ہزاروں خواہشیں ایسی کہ…!

ڈاکٹر شکیل احمد خان

کنگ آرتھرکا نام برطانوی تاریخ، اوب اور کلچر میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ آرتھر نے 5؍ویں اور 6؍عیسویں میں برطانیہ پر حملہ آور جرمنی کے قبائل انگلس سیکسن  سے کئی معرکۃ الآرا جنگیں لڑی۔ اور برطانیہ کی آزادی کو برقرار رکھا اگرچہ کہ جدید مورخین کے نزدیک آرتھر کا حقیقی اور تاریخی وجود مشکوک ہے۔ لیکن ایک دیو مالائی کردار کے طور پر کنگ آرتھر انگریزی ادب اور کلچر کا جزولاینفک ہے۔ ایک روایت کے مطابق جب آرتھر بادشاہ بن گیا تو اسکے جادوگر مشیر نے اسے بتایا کہ کل جب وہ سیر کیلئے باہر نکلے گا تو اسے ایک بونا(پست قد)ملے گا جو اسے لڑنے کے لئے چیلنج کرے گا۔ جب تم اس پر غالب آجائو تو اسے قتل کر دینا۔ دوسرے دن جنگل میں بادشاہ کو واقعتاایک بونا مل گیا۔ جو تلوار سونت کر لڑنے کا چیلنج کرنے لگا بادشاہ نے بآسانی اُسے شکست دے دی۔ مگر جب وہ رحم کی درخواست کرنے لگا تو بادشاہ نے اُسے معاف کر دیا۔ مشیر نے آرتھر کو تنبیہ کی کہ اگر تم اُسے قتل نہیں کروگے تو ایک دن وہ تمہیں قتل کر دے گا۔ دوسرے دن بونا پھر نمودار ہوگیا۔ اب وہ ایک یا دو انچ بڑا دکھائی دے رہا تھا۔ لڑائی کے بعد آرتھر نے پھر اسکی جان بخشی۔ مسلسل کئی دنوں تک یہی ہوتا رہا۔ اس وقت وہ بونا تقریباً نارمل آدمی اُتنا اونچا ہوچکا تھا۔ 11؍ویں دن وہ ایک دیو کی شکل اختیار کر گیا۔ درختوں کو اکھاڑتا جھاگ اڑاتا حملہ آوار ہوا۔ آرتھر کے گھوڑے کو مار کر اس پر چڑھ دوڑا۔ طویل لڑائی کے بعد آرتھر نے اسے مار کر بمشکل اپنی جان بچائی۔

کیا اس دیومالائی واقعہ میں کوئی دائمی سماجی حقیقت بھی پوشیدہ ہے؟ دیکھئے بعد ازاں آرتھر کو اسکے مشیر نے بتایا کہ یہ بونا دراصل ہماری خواہشات ہیں۔ اگر ابتداء ہی میں انہیں قابو میں نہیں کیا جائے تو رفتہ رفتہ وہ خطرناک روپ اختیار کر لیتی ہیں۔ کیا ہمارے معاشرے میں بھی خواہشات کے بونے دیو پیکرراکشسوں کی صورت اختیار کر کے معاشرتی سکون کو ختم کرنے کے درپے نہیں ہیں؟ کم عمر بچے اور نوجوان بھی خواہشات کے چنگل میں پھنس کر اپنی زندگیوں کو داؤپر لگا رہے ہیں۔ اخبارات کے مطابق جاپان میں نیا موبائل خریدنے کے لئے ایک نوجوان نے اپنی کڈنی بیچ دی۔ ایک طرف جہاں ماں باپ بچوں کی خواہشات کی ضد سے پریشان ہیں تو دوسری طرف خود انکی اپنی زندگیاں بھی خواہشات کے چکر ویو میں پھنسی ہوئی ہے۔ ـ”مجھے اور چاہیے، مجھے اور چاہیے” کا شور مچا ہوا ہے۔ لفظ ’قناعت‘ صرف اقوال زریں میں نظر آتا ہے۔ سرمایہ داروں نے خوبصورت ماڈلس کی ا شتہاربازی کے ذریعہ بیکار، لغو اور غیر ضروری چیزوں کو ضروریات بنا دیا ہے۔ اس چکا چوند میں صحیح غلط، اچھا برا سوچنے سمجھنے کے لیے ہم میں سے اکثرکے پاس نہ تو وقت ہے اور نہ ہی ذاتی تعلیم و لیاقت اور نہ ہی بیرونی سماجی رہنمائی کا مناسب نظم۔ کچھ لوگ کوشش بھی کریں تو بقول شخصے، نقار خانے میں طوطی کی ــ کون سنتا ہے !

یاد رکھیے، مصنوعی ضروریات پیدا کرنا اور انھیں حاصل کرنے کی خواہش میں مبتلا کرنا تاجروں اور حکمرانوں کے حق میں ہوتا ہے اور انکی پالیسی بھی۔ تاجروں کی تجارت چلتی رہے اور خواہشوں کے جال و کھیل تماشوں میں الجھ کر عوام کو حکومتوں کی کارکردگی پر غور کرنے یا احتجاج کرنے کی سمجھ یا فرصت ہی نہ رہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ صرف حرص و طمع پر مبنی بیجا اور بے قابو خواہشات نقصان دہ ہوتی ہیں۔ ورنہ سرے سے ساری خواہشات ہی ختم ہو جائے تو فکر و عمل اور جد و جہد کے سارے  سوتے خشک ہو جائے، زندگی بے کیف ہو جائے اور کاروبار حیات ٹھپ ہو جائے۔ غور کریں، ہم سوچ سمجھ سے عاری روبوٹ یا اس ضدی و نادان بچہ کی مانند تو نہیں ہو گئے ہیں جسے یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ اس کے لیے کونسا کھلونا اچھا اور ضروری ہے۔ ہمارے اکثر مسائل بیجا خواہشات کے باعث ہیں۔ کچھ وقت نکال کر سوچیں کہ ہمارا مقصد کیا ہے ؟ ہمیں واقعتا کن چیزوں کی ضرورت ہے ؟ صحیح کامیابی کیا ہے؟  بیجا خواہشات کا ہجوم و جنون حرص و طمع، خودغرضی، ہوس، استحصال اور ہر طرح کے جرائم و گناہوں کی طرف لیجاتا ہے۔ اور بھگوت گیتا کے مطابق’ جہنم کے تین دروازے ہیں، ہوس، غصہ اور حرص و طمع ‘۔ خواہشات کی عدم تکمیل احساس محرومی پیدا کرتی ہے۔

گوتم بدھ کے الفاظ میں ’احساسِ محرومی سب سے بڑا دکھ ہے‘۔ پس جتنی زیادہ خواہشات اتنے زیادہ دکھ۔ مشہور یونانی دانشور و فلسفی ایپیکیورسEpicurusکا کہنا تھا کہ’ اگر آپ کسی شخص کو خوش رکھنا یا کرنا چاہتے ہو (یعنی اس کی بھلائی چاہتے ہو) تو اسے حاصل دولت یا اشیاء میں مزید کچھ اور شامل کرنے کی بجائے اسکی خواہشات میں سے کچھ نکال لیں ‘۔ جتنی خواہشات میں کمی ہوگی، اتنی ہی طمانیت و سکون اسے میسر ہوگی جو کہ سچی خوشی کی اساس ہے۔ رومن فلسفی و ادیب سینیکا Seneca نے زندگی کی حقیقت اور سچی خوشی کی اصلیت کے بارے میں کافی غور و فکر کیا اور اس نتیجہ پر پہونچا کہ ’حقیقی دانشمند شخص وہ ہے جو عدم دستیاب چیزوں کی خواہش میں مبتلا ہوئے بغیر، اپنی قسمت سے (جیسی بھی وہ ہے) راضی، مطمئن اور قانع رہتا ہے۔ خوشی دراصل سکون و طمانیت کی ایک کیفیت کا نام ہے جو ایسے طاقتور اور متوازن ذہن میں پروان چڑھتی ہے جو ظاہری اشیا ء کے ہونے یا نہ ہونے سے رتی برابر بھی متاثر نہیں ہوتا۔‘

آج کے مادی و صارف سماج میں یہ بات شاید مضحکہ خیز معلوم ہو لیکن یہی تاریخ کے ذہین ترین افراد کے تجربات، مشاہدات، اور مطالعے کا نچوڑ ہے۔ ہمیں سماجی و معاشرتی سکون و اطمینان عزیز ہے تو ہمیں حضرت علی کی اس نصیحت پر عمل کرنا ہوگا کہـ’ زندگی کوضروریات میں رکھو، خواہشات کی طرف مت لے جائو۔ ضرورت فقیروں کی بھی پوری ہو جاتی ہیں اور خواہشیں بادشاہوں کی بھی باقی رہ جاتی ہیں‘۔ بصورتِ دیگر ہم یہی کہتے رہ جائیں گے کہ:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے

1 تبصرہ
  1. ابوالاشبال ابن فیضی کہتے ہیں

    بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے،

تبصرے بند ہیں۔