گوپال کرشن گاندھی: نائب صدر جمہوریۂ ہند کے امیدوار

عبدالعزیز

مسٹر گوپال کرشن گاندھی نہ صرف اچھے ڈپلومیٹ (سفارت کار) اور اچھے صحافی ہیں بلکہ قابل قدر دانشور اور خوب سیرت انسان ہیں ۔ خاندانی شرافت و تہذیب کے مالک ہیں ۔ مہاتما گاندھی کے ناتی اور راج گوپال اچاریہ کے پوتے ہیں ۔ ایسے شخص کا انتخاب لائق تحسین ہے۔ موصوف کا نام صدر کے امیدوار کے طور پر اپوزیشن کے نہ صرف زیر غور تھا بلکہ پہلا نام تھا مگر ایک دلت رام ناتھ کوبند کو بھاجپا یا این ڈی اے نے جب اپنا امیدوار اعلان کیا تو اپوزیشن کیلئے کسی دلت کی مخالفت کرنا مشکل ہوگیا۔ دلت کے مقابلے میں ایک دلت خاتون اور بابو جگ جیون رام کی بیٹی میرا کمار کو امیدوار بنانا پڑا۔ اگر چہ کوبند کے مقابلے میں میرا کمار بہتر امیدوار ہیں ۔ تجربہ کار سیاستداں رہ چکی ہیں ۔ لوک سبھا کی اسپیکر کے علاقہ پانچ چھ بار لوک سبھا کی ممبر بھی منتخب ہوئیں ۔ ان سے رام ناتھ کوبند کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن کوبند حکمراں جماعت کے امیدوار ہیں اس لئے ان کی کامیابی ایک حد تک طے ہے کیونکہ لوک سبھا، راجیہ سبھا اور ریاستی اسمبلی کے ممبران کی زیادہ تعداد حکمراں جماعت کے پاس ہے۔ جمہوریت میں یہی کمی اور خرابی ہے کہ تعداد دیکھی جاتی ہے، قابلیت نہیں دیکھی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبالؒ نے جمہوریت کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا تھا؎

جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جس میں

 بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

کیونکہ دنیا میں آمریت کے مقابلے میں جمہوریت کو زیادہ لوگ پسند کرتے ہیں ۔ اس لئے جمہوریت کے طرز حکومت کو دنیا میں زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ جمہوری انتخابات سے بھی ایسے لوگ بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں جو پارٹی میں آمریت پسند ہوتے ہیں اور ملک میں ان کا آمرانہ انداز ہوتا ہے۔ کانگریس کی اندرا گاندھی اپنی پارٹی میں مختار کل ہوگئی تھیں اس لئے آہستہ آہستہ ان کا ذہن آمرانہ ہوگیا تھا۔ یہی حال اس وقت مسٹر نریندر مودی کا ہے وہ اپنی پارٹی سے زیادہ بڑے اور قد آور ہوگئے۔ پارٹی میں کوئی ان کے خلاف آواز نہیں بلند کرسکتا ہے۔

ہندستان میں بھی ان کے حکومت کرنے کا اسٹائل بالکل آمرانہ ہے ۔ اس طرح جمہوریت میں بھی آمریت آنے کا امکان ہوتا ہے جس کی وجہ سے جمہوریت کی خامیاں اور خرابیاں اجاگر ہوتی رہتی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پارٹی ڈکٹیٹر شپ یا شخصی ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے مسٹر گوپال کرشن گاندھی کو وہ لوگ جو حکمراں جماعت میں شامل ہیں گوپال کرشن گاندھی کو پسند کرنے کے باوجود بھی اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ نہیں دیں گے۔ محترمہ میرا کمار نے ووٹروں کو ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے کی درخواست کی ہے جو صدا بصحرا ثابت ہوگی۔ شاید ہی کسی کا ضمیر اس قدر بیدار ہو جو اپنے ضمیر کی آواز پر گوپال کرشن گاندھی کو ووٹ دیدے۔

 اپوزیشن بیجو جنتا دل اور انا ڈی ایم کے کے لیڈروں سے ضرور توقع لگائے ہوئے ہے۔ ابھی تک ان پارٹیوں کا اعلان نہیں آیا۔ گوپال کرشن گاندھی چنئی کے رہنے والے ہیں اور آدھے تاملین ہیں ، اس لئے انا ڈی ایم کے کا ان کی مخالفت کرنا مشکل ہوگا۔ بی جے ڈی میں بھی ایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ گوپال کرشن گاندھی کی حمایت کی جائے۔ معاملہ پارٹی کے صدر کا ہے۔ وہ بھی ایک طرح کے ڈکٹیٹر ہیں ۔ ان سے بھی اچھی امید کرنا مشکل ہے۔ بی جے پی کے ساتھ وہ حکومت کرچکے ہیں ۔ کہتے ضرور ہیں کہ وہ بی جے پی اور کانگریس سے یکساں دوری رکھتے ہیں مگر عملاً ایسا نہیں ہے۔ گوپال کرشن گاندھی کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ کانگریس کے امیدوار نہیں ہیں بلکہ اپوزیشن کی اٹھارہ پارٹیوں کے امیدوار ہیں ۔

ترنمول کانگریس کے ترجمان نے ان کا نام پیش کیا جس کی تائید سی پی ایم کے مرکزی سکریٹری سیتا رام یچوری نے کی۔ اس تال میل سے اپوزیشن کے قدم میں یقینا مضبوطی پیدا ہوگی کیونکہ سی پی ایم کی جب مغربی بنگال میں حکومت تھی تو بدھا دیب بھٹا چاریہ کے کام کاج کے طریقے پر گوپال کرشن گاندھی نے زبردست نکتہ چینی کی تھی۔ اس کے باوجود مارکسی پارٹی کی تائید قابل تحسین ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گوپال کرشن گاندھی جس شجاعت مندی اور عقلمندی کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مطلق العنانی اور اس کے ہندوتو فلسفہ کی مخالفت کر رہے ہیں ایسی شخصیت ہندستان میں بہت کم ہیں ۔ گوپال کرشن گاندھی نے نریندر مودی کی آمرانہ حیثیت اور ہندوتو فلسفہ پر جم کر اپنے کئی مضامین اور خط میں مخالفت اور مذمت کی ہے۔ یہی وہ ادا ہے جو غالباً مارکسی پارٹی کو پسند آگئی جس کی وجہ سے شروع ہی سے سی پی ایم نے گوپال کرشن گاندھی کو صدارتی امیدوار کیلئے اپنی تائید و حمایت کا اظہار کیا تھا۔

اگر ایم ایل اے اور ایم پی جو حکمراں جماعت سے تعلق رکھتے ہیں وہ ہندستان کا بھلا سوچیں گے تو یقینا وہ گوپال کرشن گاندھی جیسی پروقار اور عالی مرتبت شخصیت کو ضرور ووٹ دیں گے۔ اگر ایسی شخصیت کو جو لوگ ہرانے یا شکست دینے کی کوشش کریں گے انھیں نہ ہندستان کی جمہوریت کو بچانے سے کوئی دلچسپی ہوگی اور نہ ہی دستور ہند کی حفاظت سے ان کا کوئی سروکار ہوگا۔ وہ محض سیاست کی دنیا کے مرد بیمار ہونے کا ثبوت دیں گے جسے ہندستان جیسے ملک کی بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔