ہمارے پاس کیا ہے؟

مدثراحمد

فی الوقت ہندوستان میں جمہوری حکومت سے بڑھ کر میڈیا کی حکومت چل رہی ہے، پچھلے ہفتہ ہی ڈاکٹر ذاکر نائک کوانٹرپول کے ذریعے سے گرفتار کئے جانے کی خبریں جس طرح سے الیکٹرانک اور سوشیل میڈیا پر گردش کرنے لگیں اُس سے ہمیں ایسا محسوس ہونے لگا کہ واقعی میں ڈاکٹر ذاکر نائک گرفتا رہوچکے ہیں اور وہ بھی اب دوسرے حق پرستوںکی طرح زندان میںقید ہوجائینگے او ران کی رہائی کتنے سال بعد ہوگی۔ الیکٹرانک میڈیا میںیہ خبریں جس پیمانے پرنشر کی گئیں اُس کے فوری بعد یہ خبر بھی آگئی کہ ذاکٹر ذاکر نائک کو نہ انٹرپول نے گرفتارکیا ہے اور نہ ہی ملک کی سب سے طاقتور جانچ ایجنسی سی بی آئی اور این آئی اے نے انہیں اپنی تحویل میں لیا ہے۔ جو کچھ دن بھر میڈیا چینل پر گھوم رہا تھا وہ صرف اور صرف قیاس آرائی اور ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف محاذ آرائی تھی۔

میڈیا جسے جمہوری کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے وہ آج تعصب کی لہروں سے اتنا کھوکھلا ہوچکا ہے کہ اس کی مرمت کیلئے متبادل میڈیا ہی ایک ذریعہ ہے۔ جب تک ملک کے سیکولر اور جمہوری افکار پر یقین رکھنے والے لوگ ان سنگھی میڈیا چینلوں کے جواب میں اپنے میڈیاہاﺅز یا کمپنیوں کا قیام نہیں کرتے اُس وقت تک ہر ایک دانشور، داعی اور مذہب تعصب کی بھینٹ چڑتا رہے گا۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا قلیتی طبقہ جو مسلمان ہیں اُن کی جانب سے آج تک اس سمت میں پہل نہیں کی گئی ہے اور جن لوگوںنے پہل کرنے کی کوشش کی ہے اُن کی ہمت افزائی اور تائید کرنے کے بجائے خود مسلمانوںنے ہی ان کی راہوں کا کانٹا بن کر انہیں راہوںسے ہٹانے کی کوششیں کی ہیں۔

 ملک میں آج تقریباً400 کے قریب الیکٹرانک ٹی وی چینل موجود ہیںاور ان میں90 فیصد چینل کسی خاص پارٹی یا کسی خاص ادارے کی ملکیت میں شمار ہوئے ہیںاور ان پر غلبہ سنگھ فسطائی سوچ رکھنے والے صحافیوں اور مدیران کا ہے، ایسے میں اگر ان چینلوں کومات دینی ہوتو ایک ایسے میڈیا ہاﺅز کا قیام کرنے کی ضرورت ہے جو نہ تو مسلم میڈیا چینل ہو نہ ہی ہندو میڈیا چینل۔ یہ چینل یا میڈیا ہاﺅز خالص صحافتی اصولوں پر بنایا گیا ہو۔ جب کوئی چینل غلط رپورٹ پیش کرتا ہو تو اس غلط خبر کی تردید کرنے کیلئے کسی کا ساتھ دینے کے بجائے حقیقی خبر کو سامنے رکھا جائے۔ حالانکہ ماضی میں پرنٹ میڈیا کے میدان میں مسلمانوںنے اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی لیکن یہ ادارے زیادہ دن تک چل نہیں سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوںنے اپنے اخبار یا ادارے کوخالص کسی مذہب یا ذات سے جوڑدیا۔ ہمیں صحافت کی بنیادوں پر قائم ہوتے ہوئے صرف حقیقتوں کو سامنے رکھنے کیلئے میڈیا ہاﺅز بنانے کی ضرورت ہے۔

 مسلمانوں میں ہر شعبہ میں اپنی نمائندگی کرنے کا جذبہ ہے لیکن وقت کی ضرورت جسے ہم آج تک نہیں سمجھ سکے وہ میڈیا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہورہی ہیں ان تمام جنگوںمیں سب سے اہم کردار میڈیا ہی اپناتا ہی رہا ہے۔ یہ وقت کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے، اس کے سامنے تمام طرح کے توپ و بندوقیں ناکام ہوتی جارہی ہیں۔ غور کیجئے کہ ہمارے درمیان جو جنگیں ہورہی ہیں وہ ہتھیاروںاور میدانوںسے زیادہ ذہنی جنگیں ہورہی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں روڈلف ہٹلرنے کہا تھا کہ اگر ہمیں دنیا پر فتح ہونا ہے تو اس کیلئے ہر جھوٹ کو اتنی دفعہ کہنا چاہےے کہ لوگ سچ مان لیںاور اس کا فارمولہ کافی حد تک کامیاب بھی رہا۔

 آج ہمارے وطن عزیز کے وزیراعظم نریندرمودی بھی روڈلف ہٹلر کے اسی فارمولے کو اپنا رہے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ہٹلر نے اپنے جھوٹ کوسچ ثابت کرنے کیلئے پرنٹ میڈیا کا استعمال کیا تھا مگر ہمارے وزیر اعظم نریندرمودی نے باقاعدہ طور پر الیکٹرانک میڈیااور ویب میڈیا کا سہارا لیا ہے۔ جس کی وجہ سے آج وہ ہندوستانی مسائل کوحل کرنے میں ناکام ہوتے ہوئے بھی کامیاب کہلار ہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ملک میںآج کل موب لنچنگ ہورہی ہے اُس میں بھی ہندوستانی میڈیا منفی کردار ادا کررہا ہے۔ بیشتر ٹی وی چینل ان خبروں کو جگہ نہیں دے رہے اور جو ٹی وی چینل جگہ دے رہے ہیں وہ موب لنچنگ یا گروہی تصادم کی کافی حد تک پس پردہ تائید کررہے ہیں، جس کے منفی اثرات یہ ہے کہ لوگوںکی ذہن سازی ہورہی ہے اور وہ ان موب لنچنگ کو صحیح قرار دے رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان کے20کروڑ مسلمان70کروڑ سیکولرفکر رکھنے والی عوام کو ساتھ لیکر ہندوستان میں میڈیا کے محاذ پر کام کرے، یقینا بہت بڑے مثبت اثرات آسکتے ہیں۔

ویسے دیکھا جائے تو جب بھی مسلمانوں کے سامنے الیکٹرانک میڈیا بنانے کی بات کہی جاتی ہے تو وہ پیس ٹی وی، آئی پلس ٹی وی جیسے ٹی وی چینلوںکی مثالیں دیتے ہیں، یقینا یہ چینلس دین کی تبلیغ کیلئے اپنے طور پر کام کررہے ہیں، مسلمانوں اور غیر مسلموںمیں اسلام کی دعوت دینے کا کام اس چینلوںکے ذریعے سے ہورہا ہے، مگر ان چینلوںکے ذمہ دران اپنے مذہبی چینلوںکے علاوہ نیوز چینلوں کا قیام بھی کرلیتے تو شائد ڈاکٹر ذاکرنائک کے خلاف چھڑی ہوئی میڈیا جنگ کو کمزور کیا جاسکتا۔ جو لوگ اربوں کروڑوں کے سرمایہ سے دعوت دین کیلئے ٹی وی چینلوںکا قیام کرسکتے ہیں کیا وہ چند سو کروڑ روپیوں کے سرمایہ سے بڑے پیمانے پر سیکولر میڈیا کا قیام نہیںکرسکتے۔ آج مسلمانوں پر جا بجا تہمتیں لگائی جارہی ہیں انہیںشروع سے آخر تک منفی سوچ کے ذریعے سے موردِ الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔ اس الزام تراشی کیلئے دوسروںکے پاس وسائل ہیں، ہمارے پاس کیا ہے؟ہمارے پاس وہی ہے جو ہم ہوٹلوں اور کینٹینوں میں بیٹھ کر تبصرے کرتے ہیں۔

 ہمارے حالات پر رونے کیلئے چند ایک اردو اخبارات ہیں، مسلمانوںکی حقیقی حالت پر نظر ڈالنے والا کوئی نہیں ہے، ہم نے مذہبی بنیادوں پر ٹی وی چینلوں کاقیام کرتے ہوئے نہ صرف سچائی سے دور رہنے کی کوشش کی ہے بلکہ اپنے آپ کو مظلوم قوم بنالیا ہے۔ جو قوم اپنے ظلم کا جواب دینے کی سکت نہیں رکھتی وہ قوم صفحہ سہتی سے مٹ جاتی ہے۔ ظلم سہنا بھی ایک طرح کی بزدلی ہے اور ہم فسطائی نظریا ت کے ٹی وی چینلوں کاظلم سہہ رہے ہیں، بس چند لوگ اس سمت میں کام کرنے کیلئے آگے آتے ہیںتو اس سے نہ صرف مسلمانوں کا بھلا ہوگا بلکہ پورے جمہوری نظام پر اس کے مثبت اثرات پڑینگے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔