسلمان ہیں تو ہم کیوں فکر کریں ؟ پھر جس نے اس انداز میں سوچا اس کا دل مطمئن ہوگیا اور یوگی مہراج نے پہلا کام یہ کیا کہ گوشت کو فروخت کرنے کے لیے یہ کہا کہ ہر مذبح اور ہر دوکان قانون کے اندرہونا چاہیے۔

جس وقت ہم نے یہ سنا تو آج سے 20سال پہلے کا اپنا سعودی عرب کا قیام یاد آگیا ۔ مدینہ منورہ میں میرا بڑا بیٹا برسوں سے رہ رہا تھا۔ اس نے کہا کہ آپ جو لکھنؤ میں گوشت لاتے تھے ایسا ہم نہیں لاپاتے۔ آج بازار چل کر آپ بتائیے کہ گوشت کیسے خریدتے تھے؟ بازار گئے اور گوشت کی دوکان میں داخل ہوئے تو ا یک صاحب کرسی پر بیٹھے تھے سامنے ایک میز تھی اور گوشت کی بوٹی بھی نہیں تھی۔ خیال ہوا کہ ہمارے بیٹے کسی دوست سے ملنے آئے ہیں ۔ بیٹے نے ہم سے کہا کہ انھیں بتائیے کہ کیسا گوشت لینا ہے؟ ہم نے کہا کہ دست اور سینہ کا گوشت دیجئے۔ انھوں نے معلوم کیا کہ کہاں کا؟ ہم نے پھر دست اور سینہ کہا۔ انھوں نے پھر کہا کہ کہاں کا؟ اور چوتھی مرتبہ ان کے منہ سے نکلا کہ کس ملک کا؟ ہمارے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔ وہ پاکستانی تھا اس سے کہا کہ یہ آپ بتائیں ؟ اس نے کہا کہ ہم لوگ عمان کے بکرے کوبہت پسند کرتے ہیں ۔

یہ کہہ کر وہ اٹھا اور دیوار سے لگی 8الماریوں میں سے ایک کھولی تو وہ فرج تھا۔ اندر سے بھاپ نکل رہی تھی۔ تب جا کر معلوم ہوا کہ ہر الماری میں دو بکرے ہیں ۔ کچھ ایسی ہی شکل جد ہ میں دیکھی وہاں میری بیٹی ہے۔ اس نے کہا کہ آپ کو مچھلی کا بہت شوق ہے چلئے اپنے پسند کی مچھلی خرید لیں ۔ دوکان میں داخل ہوئے تو وہ انتہائی ٹھنڈی تھی ، چاروں طرف سے بند، اندر شوکیس ایسے سجے تھے جیسے لکھنؤمیں بڑے جویلروں کے ہوتے ہیں ۔ میں نے کہا، بیٹی! جو مچھلی سونے کے زیور کی طرح رکھی ہوئی ہو اس میں پسند کہاں سے آئے گی؟ ہم تو اس مچھلی منڈی والے ہیں جن کی مچھلی خریدنے میں کپڑے پاک رہ جائیں تو بڑی بات ہے ۔یہاں تو تم لوگ ہی خریدو۔ لکھنؤ آئوگی تو ہم لادیں گے۔ یہ بات صرف سعودی عرب کی ہی نہیں ہے لندن میں میرے بھائی اور ان کا خاندان ہے اور دبئی میں کئی عزیز ہیں ہر جگہ سے بقراعید کے موقع پر حکم آجاتا ہے کہ ہماری طرف سے فلاں فلاں کی قربانی کردی جائے۔ اپنے بچے صرف اطلاع کردیتے ہیں  اور تعلق والے کسی بھی ذریعہ سے پیسے بھیج دیتے ہیں ۔

اب ہم کیسے کہیں کہ اترپردیش کے مسلمانوں کو قانون کے دائرہ سے الگ کردیں ۔ تاکہ وہ جہاں چاہیں بھینس گرادیں اور جہاں چاہیں بکرے کاٹیں ۔ بس بہ بات کھٹکتی ہے کہ وزیراعلیٰ نے ہی یہ اعلان بھی کیا تھا کہ شراب کی کوئی دوکان آبادی کے ا ندرنہیں ہوگی اور اس پر عمل کرانے کے لیے نہ بلڈوزر آئے نہ پولیس، بلکہ جب عورتوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا تو ان پر پولیس نے لاٹھیاں برسائیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔