ہندوستانی مسلمانوں کے لیے سیاسی بالادستی ضروری، لیکن کس طرح؟

شمس تبریز قاسمی

2015 کی بات ہے۔ میرے ایک قریبی دوست کے واسطے سے امریکن ایمبسی سے وابستہ ایک صاحب نے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان دنوں میں نیوز ایجنسی آئی این ایس انڈیا میں کام کررہاتھا۔ بہر حال مغرب بعد آفس میں ہی انہیں بلایا۔ملاقات کے دوران انہوں نے ہندوستان سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کی زبوں حالی، زوال اور پسماندگی پر گفتگوکی اس کے بعد جمعیت علماءہند کا تذکرہ شروع کردیا اور منفی تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ اب وقت آگیاہے کہ اس تنظیم کے خلاف ہم تحریک چلائیں۔ مسلمانوں کوان سے بیزا ر کریں۔ جمعیت کے تئیں قوم اور عوام کا اعتماد مجروح کریں۔ بہت دیر تک وہ جمعیت کی برائی کرتے رہے اور اس کے خلاف تحریک چلانے کا منصوبہ بتاتے رہے۔ پھر بیباک، جرات مند جیسے الفاظ کے ساتھ میری تعریف کرتے ہوئے وہ اپنے اصل مقصدپر پہونچے اور کہاکہ اس مہم میں آپ بھی ہمار ا ساتھ دیں۔ ہم نے کہاکہ جمعیت کے خلاف تحریک چلانے کا فائدہ آپ کو کیا ہوگا۔ جس قوم کی زبوں حالی کا ابھی آپ نے تذکرہ کیاہے اسے کیا مل جائے گا۔ کہنے لگا قوم ان پر ہی اعتماد کرتی ہے اس لئے کچھ کرنے سے پہلے ان کے تئیں اعتماد متزلزل کرنا ضروری ہے ہم نے کہاآپ کی یہ سوچ غلط ہے اور اس طرح نہ آپ کبھی بھی قوم کا بھلا کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کا مقصد واقعی خلوص کے ساتھ قوم کی خدمت، ان کی ترقی اور کامیابی ہے تو آپ کسی کی مخالفت اور تنقید کئے بغیر قومی ترقی کے ایجنڈا پر کام شروع کردیجئے۔ اگر قوم کولگے گا انہیں آپ سے فائدہ پہونچ رہاہے تو یہ قوم کل ہوکر آپ کو اپنا مسیحا مان لے گی لیکن کچھ کئے بغیر دوسروں کی تنقید کرکے آپ کبھی بھی لیڈر نہیں بن سکتے ہیں،نہ ملت کو کبھی فائدہ پہونچا سکتے ہیں اور نہ ان کا اعتماد جیت سکتے ہیں۔ جمعیت جس حال میں بھی ہے غنیمت ہے۔ آج بھی وہ مسلمانوں کی مضبوط آواز، طاقت اور نمائندہ تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد دوبارہ کبھی ہماری ا ن سے ملاقات نہیں ہوسکی اور نہ انہوں نے فون کیا۔

مخالفت کے ذریعہ کبھی کامیابی نہیں حاصل کی جاسکتی ہے۔ مقصد کے حصول ملت کی خدمت اور قوم کی رہنمائی کیلئے ضروری ہے مثبت سوچ اپنا نا، اپنی وسعت طاقت اور صلاحیت کی بنیاد پر کام کرنا چناں چہ اس ملک میں دسیوں ایسے نام ہیں جن کا کوئی خاندانی پس منظر نہیں ہے۔ جن کے پاس کوئی جائیداد اور دلت نہیں تھی لیکن انہوں نے محنت کی، جدوجہد کی اور تعمیری کاموں کی بنیاد پر پارلیمنٹ تک اپنی رسائی بنائی۔ اس سلسلے میں مولانا اسرا را لحق قاسمی کا نام سر فہرست ہے جن کا خاندانی پس منظر کوئی قابل ذکر نہیں ہے لیکن انہوں نے محنت کی اور بالآقوم کا اعتماد جیت کر دو مرتبہ پارلیمنٹ پہونچے میں کامیابی حاصل کی۔ ایک اور اہم نام مولانا بدر الدین اجمل کا ہے جنہوں نے ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد ڈالی اپنی محنت اور جدوجہد کی بنیاد پر مسلمانوں میں سیاسی شعور پیدا کیا۔ خود دومرتبہ سے ایم پی ہیں، ایک مرتبہ ان کی پارٹی اپوزیشن میں رہ چکی ہے اور آج آسام میں کانگریس کے برابر اثر و رسوخ کی مالک بن چکی ہے۔ اپنی محنت اور جدوجہد کی وجہ سے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے والے مسلم رہنما میں اسد الدین اویسی کانام سر فہرست ہے جنہیں سیاست ورثے میں ملی، ان کے والد سلطان صلاح الدین اویسی چھ مرتبہ ایم پی رہ چکے تھے لیکن اسد الدین اویسی نے بھی اپنی صلاحیت کا لوہا منوالیا۔ سڑک سے لیکر سنسدتک ہر جگہ سیاسی سوجھ بوجھ، علمی لیاقت اور انداز گفتگو کا ایسا مظاہر ہ کیا کہ آج وہ مسلمانوں کے آئیڈیل لیڈر بن گئے ہیں۔ نئی نسل انہیں اپنا لیڈر تسلیم کرتی ہے اور ان کی قیادت میں وہ سیاسی اثر ورسوخ حاصل کرنے کیلئے تگ ودوکررہی ہے۔ ایسے کئی ایک نام ہیں جن کا کوئی خاندانی پس منظر نہیں ہے لیکن آج وہ قابل قدر اور ملت کا عظیم سرمایہ سمجھے جاتے ہیں۔ قوم انہیں قائد اور ہنما مانتی ہے۔ انہوں نے یہ کامیابی کسی کی مخالفت کرکے یا کسی کے خلاف ہنگامہ کرکے حاصل نہیں کی ہے بلکہ اس کے پیچھے ان کی جدوجہد، شب وروز کی محنت اور قوم کے تئیں سچی ہمدردی وفاداری اور ایماندارانہ کوششیں ہیں۔ اب اگر اس سے کسی قیادت پر زد پڑتی ہے، کسی کی مقبولیت میں کمی آتی ہے یہ ان کا اثر رسوخ برقرار نہیں رہ پاتاہے تو اس مسئلے کا حل ان کی مخالفت نہیں ہے۔

عوام کبھی آمریت کو پسند کرتی ہے، وراثت میں آئی قیادت کو بسر وچشم تسلیم کرتی ہے لیکن اگر موقع ملتاہے یا کوئی متبادل سامنے آتاہے تو پھرو ہ اپنا مزاج اور نظریہ تبدیل کرلیتی ہے۔یہی وجہ کہ ہندوستان کے مسلم قائدین کی فہرست میں کئی ایسے بھی نام ہیں جن کا خاندانی پس منظر قابل رشک ہے۔ وراثت کی بنیاد بڑی تنظیموں کی قیادت ان کے ہاتھ میں ہے۔ ہزاروں مریدین ہیں۔ یعوام سے وہ اپنی پسندیدہ پارٹیوں کو ووٹ دینے کی اپیل بھی کرتے ہیں لیکن خود ان مسلمانوں کے درمیان جب جاکر الیکشن لڑتے ہیں، اے سی کمروں میں بیٹھ کر دوسروں کو فتح سے ہمکنار کرنے کے بجائے خود جیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو تمام تر اسباب پائے جانے کے باوجود مقابلے میں گمنام ہوجاتے ہیں اور ضمانت تک ضبط ہوجاتی ہے۔

آج اگر اویسی کو مقبولیت مل رہی ہے۔ عوام انہیں اپنا رہنما مان رہی ہے۔ مولانا بدر الدین اجمل اثرورسوخ کے حامل ہوگئے ہیں۔ ایک سیاسی گرفت انہوں نے حاصل کرلی ہے، ایس ڈی پی آئی سے عوام جڑرہی ہے تو اس کی وجہ ان کی محنت، جدجہد اور عوام کی پر خلوص خدمت ہے۔ انہوں نے کبھی نہیں کہاکہ ہم مسلم رہنما ہیں، مسلمانوں کے لیڈر ہیں لیکن جب بھی ضرورت پڑی ہے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ فرقہ پرستوں کو لاجواب کیاہے۔ فرانس اور امریکہ میں ہوئی دہشت گردی کی مذمت کے بجائے ملک بھر میں ہورہی ہجومی دہشت گردی کی انہوں نے مذمت کی ہے۔ مسلمانوں کو خوف، ڈر اور دہشت کے ماحول سے باہر نکالنے کی کوشش کی ہے۔ 28 دسمبر 2017 کی وہ تاریخ ہندوستانی مسلم کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں جب ملک کی پارلیمنٹ میں شریعت مخالف طلاق بل پر بحث ہورہی تھی۔ دنیا بھر میں موجودہ ہندوستانی مسلمانوں کی نگاہیں ٹی وی اسکرین کے ذریعہ یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع تھا ملک کی پارلیمنٹ میں مسلم پرسنل لاءکے خلاف کوئی قانون پاس ہورہاتھااس قانون کی مخالفت صرف اویسی نے کی بقیہ کسی اور میں یہ ہمت نہیں ہوئی۔ کانگریس کے عالم دین اور قاسمی ایم پی صاحب بھی پارٹی کی پالیسی کے سامنے بے بس نظر آئے۔ ایسے ہی حالات میں ضرورت پیش آتی ہے کہ کچھ ایسے مسلم ممبران پارلیمنٹ بھی ضروری ہیں جو فیصلے لینے کیلئے کسی دوسرے کے محتاج نہ ہوں۔

آزاد ہندوستان میں سیکولر پارٹیوں کے ساتھ رہنا ضروری ہے، ان سے علاحدہ ہوکر تنہا اسلام اور مسلمان کے نام پر سیاسی پارٹی بنانا مسئلے کا حل نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کچھ ایسی سیکولر سیاسی پارٹی ہوجس کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو،کچھ ایسے مسلم ایم پی ہوں جو کسی طرح کے دباﺅ سے آزاد ہوں اور جب موقع ملے وہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ دلت، یادو، کرمی اور اس طرح کے سماج کی اپنی علاحدہ پارٹی ہے، سبھی ذات اور مذہب کے اس میں شریک ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سیکولر پارٹیوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین۔ یوڈی ایف اور ایس ڈی پی آئی اسی مشن کا حصہ ہے۔ ان پارٹیوں کے قیام کا ہر گز یہ مقصد نہیں نکلنا چاہیئے کہ مسلمان مذہب کے نام پر سیاسی صف بندی کررہے اور اگر ایسا کوئی شوشہ چھوڑا جاتاہے تو مضبوطی کے ساتھ اس کا دفاع ضروری ہے۔ ان پارٹیوں نے ہرممکن سیکولر ووٹ کو منشر ہونے سے بھی بچایاہے۔ مکمل تیاری ہونے کے بعد سیکولر ووٹوں کے منتشر ہونے کے خوف سے پچاس فیصد سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے صرف دو فیصد سیٹوں پر یہ اپنے امیدوار اتارتے ہیں۔

آزادی، اثر روسوخ، حقوق، معاشی استحکام، تعلیم اور طاقت کیلئے سیاسی بالادستی کا حصو ل ضروری ہے اب اس کا حصول کیسے ممکن ہے” کانگریس یادیگر سماج کی پارٹیوں کا حصہ بن کر یاایک دو عددعلاحدہ سیکولر سیاسی پارٹی قائم کرکے “اس پر بحث اور مذاکرہ گذشتہ70 سالوں سے ملک میں جاری ہے اور آئندہ بھی اس پر بحث ہوتی رہے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔