ہمالیہ کے دیس میں!

محمد عرفان ندیم

نیپال کو ہمالیہ کا دیس کہا جاتا ہے، اس کی وجہ شہرت دنیا کی سب سے بلند ترین پہاڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ ہے۔ یہ پاکستان، چین اور نیپال میں واقع پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ کا حصہ ہے، یہ نیپال اور چین کی سرحد پر ہے، اس کی بلندی 8848 میٹر اور 29028 فٹ ہے، اسے پہلی بار مئی 1953ء کو ایڈمنڈ ہلری اور ٹینزنگ نورگے نے سر کیاتھا۔ ماؤنٹ ایورسٹ کا نیپالی نام ساگرماتھا ہے۔ 1953 سے اب تک ماؤنٹ ایورسٹ کو 4000 سے زائد کوہ پیما سر کر چکے ہیں۔ پاکستانی مردوں میں نذیر صابر اور خواتین میں ثمینہ بیگ پہلے پاکستانی تھے جنہوں نے ماونٹ ایورسٹ کو سر کیا۔ اب تک ماؤنٹ ایورسٹ سرکرنے والے پاکستانیوں کی تعداد چار ہے۔ ہنزہ کے گاوَں شمشال کی رہائشی خاتون کوہ پیما ثمینہ بیگ نے اپنے بھائی کے ساتھ ماونٹ ایورسٹ کو سر کیا تھا۔ ثمینہ بیگ اس سے پہلے نانگا پربت بھی سر کر چکی تھیں، ثمینہ بیگ اور علی مرزا نے ماوَنٹ ایورسٹ پر سبز ہلالی پرچم لہرایا تھا۔ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی ٹیم میں ثمینہ بیگ کے ہمراہ سعودی عرب، قطر اور فلسطین سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی شامل تھیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ کے بعد دوسری بڑی چوٹی K2 ہے یہ پاکستان میں ہے، اسکے بعد اگلے دس نمبر تک بلند ترین پہاڑی چوٹیاں نیپال میں ہیں۔ چین اور بھارت کی سرحدوں پر واقع یہ ملک 1768 تا 2008 تک بادشاہت کے زیر اثر رہا۔ 2008 میں آخری ہندو بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ بدھ مذہب کے بانی گوتم بدھ کی پیدائش بھی نیپال کے جنوب میں ہوئی، نیپال کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کبھی کسی ملک کی کالونی نہیں رہا بلکہ چین اور انڈیا کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ کے طور پر قائم رہا۔ یہاں تمام مذاہب کے عوام آپس میں پیار محبت کے ساتھ رہتے ہیں۔ نیپال بلند و بالا پہاڑوں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے جنت نظیر ہے۔

 نیپال کادستور ان طویل اصلاحات کی تکمیل ہے جس کا آغاز 1854میں جنگ بہادر رانا نے ملکی آئین جاری کرکے کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پدما شمشیر رانا نے 1945میں دستور سازی کی از سر نو ابتداء کی، 1948 میں جو دستور بنا اس میں بادشاہت تو موجود تھی لیکن وزیراعظم کے اختیارات پر زوردیا گیا تھا۔ بعد میں مختلف بادشاہ اپنے اقتدار کی خاطر دستور کو پامال کرتے رہے اور سیاسی جماعتیں دستور سازی کا مطالبہ کرتی رہیں۔ 1979 میں راجہ بریندر نے دستوری اصلاحات کیلئے 11رکنی کمیشن قائم کیا اور 1990میں حکومت احتجاج کی وجہ سے نیا دستور تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی۔ 1996 میں اشتراکی بغاوت نے زور پکڑا جس کے نتیجے میں 2006میں ایک امن معاہدہ طے پایا۔ 2008 میں 601ارکان پر مشتمل دستور ساز اسمبلی نے نیا دستو ر واضح اکثریت کے ساتھ منظور کرلیا۔ نئے آئین میں اقتصادی مساوات، سماجی انصاف اور مساوات پر مبنی معاشرہ بنانے کی ضمانت دی گئی۔ آئین کے دیباچے میں کثیر جماعتی جمہوری نظام، شہری آزادی، انسانی حقوق، حق رائے دہی، اظہار رائے کی آزادی، آزاد اور منصفانہ عدلیہ اور قانون کی بنیاد پر ایک خوش کن سماج کی تعمیر کی بات کی گئی۔ صدر مملکت اگرچہ سربراہ ریاست ہیں مگر منتخب کابینہ کو برتری حاصل ہے۔ نیپال نے 2015 میں اپنا  نیاآئین جاری کیا، اس آئین کے مطابق نیپال اسمبلی کی 275 نشستیں ہیں جن میں سے 165 براہِ راست انتخابات کے ذریعے منتخب ہوتی ہیں جبکہ 110 ممبران بذریعہ پارٹی نمائندگی آتے ہیں۔

نیپال کا اہم ترین ائیر پورٹ کھٹمنڈو ایئر پورٹ ہے، ساراشہر ایئر پورٹ سے گہرائی میں پیالے کی طرح دکھائی دیتا  ہے۔ اس ایئر پورٹ پر دوسرے ملکوں کی طرح غیر ضروری آرائش کی بجائے سادگی اور ضروریات کو مدنظر رکھ کرعمارت ترتیب دی گئی جس کی توسیع کا کام جاری ہے۔ یہاں اردو، انگریزی اور نیپالی تینوں زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ہمیں کم از کم زبان کے حوالے سے کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ کھٹمنڈو کوئی ترقی یافتہ شہر نہیں ہے بلکہ ہمارے گوجرانوالہ اور فیصل آباد کی طرح گنجان آباد اور غیر ترقی یافتہ شہر ہے، یہ ذیادہ تر پہاڑی دھلوانوں پرمشتمل ہے۔ لوگ ملنسار ہیں، تعلیم کا معیار کوئی ذیادہ بلند نہیں لیکن ایک نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیاہے جس میں عہد کیا گیا ہے کہ آئندہ سالوں میں ملک کو ترقی پذیر کی بجائے ترقی یافتہ ممالک میں شامل کرنے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں گے۔

 سیاسی طور پر نیپال کو ایک مضبوط اور مربوط نظام کی ضرورت ہے، 2008 تک یہاں بادشاہت رائج رہی ہے۔ گزشتہ ایک دھائی سے نیپال جمہوری نظام کی طرف گامزن ہوا ہے اور اوائل میں جو مشکلات اور قباحتیں ہو سکتی ہیں وہ سب یہاں موجود ہیں۔ کھٹمنڈو کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور تقریباً چالیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے، پراپرٹی مہنگی ہوتی جارہی ہے، اس چھوٹے سے ملک میں 54 سیاسی پارٹیاں بن چکی ہیں، جو پارٹی سے ناراض ہوتا ہے وہ اپنی الگ پارٹی بنا لیتا ہے۔ 2008 سے پہلے ایک بادشاہ تھا، اب بادشاہوں کی فوج ہے۔ جو نئی حکومت بنی ہے عوام کو اس سے بہت ذیادہ توقعات ہیں۔

نیپال اگرچہ پاکستان سے بہت چھوٹا ملک ہے لیکن پھر بھی اس کی کرنسی ہماری کرنسی سے زیادہ مستحکم ہے۔ ہمارے 125 روپے ایک ڈالر کے برابر ہیں جبکہ نیپالی 107 روپے ایک ڈالر کے برابر ہیں۔ نیپالی کرنسی بھی روپے ہی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ 2015ء میں ہندوستان نے نیپال کو پیٹرول کی سپلائی بند کردی تھی جس کی وجہ سے یہاں پیٹرول کا شدید بحران پیدا ہوگیا تھا، بندش کی وجہ یہ تھی کہ مودی سرکار کے نزدیک بہار میں ان کی شکست کی وجہ نیپال اور اس کے حکمران تھے۔

ایک مہینے پیٹرول کی بندش کے بعد چین نے تیل فراہم کرنا شروع کردیا تھا۔ نیپالیوں پر اس واقعے کا بہت اثر ہوا اور پہلی بار ہندوستانی تسلط کے حوالے سے نیپالی عوام سنجیدگی سے سوچنے لگے تھے۔ کھٹمنڈو شہر پہاڑوں میں گھری ایک پیالہ نما وادی ہے۔ دیگر ایشیائی شہروں کی طرح یہاں کی فضا بھی خاصی آلودہ ہے۔ پہاڑوں میں گھرے ہونے کے باعث اس شہرسے دھواں اوردھول اتنی آسانی سے نہیں نکلتی یہی وجہ ہے کہ لوگ آلودگی سے بچنے کے لیے ماسک لگائے پھرتے ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے مندر نظر آتے ہیں جن میں مختلف ہندو دیوتاؤں کے مجسموں کو رکھا گیا ہے۔ یہاں ہندوستان کے اکثر بڑے مندروں کی نقول تعمیر کی گئیں ہیں، ان میں درگا ماتا، کالی ماتا، ، پشوپتی ناتھ، سوامبھو ناتھ مندر قابل ذکر ہیں، اس کے علاوہ بدھ ناتھ ٹیمپل بھی مشہور ہے۔ نیپال کی خاص سوغات یہاں کی شالیں ہیں لہٰذا کوئی یہاں آئے اور شال نہ خریدے ایسا نہیں ہوسکتا۔

 نیپال کی معیشت کا انحصار زیادہ تر سیاحت پر ہے۔ نیپال میں ایک پرواز کا اہتمام کیا جاتا ہے جسے ایورسٹ فلائٹ کہتے ہیں، پائلٹ جہاز کو ماؤنٹ ایورسٹ چوٹی کے قریب لے جاتا ہے تاکہ مسافر دنیا کی اس بلند ترین چوٹی کا نظارہ کرسکیں۔ اس فلائٹ کا ٹکٹ 2013ء میں 100 ڈالر کا تھا۔ اب اس کے کیا ریٹ ہیں مجھے اس کا آئیڈیا نہیں۔ نیپال کی سیاحتی صنعت کا حجم ایک ارب ڈالر بنتا ہے، ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ سیاح نیپال آتے ہیں۔ نیپال کی ایک خاص بات یہاں کے فن تعمیرات کے شاہکار مندر ہیں۔ یہ مندر ہندوستان کے مشہور مندروں کی نقالی ہیں اور سیاحوں کے لیے کشش کا باعث بھی۔

تبصرے بند ہیں۔