ہم حزب اختلاف میں بھی محترم ہوئے

ڈاکٹر شکیل احمد خان

۱۸۰۳۔ء کی ایک سرد اور تاریک رات فرانس کا طاقتور ترین سپہ سالار اور حاکم اپنی خواب گاہ میں داخل ہوتا ہے اور اپنی بیوی کو بڑے انہماک سے ایک خط پڑھتے ہوئے پاتا ہے۔ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی اور کشمکش کے تاثرات کو دور سے بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حکمران کے استفسار پر رانی وضاحت کرتی ہے کہ یہ خط برطانوی شہری ایڈورڈ جینر کاہے جس میں اُس نے اِس فرانسیسی حکمراں سے برطانوی جنگی قیدیوں کو رہاکرنے کی درخواست کی ہے۔درخواست گذار کا نام سن کر حکمران چند لمحوں کے لئے خاموش ہو جاتا ہے۔ پھر اس کی زبان سے ایک جملہ ادا ہوتا ہے: ـ’’ جینر!اوہ ،اِس شخص کی کوئی بات ٹالی نہیں جاسکتی۔ Jenner ! Ah, we can refuse nothing to this man‘‘۔ دوسرے ہی دن کئی اہم برطانوی جنگی قیدیوں کو،جن میں کچھ اہم جاسوس بھی تھے، رہا کر دیا جاتا ہے۔یہ فرانسیسی حکمراں تاریخ میں نپولین بونا پارٹ (۱۷۶۹۔ء۔۱۸۲۱۔ء)کے نام سے جانا جاتاہے جس نے ۱۹؍ویں صدی کے اوائل میں یورپ کے بڑے حصّہ پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا اورجو برطانیہ کا سب سے بڑا دشمن تھا۔

دشمن ملک کے شہری ایڈورڈ جینر میں آخر ایسی کیا بات تھی کہ نپولین نے بھی اس کی بات کو رد کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اس کی شخصیت میں اتنا تاثر ، اُس کی حیثیت میں اتنی رفعت اور اس کی زبان میں اتنا وزن کیوں پیدا ہوگیا تھا کہ دشمن بھی اس کا احترام کرتے تھے؟ اِس بات کو سمجھنے،اس واقعہ میں پوشیدہ ایک آفاقی حقیقت کا ادراک کرنے اور اُس کی عصری معنویت کو پہچاننے کے لئے ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ ایڈورڈ جینر آخر تھے کون! ڈاکٹر ایڈورڈ جینر (۱۷۴۹۔ء۔۱۸۲۳۔ءEdward Jenner ) وہ شخص تھے جن کا ملک کی پارلیمنٹ نے ۲۰ ہزار پاونڈدے کر اعزاز کیا، مشہو ریونیورسٹی نے اعزاز ی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز کیا، روس اور فرانس کے حکمرانوں نے تحائف بھجوائے۔ کیونکہ انھوں نے نے سخت محنت، مستقل مزاجی اور جذبہ خیر کے تحت برسوں کی ریسرچ کے بعد چیچک کا ٹیکہ ایجاد کیا تھا۔اِس ایجاد سے پہلے یورپ میں چھ کروڑ آدمی چیچک سے فوت ہوئے تھے۔اب یورپ میں ایک بھی آدمی چیچک سے نہیں مرتا تھا۔ بعد ازاں ذاتی مالی منفعت کو اہمیت نہ دیتے ہوے انھوں نے اپنے نسخہ کو اخبارات میں شائع کروادیا تاکہ ساری دنیا اُس سے مستفید ہو سکے۔

مجھے لگتا ہے آپ حقیقت تک پہنچ ہی گئے ہونگے۔کیا یہ واقعہ اِس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ دنیامیں اُسی شخص کی اہمیت اور قدر و منزلت ہوتی ہے جو فائدہ بخش ہو۔ دنیا اسی کا احترام کرتی ہے جس کی معاشرے، قوم و ملّت، ملک اور اقوامِ عالم کے لئے کچھ عطا (contribution) ہو۔ دنیا اُسے ہی اپنے سر پر بٹھاتی ہے جس نے اپنی محنت اور قابلیت سے دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کی ہوں اور راحت کا سامان کیا ہواور جوانسانیت کے لیے بے غرض درد مندی کا ایک ساگر اپنے سینے میں موجزن رکھتا ہو۔ایسا ہی شخص دنیا کا بھی محبوب ہوتا ہے اور خالقِ کائنات کا بھی۔شاید اِسی پس منظر میں علامہ اقبال کے اِس شعر کو بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ :

خودی کو  کر بلند اتنا  کہ ہر تقدیر سے پہلے !

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

پس اِس بات کو ذہن نشین کر لیجئے کہ آپ کی قابلیت، آپ کی لیاقت، آپ کی محنت و مشقت، آپ کا جذبہِ خیراور آپ کی عطا (contribution) وہ گوہرِ نایاب ہیں جو سخت نا مساعدحالات میں بھی آپ کے لیے گنجائش پیداکر سکتے ہیں۔ محنت اور قابلیت کسی شخص کو ’’مفیدــ‘‘ بنا سکتی ہیں اور مفید شخص کواخلاقی، سماجی اور یہاں تک کے سیاسی طاقت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔یہ باتیں کسی گروہ یا قوم پر بھی اُتنی ہی لاگو ہوتی ہیں جتنی کسی فردِ واحد پر۔ انحطاط پذیر امت ِ مسلمہ کو آج اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔جب آپ کی کسی بھی طرح سے کوئی افادیت ہی نہ ہو، کوئی عطا (contribution) ہی نہ ہوتو کوئی آپ کو پوچھے کیوں ؟آپ کی بات کو اہمیت دے ہی کیوں ؟ عالمی سطح پر ملت بار بارصہیونیوں کی زیادتیوں کا معاملہ بین الاقوامی فورمس میں اُٹھاتی رہتی ہیں مگر اقوام ِعالم کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ملک عزیز میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملّت کہیں نا کہیں کسی نا کسی معاملہ پر میمورنڈمس دیتی نظر نہیں آتی۔ لیکن اِن میمورنڈمس کا کیا حشر ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ہماری شکایتوں ، ہماری درخواستوں میں اُس تاثیر کا عشرِ عشیربھی نہیں ہوتاجو ایڈورڈ جینر کی درخواست میں تھا۔کیونکہ فی زمانہ ہمارے پاس وہ عصری قابلیت، کوالیٹی اور کونٹری بیوشن باقی نہیں رہا ہے جو ایڈورڈ جینر کے پاس تھا۔ہم پھل دار شجر نہیں رہے۔اور بقول شخصے ’’جو درخت پھل پھول لاتا ہے اس کی رکھوالی کی جاتی ہے۔ اور جو بیکار ہو جاتا ہے اسے چھانٹ دیا جاتا ہے‘‘۔

اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم شکایت درج ہی نا کرائیں ، میمورنڈمس دئیے ہی نہ جائیں۔ جہاں لازمی ہوں وہاں ضرور دیئے جانے چاہیے۔ یہ جمہوری حق بھی ہے اور ہمارے وجود کا احساس بھی کرواتا ہے۔ہمارا اصرار اِس بات پر ہے کہ یہیں پر مت رک جائیے، پوری طاقت اِسی میں صَرف مت کیجیے۔ بلکہ ساتھ ساتھ وہ افادیت، اہمیت، وقار اور مضبوطی حاصل کرنے کی کوشش بھی شروع کریں اور جاری رکھیں جو اِن شکایتوں اور میمورنڈمس کو احترام عطا کرے۔ورنہ بقول شاعرــ:

’’ کون سُنتا ہے فغانِ درویش‘‘۔

لہٰذا خود کو ’خیر امّت ،خیر امّت ‘ کہتے نہ تھکنے والی قوم کو اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ گزشتہ سات آٹھ صدیوں سے عالمی سطح پر انسانیت کی خیر و بھلائی و بہتری کے لئے دیگر اقوام کا  contribution کتنا ہے اورخود اُس کا کتنا؟ کونسی قومیں اور کونسے افراد دنیا کے لیے حقیقی معنی میں ’خیر‘ ثابت ہو رہے ہیں اورانسانوں کی زندگی کو سہولت بخش، صحت بخش اور آرام دہ بنانے میں مصروف ہیں اور کون صرف خریدار consumersبنے ہوئے ہیں۔ ہوائی جہاز کس نے ایجاد کیا ہے؟ ریلوے انجن کس نے ایجاد کیا ہے؟دیا سلائی کس نے ایجاد کی؟ کمپیوٹر کس نے ایجاد کیاہے؟ کیلکولیٹر کس نے ایجاد کیا؟ موبائل فون کس نے ایجاد کیا ہے؟فریج کس نے ایجاد کیا ہے؟ٹائپ رائٹر کس نے ایجاد کیا؟سلائی مشین کس نے ایجاد کی؟ فاونٹین پین کس نے ایجاد کیا؟ بال پین کس نے ایجاد کیا؟ایئر کنڈیشن کس نے ایجاد کیا؟ٹیلی وژن کس نے ایجاد کیا؟برقی استری کس نے ایجاد کی؟ کچن مکسرگرائنڈرکس نے ایجاد کیا؟ ایکسرے کس نے ایجاد کیا؟ ا یم آر آئی مشین کس نے ایجاد کی؟ دل اور گردوں کو ٹرانسپلانٹ کرنے کی تکنالوجی کس نے ایجاد کی؟پولیو کا ٹیکہ کس نے دریافت کیا؟ ریبیز کا ٹیکہ کس نے دریافت کیا؟ہیضے کا ٹیکہ کس نے دریافت کیا؟ خیر امت تو کئی صدیوں میں پتلون میں لگائی جانے والی زپ بھی ایجاد نہیں کر پائی۔اسے۱۸۹۱۔ء میں امریکہ میں W L Judsonنے ایجاد کیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ایجادات کے ابتدائی نمونے اور بنیادی تصورات مسلمانوں کے عہد زریں (۸ سے ۱۲؍ وی صدی) کے سائنسدانوں اور دانشوروں کے یہاں ملتے ہیں۔ محمد ابن موسی الخوارز می کو آج بھی بابائے الجبرا مانا جاتا ہے۔جابر بن حیان، ابن الہیثم، عباس ابن فرانز، الزھراوی وغیرہ کی تحقیقات اور ایجادات اُس وقت کی ہیں جب یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ بعد میں کیا ہوا اور کیوں ہوا، یہ ایک الگ داستان ہے۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ لمبے عرصے سے من حیث القوم ہماری عطا contribution نہ ہونے کے برابر ہے۔ بات بہت کڑوی ہے لیکن حقیقت اور مرض کا اعتراف اصلاح اور علاج کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ بقول علامہ اقبال

’’ وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

  اور ہم خوارہوئے تارکِ قرآں ہو کر‘‘

تارکِ علم و تحقیق ہونا بھی ایک طرح سے تارکِ قرآن ہوناہی ہے کیونکہ قرآن بار بارعلم حاصل کرنے اور غور و فکر کرنے تاکید کرتا ہے۔جیسے سورۃ الرعد کی آیت نمبر ۱۷ میں فرمایا گیا ہے کہ:ـ’’۔۔۔سوجھاگ تو رائگاں جاتا ہے اور جو چیز لوگوں کو نفع پہنچانے والی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے‘‘۔ ایسا بھی نہیں کہ عالمی اور ملکی سطح پر ہمارے پاس ذہانت اور جذبے کی کمی ہے۔ہمارے کئی نوجوان سخت نا مساعد حالات میں بھی بڑی جانفشانی سے ترقی و وقار کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ کئی تنظیمیں اورافراد ان کا تعاون بھی کر رہے ہیں۔ ضرورت اس جذبہ کو بڑھاوادینے اوراس حقیقت کوعام کرنے کی ہے۔مفید بن کر مضبوطی حاصل کرنے کا راستہ یقینا نہایت دشوار ہے، پر کیا کریں ، یہی ایک راستہ ہے جس  پر چل کر ہم یہ شعر کہہ سکتے ہیں کہ

ہم حزبِ اختلاف میں بھی محترم ہوئے

وہ اقتدار میں ہیں مگر بے وقار ہیں !

تبصرے بند ہیں۔