ہریانہ میں داروکی طرح گئو رکشک بھی نقلی اور اصلی

حفیظ نعمانی

            ایک طرف تو وزیر اعظم مودی صاحب کی خواہش یہ ہے کہ قوم ان کی آواز کو پنڈت نہرو کی آواز سے بھی زیادہ محترم سمجھے یا کم از کم ان کے برابر سمجھے، اور دوسری طرف جو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر انھیں اس مقام تک لائے ہیں وہی اب ان کی کسی بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں، ملک کے اس کونے سے اس کونے تک اور جب انٹرنیشنل میڈیا میں بھی دلتوں کو بے رحمی سے پیٹے جانے والے کیسٹ دکھائے جانے لگے تو وزیر اعظم کو یہ فکر ہوئی کہ اب وہ اگر کسی ملک میں گئے توجواب مانگا جائے گا کہ دلت اور گائے کی رکشا کرنے والوں کا کیا قصہ ہے تو کیا جواب دوں گا؟ اس پر انھوں نے کہہ دیا کہ وہ سب سماج دشمن ہیں، جو راتوں کو کالے دھندے کرتے ہیں اور دن میں گئو رکشکوں کا مکھوٹا چہرہ پر لگا لیتے ہیں۔

            وزیر اعظم نے اپنا مخصوص انداز اختیار کیا اور کہہ دیا کہ میرے دلت بھائیوں کو نہ مارو، مجھے مارو، لیکن دائو الٹا پڑ گیا، آر ایس ایس کے انڈے بچے دو چار نہیں درجنوں ہیں، اور وہ جو ایک پارٹی ہندو مہا سبھا ہے، جو کبھی ہندو نواز اکیلی پارٹی ہوا کرتی تھی مگر وہ بونی ہونے کی وجہ سے بس اتنی رہ گئی ہے کہ جب اسے بی جے پی کی مخالفت میں بولنا ہوتا ہے تب وہ سامنے آتی ہے، اور اس نے کہہ دیا کہ یہی رکشک تو ہندوستان کے سپوت ہیں اور جو ان کی مخالفت کررہے ہیں وہ کپوت ہیں۔

            اس سے بھی بہت بڑی بات یہ ہوگئی کہ شنکر آچاریہ سوامی سروپا نند جی نے کہہ دیا کہ مودی تو گئو رکشا کے نام پر ہی اقتدار میں آئے تھے، لیکن اب گئو رکشا کے لیے گورکھ دھندے کی بات کررہے ہیں، ہمیں امید تھی کہ نریندر مودی وزیر اعظم بن گئے تو بیف کی برآمدبند کردی جائے گی، لیکن آج بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں سے ہی سب سے زیادہ بیف برآمد ہورہا ہے، ساتھ ہی سبسڈی بھی دی جارہی ہے، شنکر آچاریہ جی نے مرکزی حکومت کو دلتوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا، دلتوں پر ظلم و ستم کے واقعات پر انھیں بیان دینے کے بجائے معاملہ کو سنجیدگی سے لینے کا مشورہ دیا۔

            سروپا نند جی نے تو وزیر اعظم کو چیلنج دے دیا کہ آپ گئورکشا کے بجائے وکاس کے نام پر الیکشن جیت کر دکھا دیجئے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے زیادہ فائدہ تو آپ لے رہے ہیں اور پہلے سے زیادہ بیف کا ایکسپورٹ ہورہا ہے، بی جے پی کی ہریانہ حکومت نے ملک میں ظلم اور بربریت کے فروغ کے لیے ایک اور قدم اٹھا لیا ہے، انھوں نے ا صلی گئو رکشک اور نقلی گئو رکشک کا فتنہ کھڑا کردیا، اب ایک اصلی گئو رکشا دل بنایا جائے گا جن کے ممبروں کو شناختی کارڈ دئے جائیں گے، ان کے علاوہ کوئی گئو رکشک نہیں مانا جائے گا، اب سوال یہ ہے کہ یہ اصلی گئو رکشک کیا کریں گے؟

            یہ کتنی بڑی بے ایمانی اور ملک کے شریف لوگوں کے ساتھ غداری ہے کہ خود حکومت کی نگرانی میں اعلیٰ قسم کی گائیں سیکڑوں کی تعداد میں کٹ رہی ہیں اور ان کے گوشت سے ریال، دینار، درہم اور ڈالر کمائے جارہے ہیں اور حکومت کاخزانہ بھرا جارہا ہے، اور اگر دو چار گائیں فروخت کرنے کے لیے مویشی میلے میں لے جائی جارہی ہیں تو غنڈے ان کو روک کر ہزاروں روپے ان سے وصول کررہے ہیں اور انھیں مار رہے ہیں، اب تک یہ حرکت صرف مسلمان ڈرائیوروں کے ساتھ ہورہی تھی، اب یہ سکھ ڈرائیوروں کے ساتھ بھی ہونے لگا ہے، جبکہ پنجاب میں جرسی گایوں کے نہ جانے کتنے فارم ہیں جہاں تیار کرکے وہاں سے دوسرے ملکوں کو جائز طریقے سے بھیجا جاتا ہے، اب وہ بھی رورہے ہیں، پنجاب میں بادل حکومت ہندوئوں کی وجہ سے ان ہندوئوں سے کچھ نہیں کہتی۔

            یہ بات کہ ملک میں گائے کا کاٹنا قانون کے خلاف ہے، کانگریس کے زمانہ سے ہے، لیکن ہندو ہونے کے باوجود ان میں اتنی شرافت تھی کہ وہ نظر بچا لیتے تھے، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ جب ہندو ہی حکومت کی نگرانی میں سیکڑوں گائیں کٹوارہے ہیں اور ہندو ہی مسلم ملکوں کو اس کا گوشت بھیج رہے ہیں تو مسلمان اگر کھانے کے لیے کاٹے تو اسے کس منہ سے منع کریں ؟ لیکن آر ایس ایس کا پروردہ ہندو یا تو اندھا ہے یا وہ جاہل ہے جسے یہ نہیں معلوم کہ سیکڑوں گائیں کہاں کٹ رہی ہیں ؟ اب یہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے ایماندار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ فیس بک پر ان سلاٹر ہائوسوں کے فوٹو ڈال دیں جہاں ہر طرف کٹی ہوئی گائیں ہوں اور ان کا گوشت مسلمانوں کے لیے اعلیٰ قسم کے پیکٹوں میں پیک کیا جارہا ہے، اور ان ایکسپورٹروں کے فوٹو بھی چھاپ دئے جائیں جن کا نام اور دھرم بھی لکھا ہوا ہے۔

            ہریانہ کے وزیر اعلیٰ وزیر اعظم بیچ کے سنگھی ہیں، وہ بھی خوب جانتے ہیں کہ کتنا گوشت ہندوستان یعنی بھارت سے ایکسپورٹ ہورہا ہے، انھیں اگر واقعی اصلی گئو رکشکوں کی بات کرنا ہے تو ضرور کریں مگر ان کی ڈیوٹی ان سلاٹر ہائوسوں میں لگائیں جہاں وزیر اعظم کے حکم سے مائیں کٹ رہی ہیں، ان سے کہیں کہ وہ وہاں جا کر لیٹ جائیں اور اعلان کریں کہ ہمارا گوشت ایکسپورٹ کردیا جائے، اس کے بعد ماں کا حق ادا ہوسکتا ہے۔

            حیرت ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے دوست ہریانہ کے وزیر اعلیٰ سے یہ نہیں کہا کہ یہ نیا فتلہ کیوں کھڑا کررہے ہو؟ آج تک آر ایس ا یس نے انسانوں کی اور ان کے باپ اور ماں کی حفاظت کرنے والی فوج تو بنائی نہیں گائے کی حفاظت کرنے والی اصلی فوج بنا ڈالی، اگر اسے زیادہ شرم دلائی گئی تو وہ کہیں ایکسپورٹ امپورٹ کا پرمٹ دینے والوں کاہی کام تمام نہ کردیں۔

            2014ء میں مودی کی تقریروں سے کیسی کیسی امیدیں بندھی تھیں، اور جب انھوں نے کہا تھا کہ تم نے سب کو 60برس دئے مجھے صرف 60مہینے دے دو توہر کسی نے ووٹ دے دیا تھا، لیکن 60تو ابھی دورہیں صرف 20مہینوں میں ہی کہا جانے لگا کہ ذرا دوسرا الیکشن لڑ کر دیکھ لو، 2014ء کے بعد 10صوبوں کے الیکشن میں صرف تین جیتے اور 7ہارے ہیں اور یہ گئو رکشک جو کاندھو ں پر بٹھا کر لائے تھے، یہی انھیں ڈانواڈول کرکے اترپردیش پنجاب اور گجرات میں وہاں پہنچا دیں گے جہاں انھیں جانا چاہیے، اگر حکومت کرنا ہے تو حاکم بن کے دکھائو، ورنہ مودی کو چندرشیکھر کے ۴ مہینوں سے بھی بدتر لکھا جائے گا اور یہ آر ایس ایس کا خاتمہ ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔