ہمہ جہت ترقی کا اسلامی تصور

ڈاکٹر سلیم خان

ترقی عصر حاضر کا نہایت پرکشش نعرہ ہے۔’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘گجرات کے ایک چائے والے کو دہلی کےتخت و تاج  پر فائز کردیتا ہے مگر جب یہی وکاس پاگل ہوتا ہے تو خود گجرات میں شاہ وگدا ایک سے نظر آتے  ہیں۔ عصر حاضرمیں  ترقی کو دنیوی خوشحالی کے ہم معنیٰ قرار دےدیا  گیا ہے جبکہ اسلام دنیا کے ساتھ آخرت کے حسنات کی دعا سکھاتا ہے۔ انسانی ترقی کے معاشی، سیاسی اور روحانی پہلو بھی ہیں۔ ان تینوں کے درمیان توازن ہمہ جہت ترقی کو جنم دیتا ہے اور جب یہ بگڑ جاتا ہے تو  ترقی کے سارے دعویٰ  بے معنیٰ ہو جاتے ہیں۔

 ارشاد ربانی ہے ’’ پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ "ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن آتے ہی رہے ہیں۔  آخر کار ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی‘‘۔ خوشحالی کے بعد ہاتھ آنے والی اس بدحالی  کی مکمل ذمہ داری خود حضرت انسان پر ہےاس لیے کہ آگے فرمایا ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے،‘‘  مگر جو لوگ ایمان اور تقویٰ کے بجائے کفر و من مانی کرنے لگتے ہیں ان کے متعلق فرمایا گیا ’’ تو  اُنہوں نے جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اُس بری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے‘‘۔  یہ انجام بد دنیا کے ساتھ عقبیٰ کی ناکامی کا احاطہ کرتا ہے۔

معاشی ترقی کے لیے امن وامان شرطِ  لازم ہے۔ رب کائنات اس کو نعمتِ عظمیٰ قرار دیتے ہوےفرماتاہے ’’ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم (مکہ)کو پرامن بنا دیا ہے۔جبکہ ان کے ارد گرد کے لوگ اچک لئے جاتے ہیں۔ کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ‘‘۔قریش کے تجارتی فروغ کے خاطر نہ صرف حرم کو محفوظ و مامون بنایا گیا بلکہ  انہیں داخلی صفات سے نوازہ گیا ا ور ان کے لیے خارجی ماحول بھی استوار کیا گیا۔ ارشادِ حق ہے   ’’قریش کو رغبت دلانے کے سبب سے انہیں سردیوں اور گرمیوں کے (تجارتی) سفر سے مانوس کر دیا، پس انہیں چاہئے کہ اس گھر (خانہ کعبہ) کے رب کی عبادت کریں  جس نے انہیں بھوک (یعنی فقر و فاقہ) میں کھانا دیا (یعنی رِزق فراہم کیا) اور خوف سے امن بخشا (یعنی محفوظ و مامون زندگی سے نوازا)۔ ان احسانات کی قدردانی یہ ہے کہ انسان عبادت گذار بنے جس کی یہاں  تلقین  کی گئی ہے۔

 اہل مکہ نے اس  نعمتِ خداوندی کی ناشکری  اس طرح کی کہ   اپنے آپ کو امانتدار سمجھنے کے بجائے مالک سمجھ لیا اوران پر من مانا تصرف کرنے لگے  تو فرمایا  ’’مگرانسان کا حال یہ کہ اس کا رب جب اسے آزمائش میں ڈال کر عزت و نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنادیا اور جب مشکل میں ڈال کر اس پر رزق تنگ کردیتا ہے توکہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا۔ہرگز نہیں مگر تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں ابھارتےاور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھاجاتے ہو اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو‘‘۔ یہی اخلاقی خرابیاں اور  حب مال و جاہ انسان کو نہ صرف معاشی تنزل بلکہ امن و امان سے محرومی اوراخروی ناکامی یعنی روحانی انحطاط کا سبب بنتا ہے۔

اس  دورپر فتن میں یہ ارشادِ قرآنی ہمارے لیے امید کی کرن ہے کہ ’’تم میں سے جو مومن ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انہیں زمین میں ایسے ہی خلافت عطا کرے گا۔ جیسے تم سے پہلے کے لوگوں کو عطا کی تھی اوران کے اس دین کو مضبوط کرے گا جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اوران کی حالت خوف کو امن میں تبدیل کردے گا۔ پس وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے‘‘۔ معاشی اور روحانی پہلو کے علاوہ سیاسی ترقی یہ ہے کہ  حکمراں اپنے آپ کو اللہ کا  خلیفہ سمجھے  اور رضائے الٰہی کی خاطر عدل و قسط کا نظام  قائم کرے۔ امن وامان کی  یہی ضمانت حالتِ خوف کا خاتمہ کرکےدنیا و آخرت کی فلاح کا راستہ ہموار کردیتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔