’ہندوتو ا سیاست‘ اب بوڑھی ہوچکی ہے

ڈاکٹر عابد الرحمن

ایودھیا میں وی ایچ پی اور سنگھ کی دھرم سبھا پھس پٹاخہ ثابت ہوئی۔ دعویٰ کیا گیا تھاکہ اس میں دو سے تین لاکھ لوگ کے جمع ہوں گے لیکن خبروں کے مطابق گراؤنڈ خالی تھا، شرکاء کی تعداد کم سے کم تیس ہزار اور زیادہ سے زیادہ اسی ہزار کے قریب تھی۔ جو لوگ شریک ہوئے وہ بھی وقت سے پہلے ہی واپس ہونے شروع ہوگئے تھے جسکی وجہ سے مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے ہی پروگرام ختم ہوگیا۔ اختتام پر نہ کوئی تحریری قرار دار پاس ہوئی اور نہ ہی کچھ نیا کہا گیا، جو کچھ کہا گیا وہ وہی پرانی مسلم مخالف اشتعال انگیزی پر مبنی تھا جسے سن سن کے شاید اب سنگھ کے روایتی بھکتوں کے بھی کان پک گئے ہیں کہ ’ مندر کے نرمان ہونے تک نہ چین سے بیٹھیں گے اور نہ چین سے بیٹھنے دیں گے ‘کہ ’ ہم اب بلیدان دیں گے نہیں بلکہ بلیدان لیں گے ‘ مسلمانوں کو براہ راست دھمکی بھی دی گئی کہ وہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے لئے دے دیں کیونکہ اگر اس ضمن میں آرڈیننس لایا گیا تو وہ ایودھیا تک ہی محدود نہیں ہوگا بلکہ کاشی وشواناتھ اور متھورا کی مسجدوں تک بھی جائے گا۔ یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو ایودھیا میں اتنا بڑا مجمع کئے بغیر بھی کہی جا سکتی تھیں اور ویسے بھی سنگھ اور بی جے پی کا کوئی نہ کوئی لیڈر وقفہ وقفہ سے کہتا رہتا ہے۔ دراصل سنگھ کی یہ ڈرامے بازی دھرم سبھا نہیں بلکہ سیاسی سبھا تھی جس کا مقصد رام مندر تعمیر کے لئے مودی سرکار پر ہونے والی تنقید کی صفائی پیش کر نے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

پانچ ریاستوں میں الیکشنس ہیں اور ۲۰۱۹ کا جنرل الیکشن بھی کچھ زیادہ دور نہیں اور وکاس کے جس خیالی رتھ پر سوار مودی سرکار آئی تھی وہ پوری طرح ٹوٹ چکا ہے ایسے میں ورغلائے ہوئے اذہان کو مذہب کی افیون پلا کر بی جے پی کے نشے میں چور رکھنا ضروری تھا اور یہ بات کسی بڑے اجتماع اور دھرم سبھا کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی سو رام مندر کا کھڑاگ رچا یا گیا۔ حالانکہ بی جے پی نے تنظیمی طور پر اس سے الگ رہنے کا سوانگ رچایا لیکن جو کچھ ہواحقیقتاً اسی کی ایما پر اور اسی کے لئے ہوا۔ یوں تو کہیں کہیں مودی سرکار کو نشانہ بنایا گیا کہ پچھلے ساڑھے چار سالوں میں اس نے رام مندر کے لئے کچھ نہیں کیا اور اب بھی اگر کچھ نہیں کرے گی تو سرکار کو جانا پڑے گا لیکن زیادہ ترسنتوں نے شرکاء کو یقین دلایا کہ مودی سرکار اس ضمن میں کچھ نہ کچھ ضرور کرے گی قانون بنائے گی یا آرڈیننس کے ذریعہ مندر تعمیر کا راستہ ہموار کرے گی، ہندوؤں کو دھوکا نہیں دے گی۔ مودی جی نے بھی دھرم سبھا کے سارے سوالوں اور تشویش کا جواب دیتے ہوئے مندر تعمیر میں ہورہی دیری کی ساری ذمہ داری کانگریس کے سر ڈال دی کہ ’ کانگریس سپریم کورٹ کے ججوں کو مواخذے سے ڈراکر ایودھیا معاملہ کی سنوائی سے روک رہی ہے‘ کانگریس کی سیاست اور منشا سے صرف نظر، وزیر اعظم مودی جی نے خود یہاں ملک کی اعلی اور معزز ترین عدلیہ کے ججوں پر ایک گمبھیر الزام لگا دیا کہ وہ انصاف کی فراہمی میں سیاسی پارٹیوں کے مواخذے سے ڈرتی ہے؟! تو کیا واقعی ہماری عدلیہ غیر جانبداری سے کام نہیں کرتی ؟ کیا اس کی کاررائیوں، سنوائیوں اور فیصلوں پر سیاسی پارٹیوں کی سیاست اور مرضی و منشاء اثر انداز ہوتی ہے؟ مودی جی کے بیان کے بعد ضروری ہے کہ معزز عدلیہ اور مودی جی خود ان سوالوں کے جواب دیں۔ مودی جی نے تو لوگوں اوراپنے ووٹ بنک سے وعدہ خلافی کا پلا جھاڑ لیا لیکن اس کے لئے جو بات کہہ دی وہ خود قابل مواخذہ ہے اور ملک کے ذمہ دار ترین عہدے پر فائز ہونے کے ناتے مودی جی نے اپنی اس بات کی وضاحت کرنی چاہئے۔

 دراصل بی جے پی کی وکاس کی سیاست پوری طرح ناکام ہو چکی ہے، ترقی کے جو وعدے انہوں نے کئے اور اس کے لئے اپنے اقدامات کا جو شور مچایا اس کا کوئی خاص اثر زمینی سطح پر کہیں دکھائی نہیں دیا بلکہ حالات مزید خراب ہی ہوئے جس کی وجہ سے اب ان کے پاس ہندوتوا سیاست کی طرف لوٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا لیکن اب ہندوتوا سیاست بھی پرانی بلکہ بوڑھی ہو چکی ہے ویسے بھی اس کا وہ رتھ جس کے ذریعہ اڈوانی جی نے بی جے پی کے تن مردہ میں جان پھونکی تھی خود انہی کے زمانے میں بوسیدہ ہوچکا تھا، خالص ہندوتوا سیاست کا انتخابی حصہ وہ ہے جو اڈوانی جی نے ۱۹۹۹ میں جیتا تھا اور وہ بھی اکیلے سرکار بنانے کے لئے کافی نہیں تھا اب مودی جی جو جیتے ہیں یہ خالص ہندوتوا کی جیت نہیں بلکہ ہندوتوا +مودیتوا (وکاس اور دیگر الا بلا کے بڑ بولے وعدے اور جملے وغیرہ) کی جیت ہے اور اتنی ساری تشہیر شور شرابے اشتعال انگیزیوں ریاستی سرکار کی ہر ممکن امداد اور بندوبست کے باوجود دھرم سبھا میں لوگوں کی توقع سے کم شرکت بتاتی ہے کہ اب ہندوتوا اور رام مندر کی سیاست کی اثر پذیری وہ بھی نہیں رہی جو اڈوانی جی کے دور میں تھی۔

بی جے پی کے لئے خرابیء حالات تو یہ بھی ہے کہ خود اسی کا ہندوتوا اتحادی شیو سینااسی ہندوتوا سیاست کے ہتھیار سے اس پر حملہ آور ہے۔ شیوسینا نے رام مندر کی سیاست کرتے ہوئے نہ صرف مودی سرکار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ بہت شاطرانہ طور پر ان سے اس ضمن میں قانون بنانے یا آرڈیننس لانے کی مانگ کی گویا لوگوں کو قانون یا آرڈیننس کے لئے اکسا کر بی جے پی کی مشکلات بڑھا دی کہ ماہرین کے مطابق جب بابری مسجد کی جگہ کی ملکیت کا معاملہ ہی سپریم کورٹ میں ہے تو اس جگہ پر مندر تعمیر کے لئے قانون بنانا یا آرڈیننس لانا اگر ناممکن نہیں تو قانونی طور مشکل ترین ضرور ہے کہ اگر ایسا ہو بھی گیا تو عدلیہ میں اسے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ شیو سینا یہ نہیں جانتی لیکن سیاست ہے اور دھرم سبھا میں بھی ہوئے قانون قانون اور آرڈیننس آرڈیننس کے شور سے وہ اس میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے،جو بی جے پی اور سنگھ کی ہندوتوا سیات کے لئے بجائے خود پریشانی کا مقام ہے۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ دھرم سبھا کا یہ سارا کھڑاگ ادھو ٹھاکرے کی ایودھیا سیاست کو کاؤنٹر کر نے کے لئے ہی رچایا گیا تھا جس کا اعلان انہوں نے ’چلو وارانسی چلو ایودھیا ‘ کے نعرے کے ذریعہ جولائی ہی میں کردیا تھا۔ دراصل شیوسینا کا عروج بھی بابری مسجد شہادت اور ممبئی فسادات کے بعد ہی ہوا تھا اس وقت سے بی جے پی اسکی جونئر پارٹنر چلی آرہی تھی لیکن اب اس کی ساکھ بی جے پی سے بھی کم ہوتی نظر آرہی ہے سواپنی ساکھ بچانے یا بی جے پی کی ساکھ کمزور کر نے کے لئے وہ پھر رام مندر کی ناکام سیاست کی طرف ہی بڑھ رہی ہے۔

اب دیکھنا ہے کہ ہندوتواکو اپنے نام کرنے کی سیاست میں یہ دونوں پارٹیاں مستقبل میں کیا اسٹریٹیجی اپناتی ہیں لیکن ایک بات تو طئے ہے کہ دونوں کا حالیہ پروگرام اگر پوری طرح ناکام نہیں ہوا تو توقع کے مطابق کامیاب بھی نہیں ہوا یعنی کسی بھی جارحانہ جذباتی منفی اورغیر عملی سیاست کی طرح ہندوتواسیاست بھی اپنے ریورس(Reverse ) دور میں داخل ہوچکی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔