ہر دن مودی جی تیزی کے ساتھ نیچے آتے ہوئے

حفیظ نعمانی

قارئین کرام کو معلوم ہے کہ ان سطروں کا لکھنے والا ایک نہیں کئی امراض کی گرفت میں ہے۔ دوائوں کے درمیان فاصلہ سب سے اہم رمضان شریف میں ہوجاتا ہے۔ گردوں کی وجہ سے وہ دوا بھی دی جاتی ہے جس کے اثر سے ہر تھوڑی دیر کے بعد پیشاب ہوتا ہے اس دوا اور دوسری دوائوں کے درمیان جتنے فاصلہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ تراویح کے بعد کھانے اور سحری کے درمیان کے وقفہ میں پورا نہیں ہوتا۔ بار بار پیشاب کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے اور روزہ کے پندرہ گھنٹوں کی وجہ سے وہ پانی پی کر دور نہیں کی جاسکتی۔ معالجین وہ مسلمان ہوں یا غیرمسلم ایسے سوالوں کے جواب میں کہہ دیتے ہیں کہ آپ کے مذہب میں بیمار کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ رمضان کے روزوں اور اپنے طور پر رکھنے یا اس کے بدلہ میں روپئے یا کھانا دینے والے کو وہ اطمینان نہیں ہوتا جو روزہ دار کو ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہر مبارک مہینے کے ابتدائی چند دن میں معذرت کرلیتا ہوں اور جب طبیعت اس قابل ہوجاتی ہے کہ اسے معمول کہہ سکیں تو پھر قلم پکڑتا ہوں اور کہتا ہوں۔ چل مرے خامہ بسم اللہ۔

آج بھی صرف اس لئے لکھنا پڑا کہ وزیراعظم نریندر مودی جن کے چہیتے دُلارے نہ جانے کتنے ہیں جن پر اخلاقی مقدمات چل رہے ہیں ان میں کوئی صوبہ کا وزیراعلیٰ ہے کوئی وزیر اور نہ جانے کتنے پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ممبر۔ اور انہوں نے تو سادھوی پرگیہ ٹھاکر جیسوں کو لوک سبھا کا اُمیدوار بناکر اپنے اس جواب کو لوہے کا بنا دیا کہ جب تک عدالت نے مجرم نہیں مانا اور سزا نہیں  دی اس وقت تک سب پاک صاف ہیں۔ اس کے باوجود سابق وزیراعظم راجیو گاندھی جن پر ایسا ہی بوفورس توپوں کے سودے میں کمیشن کا الزام ہے۔ جیسے خود مودی کے اوپر رافیل جنگی جہاز کی فرانس سے خریداری میں بہت سی بدعنوانیوں کا الزام۔ بوفورس وہ توپ ہے جسے کارگل کے مقابلہ میں استعمال کیا گیا اور سب نے اس کی کارکردگی کے قصیدے پڑھے۔ اور راجیو گاندھی کے وزیراعظم بننے سے پہلے کی زندگی بھی سب کے سامنے ہے کہ وہ بڑے بیٹے تھے لیکن پورے ملک کی حکومت اپنے چھوٹے بھائی سنجے گاندھی کو دے رکھی تھی اور خود ہوائی جہاز اُڑانے کی نوکری کررہے تھے اور زیادہ تر اپنی سسرال میں رہتے تھے۔ ان کی پاک صاف زندگی وزیراعظم بننے کے بعد کیسی رہی اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ جب تک دوسروں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر چلتے رہے وہ غلط کاموں میں پھنستے رہے۔ پھر جب انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھنا شروع کیا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ لیکن وزیراعظم کو صرف بوفورس توپوں کے سودے میں کمیشن کی شہرت سے انہیں بدعنوان نمبر وَن کہنے کا کہیں سے کہیں تک حق نہیں ہے۔ اب تک کی اپنی پانچ سالہ وزیراعظم کی زندگی میں سب سے گھٹیا اور شرمناک بات کہی جائے گی۔

ملک کے وزیراعظم دیوی گوڑا، راجہ وشو ناتھ پرتاپ سنگھ، مرارجی ڈیسائی، چودھری چرن سنگھ ایسے تھے کہ کوئی ان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا اور جنتا پارٹی کے سابق صدر چندرشیکھر صرف چار مہینے وزیراعظم رہے اور باہر آکر انہوں نے چار مہینے بنام چالیس سال کا نعرہ بھی لگایا جبکہ ہمارے عزیز دوست اور چندرشیکھر کے دوسرے ساتھیوں نے ان چار مہینوں میں ہی وہ کھیل کھیلے کہ بڑے بڑوں کو مات کردیا۔ لیکن راجیو گاندھی کے گلے میں جو بوفورس ڈالی وہ اب تک نہیں نکلی مگر اس کی وجہ سے بدعنوان نمبر وَن کہنا وہ خود سوچیں کہ کتنا جھوٹا اور غلط الزام ہے؟

گذشتہ پانچ سال میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے وزیراعظم کا قصیدہ شاید ہی پڑھا ہو وہ اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ لیکن پلوامہ کے حملہ کے بعد تو نہیں مگر اب جب لوگ ووٹ دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ کسے دیا جائے تو شاید انہیں خیال آیا کہ حکومت اور پارٹی میں ایک طبقہ اندھوں کی طرح مودی جی کا چاہنے والا ہے ہوسکتا ہے وہ ووٹ دینے میں دلچسپی نہ لے اس لئے اسے خوش کرنے کیلئے انہوں نے پولنگ سے ایک دن پہلے کہہ دیا کہ پلوامہ کے حملہ کے بعد رات بھر مودی سو نہیں سکے تھے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ وزیرداخلہ اندر کے وزیر ہوتے ہیں لیکن یہ شاید کسی کو نہ معلوم ہو کہ ان کے فرائض میں یہ بھی ہے کہ وہ اس کی خبر رکھیں کہ وزیراعظم رات کو سوئے یا جاگتے رہے۔ اور جب ہندوستان کے بہادر جوانوں نے پاکستان میں گھس کر ایئر اسٹرائک کی تب ملک کے عوام کے ساتھ وزیراعظم کے کلیجے کو ٹھنڈک پہونچی تھی۔

وزیرداخلہ بھی اتنے ہی واقف ہوں گے جتنے وزیر دفاع ہیں کہ پاکستان کے قبضہ والے بالاکوٹ کے اردگرد ہمارے بہادر جوانوں نے اپنے وہ کرتب دکھائے جو نمائش کے طور پر دکھاتے رہتے ہیں لیکن اس میں صرف شوں شاں اور شیں شاں کی آوازیں نکلتی ہیں۔ وزیر خارجہ اور دوسرے وزیر بتاچکے ہیں کہ فضائیہ کو تاکید کردی تھی کہ پاکستان کے کسی شہری کو بلکہ کسی فوجی کو بھی ہلاک نہ کیا جائے وزیر داخلہ جانتے ہیں کہ سب سے پہلے غیرذمہ دار سوشل میڈیا نے تین سو دہشت گردوں کو ختم کرنے کی خبر دی وزیراعظم نے اس کی تردید ضروری نہیںسمجھی اور صرف اس کی تصدیق کردی کہ 3:30  بجے ہماری فضائیہ کے جوان جان پر کھیل کر پاکستان میںگھسے۔ ایک وزیر اہلووالیہ کہہ چکے ہیں کہ اس پروگرام میںکسی کو ہلاک کرنا نہیں تھا۔ ہندوستان کے گودی میڈیا نے بھی سوشل میڈیا کی خبر پر 350  کہنا شروع کردیا۔ لیکن پوری دنیا کے میڈیا والے آئے اور دن بھر دیکھنے کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ نہ کسی کو ہندوستان نے مارا ہے اور نہ تباہ کیا ہے۔ وہیں  سے یہ مطالبہ شروع ہوا کہ بتائو کہ کتنے مارے اور وزیراعظم نے آج تک یہ ضروری نہیں سمجھا کہ سچائی بتادیں؟ بس گھس کر مارا اندر جاکر مارا دوڑا دوڑاکر مارا چھیڑا تو چھوڑا نہیں اور اب یہ ہے کہ میں نے اندر گھس کر مارا۔ افسوس ہے کہ یہ خبر رکھنے والے وزیرداخلہ نے سوئے یا جاگے تو بتایا یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ وہ ایک بہت کمزور پڑوسی کو ماریں اور واپس آگئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔