ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

عبدالعزیز
ہندستان آزادی سے پہلے ہی مختلف قسم کی مشکلات اور دشواریوں میں مبتلا تھا ،غربت ، افلاس اور غلامی کی شدت اور بربریت کا سامنا تھا، جس کی وجہ سے اچھے لوگ خاص طور سے کمزور اور مظلوم انسانوں کے ہمدرد بیحد مضطرب تھے۔ ایسے وقت میں آزادی اور حریت کیلئے کوششیں شروع ہوئیں۔ 1857ء کے غدر کے بعد ہندو اور مسلمان راجاؤں اور نوابوں میں آزادی کی جدوجہد کا آغاز ہوا جس میں فرقہ پرستی اور نفرت کی کوئی جگہ نہ تھی اگر چہ ان کی کوششوں سے آزادی کی چنگاری ملک بھر میں پھیل گئی مگر انگریزوں کی طاقت اور قوت میں کمی نہیں آئی اور نہ ہی ان کا پایۂ تخت ہلا لیکن 1885ء میں جو ہیوم نامی شخص نے حکومت برطانیہ کو مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے اپوزیشن پارٹی کی حیثیت سے کانگریس کی تشکیل کی لیکن جب اس سے تعلیم یافتہ افراد اور ملک سے باہر پڑھ کر آنے والے وکلاء اور اسکالر جڑنے لگے توآزادی کی تحریک میں جان آگئی۔ گاندھی جی کی قیادت آزادی کی جدوجہد کیلئے ہراول دستہ ثابت ہوئی۔ بالآخر 1947ء میں ملک کے باشندوں کو غلامی کی بیڑیوں سے آزادی نصیب ہوئی اور ہندستان کے تمام شہریوں کیلئے 26جنوری 1950ء میں دستور ہند نافذ ہوا۔ جس سے ہندستان کی قانونی اور سیاسی آزادی بظاہر مکمل ہوئی۔ کانگریس کی قیادت میں آزادی کی جدوجہد کے دوران ہی فرقہ پرستوں کی برطانوی حکومت سے وفاداری کی جدوجہد کا بھی آغاز ہوا۔
پہلے ہندو سبھا اور پھر آر ایس ایس جیسی تنظیموں نے برطانوی حکومت کے علاوہ امیروں اور دولت مندوں کے مفاد میں کام کرنا شروع کیا۔ بعد میں فرقہ پرستوں نے جَن سنگھ کے نام سے اپنی سیاسی تنظیم بھی قائم کی بعد میں یہی بھارتیہ جنتا پارٹی بن گئیْ جن سنگھ کے جنتا پارٹی میں شامل ہونے کی وجہ سے جن سنگھ کو پہلے سے کہیں زیادہ طاقت اور قوت مل گئی۔ مسٹر اٹل بہاری واجپئی اور مسٹر ایل کے ایڈوانی کی قیادت والی جن سنگھ پھر بھاجپا کو پارلیمنٹ میں دو سیٹوں سے 80 سیٹیں، بعد میں سو سے زیادہ سیٹیں ملنے لگیں۔ پہلے ان کی 13 دنوں کی حکومت ہوئی پھر 5 سال کیلئے مسٹر واجپئی کی قیادت میں NDA کے نام سے ملی جلی سرکار چلی مگر 2014ء میں اس کی قیادت مسٹر نریندر مودی نے کی جو گجرات ماڈل کے نام سے فرقہ پرستی کا سب سے نمایاں چہرہ بن کر ابھرے تھے۔
جب نریندر مودی کا نام آر ایس ایس نے بی جے پی کی جانب سے وزیر اعظم کے امیدوار کی حیثیت سے پیش کیا تو مودی کے مشیر کاروں نے فرقہ پرستی کو مدعا بنانے کے بجائے اچھی حکمرانی (Good governance) اور ترقی (Development) کو مدعا بنایا۔ ملک کے شہریوں میں سے بہت سے لوگ متاثر ہوئے اس میں ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ کانگریس کی دس سالہ حکومت خاص طور سے یوپی اے 2 کی بدعنوانیوں اور مہنگائی سے لوگ پریشان ہوگئے تھے۔ دوسری وجہ ووٹروں میں تبدیلی (Change) کی زبردست خواہش پیدا ہوگئی تھی۔ تیسری وجہ تھی مودی جی کے پُر فریب وعدہ کہ ہر شہری کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے حکومت اپنی طرف سے جمع کر دے گی اور بلیک منی (کالا دھن) ملک سے جو باہر ہے اسے لایا جائے گا اس سے ملک کی غریبی اور افلاس کا خاتمہ ہوجائے گا، اچھے دن آجائیں گے۔ جو لوگ سمجھتے تھے کہ بری سرکار اچھے دن نہیں لگا سکتی۔ برا انسان اچھی حکومت لانے کا وعدہ تو کرسکتا ہے مگر اچھی حکومت اس کیلئے لانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے ان کی ایک نہ چلی اور 31فیصد ووٹروں نے بری سرکار لانے کیلئے برے آدمی کا انتخاب کرلیا۔ اس کا نتیجہ آج سب ہندستانیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سنگھ پریوار میں ایسے بھی احمق اور بیوقوف تھے جنھوں نے الیکشن کے موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ جو لوگ مودی کی حمایت نہیں کرتے انھیں پاکستان چلے جانا چاہئے۔ نریندر مودی کی 69 فیصد ووٹروں نے حمایت نہیں کی۔ ایسے احمقوں کو بتانا چاہئے کہ اگر 69 فیصد ہندستانی پاکستان چلے جائیں تو وہ کہاں سمائیں گے اور پاکستانی حکومت کیسے قبول کرے گی؟
مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے لسانی تعصب کی بنیاد پر اپنے ملک کو دو ٹکڑے کرنے کی جدوجہد کے نتیجہ میں ڈیڑھ دو لاکھ افراد ہندستان چلے آئے تھے تو ہندستانی معیشت پر برا اثر پڑ رہا تھا جس کی وجہ سے ہندستان کو بنگلہ دیش بنانے کیلئے جنگ کرنی پڑی۔ آج تک بنگلہ دیش اور بنگلہ دیشیوں کو قرار حاصل نہیں ہوا اور ہندستان کو آج تک ا س کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
ان سب حماقتوں کے باوجود مودی سرکار عالم وجود میں آئی۔ ڈھائی سال ہوگئے اس مدت میں ملک کی حالت ہر لحاظ سے خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ ہندو راشٹر (ہندوؤں کی سرکار) بنانے کی کوشش نے ہندو مسلمان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ امیر اور غریب پہلے ہی سے دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اب جب سے نوٹ بندی کا سلسلہ شروع ہوا۔ امیروں کے سوا سارے لوگ بینکوں کے قریب کھڑے نظر آرہے ہیں۔ سیکڑوں کی قطار ہی میں موت واقع ہوگئی اور بہت سے لوگ بیمار ہوگئے۔ بعض حاملہ عورتوں کے لائن میں کھڑے کھڑے دردزہ جیسی مشکلات سے گزرنا پڑا۔ بہت سے چھوٹے کاروباری اپنے کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھے، لاکھوں لوگوں کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔
ملک کی معاشی ابتری کا حال جب چدمبرم یا منموہن سنگھ جیسے ماہر معاشیات بیان کرتے تھے تو بہتوں کو ایسا احساس ہوتا تھا کہ یہ لوگ اپوزیشن میں ہیں ان کو تو مخالفت کرنی ہے مگر اب سنگھ پریوار کے کچھ لوگوں کو احساس ہوگیا ہے کہ انھیں حقیقت کا اعتراف کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ آر ایس ایس کے بھارتیہ مزدور سنگھ کے سربراہ بیج ناتھ رائے نے مودی حکومت پر ہتھوڑا چلاتے ہوئے کہاہے کہ مودی سرکار کی مدد سے ایک لاکھ 35 ہزار لوگوں کو ملازمتیں ملی ہیں مگر 20 لاکھ افراد بے روزگار ہوگئے۔اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ سابقہ حکومت اور موجودہ حکومت میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے مگر جب سے نوٹ بندی کا معاملہ سامنے آیا ہے ملک کی معاشی صورت حال بد سے بدتر ہوگئی۔ GDP کی حالت بھی دگرگوں ہے۔ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ ہندستان بے روزگاری سے جھوجھنے لگا ہے۔
مسٹر رائے نے کہا کہ موجودہ حکومت ترقی پر کافی زور دے رہی ہے مگر حالات میں سدھار نہیں آرہا ہے۔ امید ہے حکومت سدھار لانے کی کوشش کرے گی۔ مسٹر رائے نے یہ بھی کہاکہ نوٹ بندی سے معیشت بہتر ہوسکتی تھی مگر حکومت نے نوٹ بندی کے اعلان سے پہلے ہوم ورک ٹھیک سے نہیں کیا جس کی وجہ سے ملک کی دشا خراب ہوگئی۔ لوگ نفسی نفسی کے عالم میں ہیں۔ اس طرح کی بہت سی باتیں مودی خاندان کے رائے نے بیان کی جس کا لب لباب یہ ہے کہ سرکار بد سے بدتر حالات میں ملک کو مبتلا کرچکی ہے۔
مسٹر نریندر مودی اتر پردیش، پنجاب، گوا اور دیگر ریاستوں کے الیکشن جو 2017ء میں ہو نے والے ہیں اور 2019ء میں لوک سبھا کا الیکشن ہونے والا ہے ان سب کے پیش نظر لمبی چھلانگ مارنے کی کوشش کی تھی مگر وہ خودگڑھے میں گرے اور ملک کو بھی مصیبتوں، تکلیفوں اور دشواریوں کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد ہی لوگوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ تو ڈوبیں گے ہی ملک کو بھی لے ڈوبیں گے۔ آج نریندر مودی زبان حال سے اردو غزل کا یہ مصرعہ گنگنا رہے ہوں گے ؂ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔