ہندوستان میں سلسلۂ چشتیہ کا ارتقائی سفر (قسط اول)

سلیمان سعود

تمہید

بر ِصغیر وہ خطہ ہے جو مرکزِ اسلام سے دور ہو نے کے باوجود پہلی ہجری ہی میں آفتابِ ہدایت کے کرنوں سے منور ہوا۔ یہاں کے پیچیدہ تہہ در تہہ خود ساختہ مذہبی تصورات نے  یہاں کے باسیوں کومختلف نسلی واعتقادی طبقات میں تقسیم کر رکھا تھا،جب اسلامی خلافت  جزیرہ عرب کی سرحدیں عبور کرکے افریقہ ،یورپ اورایشیا کے برِّاعظموں تک پھیل رہی تھی،تووہیں ہندوستان میں بھی اس عالم گیر اسلا می تحرک کے اثرات پہنچ رہے تھے مسلمان تاجر اور مبلغین  7؍ویں صدی عیسوی میں اپنے بہترین اخلا ق  وکردارکے ذریعہ برصغیر کے مغربی ساحلوں پر قطعی اراضی حاصل کرکے یہا ں کے متمول تجارت پیشہ خصوصا راجاؤں کو اسلام کی طرف راغب کر لیا تھا۔

ہندوستان میں اسلام کو متعارف کرانے والوں کو تین طبقات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

 1۔ تجارت پیشہ طبقہ

2۔  وہ سلاطین وامراء جنہوں نے فوجی مہمات کے ذریعہ باقاعدہ حکو متیں قا ئم کی مگر ان د و طریقوں کی بنسبت مؤثراور فطری طریقہ

3 ۔  صوفیا کی دعوت وتبلغ کا  طریقہ ،جوان ان فاتحین کے ہمراہ آکر سروں کے ساتھ دلوں کی تسخیراور اخلاقی وایمانی فتح کا کا م انجام دیا’اورشرق سے غرب تک نورِاسلام کے چراغ روشن کیے۔

یہ سلسلہ بارویں صدی عیسوی میں ایک نیا موڑ اختیار کیا،جس کے اوائل میں تہذیب وتمدن کے لیے مشہور عالمِ اسلام کے بڑے بڑے شہرتاتاریوں کے ہا  تھ برباد ہو کر رہ گئے ،ہندوستان ایک ایساملک تھاجو اس سورش سے محفوظ تھا  یہی وجہ تھی  کہ سکون سے محروم شریف ترین خاندانوں نے ہندوستان کو مسکن بنایا،جو ہندوستان کے لیے خوش آ یئن بات تھی کہ ہند اسلامی فکراور روحانی قوت کا نیا مرکز بننے جارہاہے،اسی سیلِ رواں میں صوفیا  بر صغیر میں تشریف لائے ،انمیں  نمایاں اور شہرِآفاق نام ’’خواجہ معین الدین چشتی ‘‘ کا ہے تصوف کے مشہور سلاسل میں سے جس سلسلہ سے آپ منسلک تھے وہ’’چشتیہ‘‘ہے۔

سلسلہ چشتیہ:

جس کا انتساب کسی بزرگ ذات سے نہیں بلکہ یہ خراسان کے ایک مشہور شہر ’’چشت ‘‘ سے منسوب ہے ،جہاں صوفیا نے اصلاح وتزکیہ کا مرکزقائم کیا تھا،جس کو اس قدر شہرت ملی کہ یہ سلسلہ اس شہرکی نسبت سے’’ چشتیہ ‘‘ کہلانے لگا ،جن کے ذریعہ باقا عدہ یہ سلسلہ شروع ہو،وہ ابو اسحاق شامی ہیں ،جوخواجہ شمشاد علی دینوری سے کسبِ فیض کے بعد چشت پہنچ کر امدادِ حق اور ارشادِحق کاایسا مستحکم نظام قائم کیا کہ آج تک سلسلہ چشتیہ ضوفشانی کررہاہے۔

خلیق احمد نظامی تحریر فرماتے ہیں :

’’چشتیہ سلسلہ کی داغ بیل تو ابو شیخ اسحا ق شامی نے ڈالی تھی لیکن اس کو پروان  چڑھا نے اور پھیلانے کا کا م خواجہ معین الدین سنجری  نے انجام دیا‘‘۔ (1)

ہندوستان میں سلسلۂ چشتیہ کی آمد:

 فتح ہند سے بہت پہلے مشہور روحانی سلاسل کا وجود ہوچکا تھااور وقتا فوقتا ہندوستان اس سے فیض یاب ہو رہا تھا،لیکن ہند کی روحانی فتح کے لیے اللہ نے سلسلہ چشتیہ کا انتخاب فرمایا، چنانچہ چشتیوں کو ہند کی طرف رخ کرنے کا غیبی اشارہ ہوا،سب سے پہلے جس چشتیِ شیخ نے ہندوستان کا رخ کیا وہ ’’خواجہ ابو محمد چشتی تھے، جن کی دعائیں  اوربابرکت  ذات محمود غزنوی کے فتوحات کی پشت پناہی کررہی تھی۔

مولناعلی میاں ندوی ؒ تحریرفرماتے ہیں :

جس طرح محمود کی سیاسی فتح کی تکمیل اور اسلامی سلطنت کے استحکام واستقلال کی  سعادت سلطان شہاب الدین غوری کے لیے مقدر تھی خواجہ ابو محمد چشتی کے کام کی تکمیل اور اسلام کی عمو می اشاعت اور اسلامی مرکز رشد وہدایت کا قیام  اسی سلسلہ کے ایک شیخ، شیخ الشیوخ خواجہ معین الدین سنجری کے لیے مقدر ہوچکا تھا۔(2)

معین الدین چشتی ؒ:

ایران کے علاقہ سیتان کے قبضہ سنجر میں ۵۳۷؁ھ کو اس عالمِ رنگ وبومیں تشریف لائے ،علوم مروجہ کے حصول کے بعد روحانی فیض کے لیے متعدد صوفیاء سے ملے،

لیکن آپ کا سلسلہ ٔبیعت وخلافت خواجہ عثمان ہرونی سے ہے ،آپ اپنے مولدِ وطن کو چھوڑ مختلف مقامات کی سیر کرتے ہوئے ہندوستان پہنچے ،ابتداء لاہور میں علی ہجویری کے مزار پر چلہ کشی کی،پھر دہلی میں فروکش ہوئے،اس کے بعد اجمیر میں بود وباش اختیار کی، یہ وہ زمانہ ہے جب دہلی میں راجپوتوں کی دوسری شاخ چوہا نیوں کی حکمرانی تھی،چوہانیوں کے چھٹے حکمراں ’’پرتھوی راج چوہان نے ‘‘پایہ تخت دہلی سے اجمیر منتقل کیا تھا،اجمیر راجپوت طاقت اور ہندو مذہب اور روحانیت کابڑا مرکز تھا، اس مذہبی مرکز میں آپ کا قیام آپ کے عزائم کی ترجمانی کرتا ہے،یہاں پہلے دن ہی سے اپنی مؤثر تبلیغ اور حسن اخلاق سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ،اہلِ اجمیر نے آ پ کی عظمتو ں اور کرامات سے متأثر ہوکرجوق درجوق مسلمان ہوگئے،دیکھتے ہی دیکھتے جو اجمیر بت پرستی کا مرکزتھا، اب ایمان واسلام کا گہوارہ بن گیا۔

سید ابوالحسن علی ندوی ؒ تحریر فرماتے ہیں :

خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے مخلص اور پرزور ہاتھوں سے  یہاں چشتی سلسلہ کی مضبوط بنیاد پڑی،اس کے بعد خاص وعام سبھی نے اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کیا، (3)

 محمد غوری ا ورقطب الدین ایبک کے فتوحات کے بعد مسلم پایۂ تخت لاہور سے دہلی منتقل ہوگیا،تو آپ نے اپنے ایک مرید کو خلعتِ خلافت سے نوازکر دہلی میں اس سلسلہ کی اشاعت کے لیے متعین کردیا ،اور آپ اجمیر ہی میں اسلام کی شعائر کی اس انداز میں تبلیغ فرمائی کہ معاشرہ صحیح اور غلط کے پہچان کے قابل ہوگیا، نصف صدی کے ارشاد وتلقین کے بعد۹۰ ؍سال کی عمر میں اس وقت پردہ فرمائے  جب آپ کا سینچا ہوا پودا شجرِ تناور بن رہا تھا ،آپ کے در سے روحانی فیض پانے والے صوفیاء نے ہندوستان کے ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ تک خانقاہوں اور روحانی مراکز کاجال پھیلایا ،انھیں پاک باز ونفیس اشخاص میں سے ایک  جنھیں دہلی میں متعین کیا تھا وہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ہیں ۔

دہلی میں سلسلۂ چشتیہ:

 خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے ذریعہ روحانیت کی جو شمع اجمیر میں روشن ہوئی تھی ،اس کی کرنیں آپ کی زندگی ہی میں قطب الدین بختیار کا کی ؒ  کے ذریعہ دہلی پہنچ چکی تھی، خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے وصال کے بعد سلسلۂ چشتیہ کے نظام کو آگے بڑہانے کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر آئی ،چناچہ مرکزی نظام  اجمیر سے دہلی منتقل ہوا ،جو آپ کے کاوشوں سے شمالی ہند  میں پھیلتا چلاگیا ،آپ نے اپنے سلسلہ کا ایک اصول بنارکھاتھا  ’’کہ فقر واستغناء سے کام کرنا ہے ‘‘ اس بے تعلقی وبے نیازی کے باوجود عوام وخواص شاہ وگدا  سب آپ کے عقیدت مند اور حلقہ بگوش تھے ، سلطان شمس الدین التمش جو اس وقت دہلی کا حکمراں تھا،علماء ومشائخ سے عقیدت کی بناء پر آپ سے بھی بے پناہ تعلق رکھتا تھا۔

خلیق احمد نظامی تحریر فرماتے ہیں :

قطب صاحب کا دہلی میں قیام کر لینا چشتیہ سلسلہ کے حق میں  بہت مفید ثابت ہوا،قطب صاحب نے  دارالسلطنت کے مہلک اثرات سے اپنے دامن  کوبچالیا ، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہاں کے حالات سے پورا فائدہ اٹھایا ،اور تصوف کے خیالات ہر طبقے کے کانوں  تک پہنچائے(4)

آ پ کو خدمت کے لیے طویل زمانہ نہیں ملا ،شیخ معین الدین کے وفات کے بعد  چند سال زندہ رہے،  لیکن  آپ کی ذات سے ہندوستان میں نہ صرف  سلسلہ چشتیہ  کی بنیاد پڑ گئی  بلکہ  جن مقاصد عالیہ کے لیے  معین الدین چشتی ؒ نے اپنے قیام وکام کے لیے انتخاب کیا ، وہ صدیوں تک کے لیے محفوظ ہو گیا، آ پ کے خلفاء کی تعداد کم نہ تھی ،لیکن آپ کی جانشینی  اور خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے مقاصد کی تکمیل وتوسیع کی سعادت فرید الدین ؒ کے حصہ آئی۔

خواجہ فرید الدینؒ گنج شکر :

 قطب الدین بختیار کاکیؒ کے بعد جب فرید الدینؒ گنج شکر نے دہلی میں اس کی ترویج  واشاعت کی تو اسوقت دہلی (دارالسلطنت) کے حالات ناگفتہ بہ تھے، شمس الدین کے وفات  سے بہت سارے  دانشوروں نے موقع پاکر سیاست میں دخل اندازی شروع کردی ،لیکن آ پ نے  سیاسی بکھیڑوں سے بچ کر دینِ حق کے خاطر خدمات انجام دی ،جب آپ نے محسوس کیا کہ دارالسلطنت کا ماحول  تبلیغ وترویج  پر اثر انداز ہونے لگا ہے،آپ دہلی کو خیر آباد کہکر جھانسی تشریف لے گئے ، اس طرح سلسلہ ٔچشتیہ دہلی سے جھانسی پہنچا، اور پھر وہاں سے’’ اجھودن‘‘ کو اپنا مرکز بنالیا، جہاں آپ نے اپنی تربیت ِخاص کے سانچہ میں ڈھال کر جو لوگ تیار کیے ان میں سلسلۂ چشتیہ کے آ فتاب ومہتا ب نظام الدین اولیاءؒ اور علی احمد صابری کلیری ؒ،بھی شامل ہیں ۔

مولناعلی میاں ؒ فرماتے ہیں :

 جس طرح خواجہ معین الدین چشتی ؒ ہندوستان میں سلسلۂ چشتیہ کے مؤسس وبانی ہے، فرید الدینؒ گنج شکر اس کے بعد اس سلسلہ کے آدمِ ثانی ہے ،آ پ ہی کے دو خلفاء سلطان المشائخ حضرت نظام الدین دہلویؒ اور شیخ علاؤالدین علی صابر کلیریؒ کے ذریعہ یہ سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ،اور ان کے خلفاء واہل ِسلسلہ کے ذریعہ اب  بھی زندہ وقائم ہے۔(5)

 سلسلۂ چشتیہ نظامیہ:

  سلسلۂ چشتیہ جس کی بیج معین ؒ نے ہندوستان میں بوئی،قطب الدین کا کی اور فرید الدین گنج شکر ؒ نے اسے سینچا،تو نظام الدین اولیاء نے اس کے سائے کو ہندوستان بھر میں پھیلایا ۔

نظام الدین اولیاء 1328ھ کو بدایوں میں پیدا ہوئے ،وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی،پھر دہلی آکر شمش الدین خوارزمی اور مولانا کمال الدین سے اکتساب فیض کیا ،علومِ دینیہ سے فراغت کے بعد روحانی علوم کے تلاش میں فرید الدین گنج شکر سے جاملے ،چار سال کے قیام کے بعد خلافت سے نواز کر شیخ کے حکم سے دہلی روانہ ہوئے ،آپ کے ذریعہ آ پ ہی کی ز ندگی میں سلسلہ چشتیہ کے اثرات پورے ہندوستان میں پھیلے،اور  آپ نے اس قدر متأثر جال بچھایا کہ ارباب ِ اقتدار سے لیکررعیت تک کو اپنے عقیدت میں لے لیا،اللہ نے آپ کو بڑے جلیل القدر خلفاء عطاء کیے ،جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ شیخِ کامل تھا،جو اس مشن کو لیکر بنگال،دکن ، گجرات ، مالوہ ،جونپور،جہاں چھوٹی چھوٹی سلطنتیں قائم تھی وہاں پہنچ کر اصلاحِ باطن کا کام انجام دیا۔

حضرت نظام الدین اولیاء نے اکابرین سے ملی امانت کوانتقال سے قبل شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی کے سپرد کرکے سلسلۂ چشتیہ کے مرکزی نظام کے لیے اپنا جانشین مقرر کیا،چراغ دہلوی نے  نا مساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے پیر کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا، ابتداء سے اب تک  یعنی التمش سے محمد تغلق تک 110؍ عرصہ میں ،سلسلہ ٔ چشتیہ کے فروغ میں  دہلی کو مرکزیت  حاصل تھی،چراغ دہلوی اس مرکز کے آخری چراغ تھے،جب مسلم حکمراں رفتہ رفتہ مائل بزوال تھے ،دہلی کی سیاسی مرکزیت بھی دم توڑ رہی تھی ،ایسی صورتِ حال میں سلسلۂ چشتیہ کا مر کزی نظام بھی مختلف مراکزمیں تقسیم ہوکر  بنگال،دکن ، گجرات ، مالوہ ،اور اودھ منتقل ہو گیا،نصیر الدین چراغ دہلوی کے خلیفہ شیخ سراج الدین المعروف اخی سراج نے بنگال میں اس سلسلہ کی بنیاد رکھی ،آپ کا مولدِ وطن بنگا ل ہی تھا ،چراغ دہلوی کی عقیدت میں دہلی میں قیام کیا تھا،چراغ دہلوی کے انتقال کے بعد لکھنو ء میں قیام فرماکر بنگال میں رشدو ہدایت کا کام کرنے لگے ،جہاں آپ کے عقیدت مندوں کا سیلاب تھا، یہاں تک کہ ارباب ِ اقتدار اور ارکانِ حکومت بھی آپ سے منسلک ہو گئے،آپ سے استفادہ کے لیے بہار واودھ اور جونپور سے بھی عوام آ نے لگے،آپ ہی کے خلیفہ اشرف جہانگیر سمنانی اودھ کے ایک چھو ٹے گاؤں ’’کھچوچھ‘‘ میں اشاعت کی۔

حواشی

1. نظامی،خلیق احمد :تاریخ مشائخ چشت ص155مشتاق بک کارنر، الکریم مارکٹ اردو بازار، لاہور

2. مولانا عی میاں ندوی ؒ   : تاریخِ دعوت وعزیمت 3؍24 مجلس نشریات اسلام ،ناظم آباد کراچی،

3. ابولحسن علی ندوی ؒ:تزکیہ واحسان یا تصوف وسلوک ،ص۹۹ مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنؤ 1979ء

4.  نظامی،خلیق احمد : تاریخ مشائخ چشت ص175  مشتاق بک کارنر الکریم مارکٹ اردو بازار لاہور

5. مولانا عی میاں ندوی ؒ  : تاریخِ دعوت وعزیمت 3؍37 مجلس نشریات اسلام ،ناظم آباد کراچی،

تبصرے بند ہیں۔