ہمارا ملک کدھر جارہا ہے؟ غلامی یا آزادی کی طرف

عبدالعزیز

          جب مرار جی ڈیسائی وزیر اعظم تھے تو کل ہند مسلم مجلس مشاورت مغربی بنگال کی طرف سے ڈاکٹر مقبول احمد اور راقم ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تھے۔ اس وقت جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔ جنتا پارٹی میں آج کی بی جے پی جن سنگھ کے نام پر شامل تھی۔ اٹل بہاری واجپئی وزیر خارجہ تھے اور مسٹر ایل کے ایڈوانی وزیر اطلاعات و نشریات کے عہدہ پر فائز تھے۔ کئی بڑے سوشلسٹ لیڈر بھی جنتا پارٹی کے ممتاز لیڈروں میں سے تھے جن میں مدھو لیما اور جارج فرنانڈیز قابل ذکر تھے۔ چودھری چرن سنگھ بھی بڑے لیڈروں میں تھے، اس وقت آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ جن سنگھ کے جو لوگ تھے وہ آر ایس ایس کے ممبر بھی تھے اور جنتا پارٹی کے بھی رکن تھے۔ اس وقت ان کی دہری رکنیت موضوع بحث بنی ہوئی تھی۔ وہ لوگ تھے جنتا پارٹی میں مگر آر ایس ایس کے اشارے اور کنایے پر کام کرتے تھے اور جھگڑا لڑائی کو ہوا دیتے تھے۔

          ایک سوال کے جواب میں مرار جی ڈیسائی نے کہاکہ جب بھی ملک میں آپسی رنجش اور گالی گلوچ کی وجہ سے تناؤ یا کشمکش پیدا ہوئی ملک غلام ہوا اور ہندستان کے لوگوں کو غلامی کا مزہ چکھنا پڑا۔ آج جنتا پارٹی کا راج تو نہیں ہے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار ہے۔ اس پارٹی کی حکمرانی سے ملک تیزی کے ساتھ انتشار اور انارکی کی طرف جارہا ہے۔ ایک خاص فکر اور ایک خاص کلچر کو پورے لوگوں پر زور زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جو لوگ ذرا بھی ان سے اختلاف یا انحراف کرتے ہیں ان کو یہ لوگ ملک دشمن اور غدارِ وطن کہہ کر دبانے اور سزا دلانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جو وہ کھاتے پیتے ہیں سارا ملک وہی کھائے پئے۔ جو وہ کہتے اور کرتے ہیں وہی سارا ملک کہے اور کرے ورنہ اس کی خیر نہیں ہے۔ یہی حال ان کی پارٹی کے ممبروں کا ہوگیا ہے اور جو لوگ وزیر یا عہدیدار ہیں ان پر بھی یہی نشہ سوار ہے۔ وزیر دفاع منوہر پاریکر جو وزیر جنگ کہلانے کے مستحق ہوگئے ہیں چند دنوں پہلے ان کا ایک بیان آیا کہ پاکستان جانا اور جہنم میں جانا برابر ہے کیونکہ پاکستان جہنم ہے۔ کرناٹک کے منڈیا کی سابق کانگریسی ایم پی دیویا اسپندنا جن کا فلمی نام رمیہ ہے جب منوہر پاریکر کے بیان کے برخلاف اپنی رائے ظاہر کی کہ پاکستان جہنم نہیں ہے وہاں کے لوگ بھی ہمارے ملک کے لوگوں کی طرح ہیں تو فرقہ پرست عناصر ان پر پل پڑے اور ان کو نہ صرف غدارِ وطن کے الزام سے نوازا بلکہ ان پر نیچے کی عدالت میں مقدمہ بھی دائر کر دیا۔ اب فرقہ پرستوں کا یہ بڑا پسندیدہ ہتھیار ہوگیا جس کو چاہتے ہیں اس ہتھیار سے مارنے اور زخمی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

           رمیہ کرناٹک کی رہنے والی ہیں جہاں خوش قسمتی سے فرقہ پرستوں کی حکومت نہیں ہے، وہاں رمیہ پر گندے انڈے اور کیچڑ پھینکنے کی کوشش کی گئی کیونکہ وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں اور کہاکہ انھوں نے کوئی غلطی یا گناہ نہیں کیا ہے جس کیلئے وہ معافی یا معذرت کی طلب گار ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسی کا نام جمہوریت اور آزادی ہے؟ یہ تو بربریت اور آمریت ہے۔ ملک آمریت اور بربریت کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ پورے ملک میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ صورت حال امن پسند اور انصاف پسند انسانوں کی کوششوں سے نہیں بدلتا تو ملک کی جمہوریت اور آزادی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ فرقہ پرستوں کی من پسند برطانوی حکومت نے Sedition Act (ملک سے بغاوت کا قانون) اپنی حکومت کی درازیِ عمر کیلئے بنایا تھا اور ہندستانیوں کو پریشان کرنے کیلئے اس ظالمانہ اور غیر انسانی قانون کو استعمال کرتے تھے۔ آج اسی قانون کو بدقسمتی سے ان ہندستانیوں کے خلاف حربہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جو ملک کی آزادی، جمہوریت اور سا  لمیت کو ہر حال میں برقرار رکھنے کیلئے کوشاں ہیں۔ کانگریس نے بھی اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کرنے کیلئے اسے باقی رکھا تھا۔ آج وہی قانون کانگریسیوں، کمیونسٹوں اور دیگر شہریوں کیلئے اندھا دھند استعمال کیا جارہا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کے خلاف ہر طرف سے آواز بلند ہو تا کہ اس کالے قانون کو ختم کیا جائے۔ یہ کالا قانون غلامی کی یادگار ہے۔ اسے باقی رکھنا اور استعمال کرنا ملک کو غلامی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔