ہندوستانی سیاست اور مسلمان

یہ کوئی فلسفہ نہیں  بلکہ زندگی کی حقیقت ہے کہ جب کسی ریوڑ کا کوئی چرواہا نہیں  ہوتا یا چرواہا اپنی بھیڑوں  کو بھیڑیوں  سے محفوظ رکھنے کی معقول تدبیر چھوڑ دے، تو بھیڑین بھیڑیوں  کے رحم و کرم پر ہوجاتی ہیں۔  مثال کے طورپر جب بھیڑیں  کثیر تعداد میں  ہوں  تو چرواہا نہ صرف مزید سنتریوں  کی مدد لیتا ہے، بلکہ چرواہے کتّےبھی پال رکھتے ہیں  اور پھر یہ کُتّے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے بھونکنا شروع کر دیتے ہیں  یا اکثر اپنے مالک کی مدد سے بھیڑیوں  پر حملہ آور ہونے کی کوشس بھی کرتے ہیں – اب یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں  کہ بھیڑیے کی اپنی فطرت یہ ہوتی ہے کہ وہ بلا امتیاز جانداروں  کے خون سے اپنے پیٹ کی بھوک کو مٹائے – مثال کے طور پر دلی کے چڑیا گھر میں  جب ایک سترہ سال کا نوجوان تیندوے کے احاطے میں  گر پڑا تو تیندوے نے یہ سوچے اور سمجھے بغیر کہ ایک غیر مسلح نوجوان اس کیلئے کسی بھی طرح خطرے کی علامت نہیں  ہے اور اسے چڑیا گھر کے منتظمین کی طرف سے وقت پر غذا بھی فراہم کی جاتی ہے، اس کے باوجود کہ نوجوان ہاتھ جوڑ رہا تھا اور وہاں  موجود عوام نے بھی احتجاج کرنا شروع کر دیا تھا کہ وہ نوجوان پر حملہ نہ کرے رفتہ رفتہ اپنی خواہشات کو پوری کرنے کیلئے آگے بڑھتا چلا گیا اور اچانک نوجوان کی گردن دبوچ کر لے کر بھاگ گیا-

بھوپال کی جیل میں  قید آٹھ مسلمان قیدیوں  کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا یہ سانحہ بھی دلی کے چڑیا گھر کے جیسا ہی ہے فرق اتنا ہے کہ تیندوا حیوان تھا اور مدھیہ پردیش کی پولیس جس نے قیدیوں  کا قتل عام کیا وہ انسان تھے- کچھ لوگ اسے بی جے پی اور فرقہ پرست طاقتوں  کی سازش قرار دے کر مسلمانوں  کو دھوکہ دے رہے ہیں،  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان آزادی کے بعد سے ہی ملک کے سیاسی نظام اور بھیڑیے نما سیاستدانوں  کا شکار ہے-  شاید ہم ہاشم پورہ قتل عام کو بھول گئے ہیں  کہ کس طرح پی اے سی نے گھروں  سے بوڑھے اور جوان مسلمانوں  کو اٹھا لیا اور ایک سنسان علاقے میں  لے جاکر قتل کردیا – خواجہ یونس کا قتل بھی پولس کی حراست میں  اسی طرح ہوا جیسا کہ دو سال قبل تلنگانہ کی پولیس نے جیل سے لے جاتے ہوئے چار مسلم نوجوانوں  کا انکاونٹر کے نام پر قتل کیا – اتفاق سے ان دونوں  ریاستوں  میں  غیر بی جے پی حکومتیں  تھیں  بلکہ آزادی کے بعد سے بھاگل پور میرٹھ ملیانہ اور بھیونڈی وغیرہ میں  فسادات کی شکل میں  مسلمانوں  کا جو مسلسل انکاونٹر ہوتا رہا اس دوران ان ریاستوں  میں  بی جے پی کی نہیں  کانگریس کی حکومت تھی –

اس کا مطلب یہ نہیں  کہ ہم بی جے پی اور فرقہ پرست طاقتوں  کی شر انگیزی اور شرارت کو کمتر سمجھ رہے ہیں  یا 2002 کےگجرات فساد اور اس فساد میں  مسلمانوں  کے انکاونٹر کو بھول جانا چاہتے ہیں  – ہمارا موقف یہ ہے کہ ہندوستان میں  مسلمان کسی سیاسی پارٹی کا نہیں  بلکہ سیاسی بدعنوانی اور جمہوری فاشزم کا شکار ہے – دو سال پہلے ہم نے حسن سرور کی  ایک کتاب پڑھی تھی جس کا عنوان تھاIndia’s spring بھارت کا بہار – غالباً یہ کتاب مشرق وسطیٰ کی اسلامی بیداری کے بعد لکھی گئی ہے جسے عام طور پر عرب بہار کے نام سے جانا جاتا ہے – مصنف نے لکھا ہے کہ بھارت میں  مسلمانوں  پر  آزادی کے بعد سے ہی فسادات مسلط کئے گئے تاکہ انگریزوں  کے دور میں  مسلمانوں  کا جو شیرازہ بکھر چکا تھا خوف اور دہشت کے اس ماحول میں  اسے  دوبارہ تشکیل نو کا موقع نہ ملے مگر چونکہ مسلسل فسادات کی صورت میں  اس خوف اور دہشت سے ملک کی عام آبادی بھی متاثر ہو رہی تھی اور قومی املاک اور معیشت کو بھی خسارے سے گذرنا پڑتا تھا 9/11 کے بعد ملک کے جمہوری فاشزم نے ایک نئی کروٹ لی اور پھر 2002 میں  بی جے پی حکومت نے اگر سیمی پر پابندی لگائی تو 2004سے 2014 تک جو بم دھماکے ہوئے اور جس طرح بے قصور تعلیم یافتہ نوجوانوں  کو گرفتار کر کے جیلوں  میں  ڈالا گیا۔ یہ پورا دور بھی  مسلم نوجوانوں  کیلئے کسی انکاونٹر سے کم نہیں  تھا اور اس پورے دور میں  ملک کے اقتدار پر کانگریس کی سیکولر حکمرانی تھی – ہوسکتا ہے عام مسلمان منموہن سنگھ حکومت کے اس سیاہ دور کو بھول چکے ہوں  لیکن جس طرح ممبئی اور مالیگاؤں  بم دھماکوں  کے بعد ملک کے دیگر علاقوں   میں  بھی دھماکوں  کا سلسلہ شروع ہوا ، مسلم نوجوانوں  کی گرفتاری ہوئی اور ایک ایماندار افسر ہیمنت کرکرے کے قتل کی واردات بھی کانگریس کی حکمرانی میں  انجام دی گئی۔ میں  نے اپنی پوری عمر میں  اتنا خوف اور دہشت کا ماحول کبھی نہیں  دیکھا –

حال میں  مدھیہ پردیش بھوپال کی  جیل کے اندر قید سیمی کے نوجوانوں  کو قتل کرنے کی سازش بھی جمہوری فاشزم کی حکمت عملی کا ہی ایک حصہ ہے – اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے اور ملک میں  سرگرم مسلمانوں  کی تنظیموں  نے اس مشکل صورتحال سے اپنے بچاؤ اور حفاظت کیلئے کیا تدبیریں  اختیار کیں  اور مسلمان کب تک اس ظلم اور درندگی کا شکار ہوتے رہیں  گے – اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ مسلمان سیاسی طورپر مضبوط ہوں  جو ہندوستان کا مسلمان پچھلے پینسٹھ سالوں  سے کر بھی رہا ہے – یعنی ملک کے سیکولر قومی دھارے میں  شامل ہوکر مسلمانوں  نےساٹھ سال تک کانگریس کو اقتدار سونپا لیکن اس کے بدلے میں  کیا کانگریس نے مسلمانوں  کے ساتھ  وفا کیا – اس کے علاوہ کیرالا مہاراشٹر اور یوپی  میں  مسلم لیگ اور مسلم مجلس مشاورت جیسی سیاسی پارٹیاں  مسلمانوں  کی  نمائندگی کیلئے آگے تو آئیں  لیکن کانگریس نے مسلمانوں  پر آرایس ایس اور بی جے پی کی دہشت بٹھا کر ان کو کسی مسلم متحدہ سیاسی محاذ کے ساتھ متحد ہونے سے بھی دور رکھا اور یہ کھیل آج بھی جاری ہے –

اب مسلمانوں  کو سیاسی طورپر متحد کرنے کیلئے اویسی برادران بھی آگے آئے ہیں  لیکن ایسا ممکن نظر نہیں  آتا کہ یہ لوگ بھی کامیاب ہو پائیں  گے – ناکام ہونے کی وجہ بھی یہ ہو سکتی ہے کہ اویسی برادران کو جس طرح ایک معتدل سیاسی نظریے کے تحت ملک کے عام شہریوں  کو مخاطب کرتے ہوئے فلاح وبہبود کے منصوبوں  کے بارے میں  بھی دلائل کے ساتھ بات کرنی چاہیے ان کا لہجہ اور طور طریقہ بھی عام سیاسی پارٹیوں  اور بی جے پی  لیڈران سے مختلف نہیں  ہے – سچ کہا جائے تو ہندوستان میں  جس طرح مسلمان سیکڑوں  خانوں  میں  تقسیم ہیں  اور ان کے اس اتحاد کا خواب بھی خواب ہی جیسا ہے یہ بات ممکن بھی نہیں  ہے کہ مسلمان جو ایک زمانے سے باشعور قیادت کے بحران سے بھی گذر رہا ہے کبھی متحد ہو پائے اور اگر کبھی وقتی اور حادثاتی طورپر ایسا ہو بھی گیا تو اس اتحاد کی عمر کیا ہوگی اس کی بھی کوئی ضمانت نہی ہے – دوسرے لفظوں  میں  یہ کہا جاسکتا ہے  کہ ہندوستان میں  مسلمان اب خالص مسلم طرز سیاست کی جنگ ہار چکا ہے الا یہ کہ خالق کی مرضی کچھ اور ہو اور وہ مسلمانوں  کے علاوہ سوا سو کروڑ برادران وطن میں  سے ہی ان کی رہنمائی کیلئے کوئی باشعور اور ایماندار قیادت عطا کر دے – اس کے باوجود مسلمانوں  کے مخلص اور ایماندار افراد کومایوس نہ ہو کر اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے ہو سکتا ہے فرعون کے محل میں  کسی موسیٰ نے پناہ لے رکھی ہو –

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔