ہم نہ سمجھیں تو یہ ہمارا قصور ہے!

حفیظ نعمانی

صرف ایک مہینہ پہلے یہی حکومت تھی اور یہی ہندو تھے اور مسلمان، عیدالاضحی کے تین دن قربانی ہوتی رہی اور اکثر مقامات سے یہ اطلاع آئی کہ اتنے جانوروں کی قربانی تو برسوں سے نہیں ہوئی تھی لیکن کہیں سے ایک خبر بھی ایسی نہیں آئی کہ کہیں کچھ ہوگیا ہو۔ ایسا ایک مہینہ میں کیا ہوگیا کہ ٹی وی کے ہر اسٹیشن سے کان پور اور اس بلیا سے جہاں صرف 15  فیصدی مسلمان ہیں دو فرقوں میں فساد کی خبریں نشر ہوتی رہیں اور جگہ جگہ شعلے اٹھتے ہوئے اور پتھرائو کے ساتھ بھگدڑ ہوتی رہی؟

تعزیہ اور علم کے جلوس پر ہندو مسلمان یا سنی شیعہ جب بھی کہیں تنازعہ ہوا ہے تو اس کا سبب زیادہ تر راستے یا راستوں میں رکاوٹ ہوتا ہے۔ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو اس نے ابھی تک کھل کر یہ نہیں کہا ہے کہ یہ ملک ہندوئوں کا ہے اور مسلمان ہر معاملہ میں ہندوئوں کی برابری نہ کریں لیکن دل میں ہر ہندو کے یہی ہے اور اس کا مظاہرہ آزادی کے فوراً بعد ہی ہونے لگا تھا۔

قاضی عدیل عباسی 1937 ء سے 1957 ء تک ایم ایل اے ہوتے رہے ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ تمام ممبران اسمبلی یا انگریزی میں بات کرتے تھے یا اردو میں، اتفاق سے کسی کے منھ سے ہندی کا کوئی لفظ نکل جاتا تھا تو گردن موڑکر سب دیکھنے لگتے تھے کہ کون بولا؟ اور آزادی کے بعد سب سے پہلے اُترپردیش کی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ سرکاری اسکولوں میں اردو نہیں پڑھائی جائے گی اور وزیرتعلیم سمپورنانند نے صاف صاف کہا کہ اردو کوئی زبان ہی نہیں ہے وہ تو ہندی کی شیلی ہے۔ اور فیصلہ کیا کہ تمام سرکاری کام ہندی میں ہوں گے۔ اردو جیسی خوبصورت اور شیریں زبان کے عاشق صرف مسلمان ہی نہیں تھے ہندو بھی تھے سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم سے فریاد کی جائے۔

اُن حضرات سے ملنے جو وفد گیا اس کی قیادت ڈاکٹر ذاکر حسین خاں اور پنڈت سندر لال کررہے تھے۔ صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد اور پنڈت نہرو نے بھی اپنے قول اور فعل سے ظاہر کردیا کہ اب جو ہندوستان بچا ہے وہ ہندوئوں کا ہے اور آج تک اردو کو اس کا حق نہیں ملا۔

ہندوستان میں ابھی لاکھوں ہندو وہ ہوں گے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ 1947 ء سے پہلے انگریزوں کے زمانہ میں عیدالاضحی میں ہر شہر، تحصیل اور گائوں میں صرف گائے کی قربانی ہوتی تھی۔ اگر بکرے کی کوئی قربانی کرتا تھا تو صرف وہ جس کے گھر بکرے پلے ہوئے تھے۔ اور ہندو ہی گائیں لئے ہوئے مسلم محلوں میں آتے تھے اور پولیس کی نگرانی میں قربانی ہوتی تھی۔ آزادی کے بعد مسائل قربانی میں یہ لکھنا اور چھاپنا بھی جرم ہوگیا کہ گائے میں سات حصے ہوتے ہیں۔ ایسے اشتہار بھی پولیس ضبط کرچکی ہے۔ اور تین سال سے تو مسلمان اگر دودھ کے لئے بھی گائے خریدتا ہے تو اسے یہ کہہ کر مار دیا جاتا ہے کہ وہ کاٹنے کے لئے لے جارہا تھا۔

24 سال سے ہندوستان کے مسلمان اس امتیاز کو دیکھ رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں کہ بم دھماکوں میں 257  ہندو مرگئے۔ بم دھماکے کرنے کے نہ جانے کتنے ماسٹر مائنڈ پکڑے جاچکے ہیں جن میں کسی کو پھانسی دے دی گئی اور نہ جانے کتنے عمرقید کاٹ رہے ہیں، نہ جانے اور کتنے مطلوب ہیں اور دائود ابراہیم کے کتوں اس کی بلیوں کو، بھائی بہنوں کو پکڑنے کے باوجود ہر دن ہر ٹی وی پر یہ بتانا ضروری ہے کہ مافیا ڈان اور ماسٹر مائنڈ دائود ابراہیم ہے اور وہ پاکستان میں ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس شاہ نے ان ہی تاریخوں میں بتایا ہے کہ 900  سے زیادہ مسلمان قتل کردیئے گئے جنہیں بی جے پی، شیوسینا، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور مسلح پولیس نے قتل کیا ہے۔ ان میں سے کسی کو ایک دن کی سزا بھی نہیں ہوئی۔

بابری مسجد کے بارے میں آزادی سے پہلے بھی ہندوئوں نے انگریزوں سے کہا تھا اور اس کے علاوہ ملک کی درجنوں مسجدوں کے بارے میں بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہاں مندر تھے ان کو توڑکر مسجد بنائی گئی ہے۔ ان مسجدوں کے بارے میں مقدمے چلے اور ہائی کورٹ تک گئے جن کے فیصلے مسجدوں کے پھاٹکوں پر لگے ہوئے ہیں۔ اور یہ تو ہم نے اپنے بزرگوں سے خود سنا ہے کہ انگریز کمشنر یا جج یہ کہتے تھے کہ ہم جب آئے تو یہاں مسجد تھی۔ ہم جب تک ہیں یہاں مسجد ہی رہے گی، ہم جب چلے جائیں تو آپ اسے جو چاہیں بنادیں۔ اور یہی ہوا کہ ہندوئوں نے صرف یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ ملک ہندوئوں کا ہے بابری مسجد کو شہید کردیا اور 25  سال ہوگئے پانچ لاکھ میں سے ایک آدمی کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ اور یہی نہیں ہندوستان میں ہزاروں بار مسلمانوں پر حملے ہوئے جن میں لاکھوں مسلمانوں کی جان گئی گائوں کے گائوں صاف ہوگئے۔ گجرات میں آج بھی سیکڑوں خاندان شہر سے باہر جیسے تیسے زندگی گذار رہے ہیں جن کے گھر ہندوئوں کے محلوں میں ہیں انہیں اپنے گھر آنے کی اجازت نہیں ہے۔

آزادی کے فوراً بعد وزیر داخلہ سردار پٹیل نے صوبائی حکومتوں کو حکم دے دیا تھا کہ پولیس اور فوج میں مسلمانوں کی بھرتی نہ کی جائے اور جو مسلمان پولیس میں ہیں انہیں لکھنے پڑھنے کے کام دے دیئے جائیں اور صوبوں نے اس حکم کو پولیس تک ہی نہیں رکھا بلکہ ہر محکمہ میں ان کی بھرتی بند کردی۔ مسلمان اگر یہ چاہیں کہ کسی کالونی میں اپنے گھر کو مسجد بنادیں تو اس کی اجازت کسی قیمت پر نہیں ملے گی اور ہر کالونی میں جتنے پارک بنیں گے ان میں ایک مندر ضرور بنے گا اس کے علاوہ جس بابا کا جس فٹ پاتھ پر جی چاہے وہ ڈیرہ ڈال دیتا ہے اور جتنا بڑا جی چاہے مندر بنا لیتا ہے۔ ہر تھانہ میں افسر ہے یا نہیں ایک مندر ضرور ہے اور اس کا ایک پجاری بھی۔

اگر تفصیل لکھی جائے تو 10  کالم بھی کم پڑجائیں اور قارئین کرام خود دماغ پر زور ڈالیں تو نہ جانے کتنی باتیں انہیں یاد آجائیں گی۔ یہ تمام باتیں اس کا اعلان ہیں کہ یہ ملک صرف ہندوئوں کا ہے۔ مسلمان رہیں محنت مزدوری کریں نماز پڑھیں روزہ رکھیں اور یہ ضد چھوڑ دیں کہ جلوس اس راستہ سے جائے گا اور تعزیہ بڑا ہے تو راستے میں آنے والا پیپل کاٹ دو یا بجلی کے تار کاٹ دو۔ یہ صرف درگا کی مورتی کے لئے ہوگا کہ کسی نے چھجہ بنا لیا ہے تو اسے توڑ دیا جائے کیونکہ مورتی چھوٹی نہیں بنائی جاسکتی۔ جو ہندو مسلمانوں کی حمایت کرتے بھی ہیں انہیں بعد میں کہنا پڑتا ہے کہ ہم بھی تو ہندو ہیں اور راہل گاندھی ایک ہزار سیڑھیاں چڑھ کر پوجا کرنے کے لئے مندر میں اس لئے جاتے ہیں کہ پوجا کا جواب پوجا سے دینا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔