ہندوستان میں صحافیوں پر حملے: سدباب ضروری

محمد فراز احمد

ہندوستان میں آئے دن صحافیوں پر ہورہے حملے انتہائی تشویشناک ہے، اس مضمون میں ان شاء اللہ ان حملوں کی طرف کچھ اشارات اور اس کے حل کے لیے کچھ نکات پیش کئیے جائیں گے، گوکہ یہ ناکافی ہوں گے لیکن ملک کے باشعور طبقہ کو مزید غور کے لیے آمادہ کریں گے۔

2017 میں گوری لنکیش کا قتل ہوا، جب وہ اپنے گھر کے صدر دروازے پر موجود تھی، بائک پر سوار نوجوان نے گولی ماری اور لنکیش اس دنیا کو الوداع کر گئی، ایسے ہی کئی واقعات دیگر صحافیوں کے ساتھ ہوئے جنھوں نے حکومت وقت سے سوال کیا، ان کی خامیوں کو رائے دہندگان کے سامنے پیش کیا۔ راعنا ایوب لکھتی ہیں کہ گوری لنکیش کے قتل سےکچھ دن قبل لنکیش نے میری کتاب "گجرات فائلس” کی کنڈی میں اشاعت کی تھی۔

کچھ دنوں سے ملک کے دو نامور صحافی راعنا ایوب اور رویش کمار کے خلاف ایک محاذ جاری ہے، جس میں دونوں صحافیوں کو موت کی دھمکی دی جارہی ہے جو کہ جمہوریت کے اس چوتھے ستون کی بقا کے لئے شدید نقصان دہ ہے۔

راعنا ایوب جو ایک آزاد صحافی ہے نے اپنی آٹھ ماہ کی خفیہ تفتیشی کتاب شائع کی جس میں ایوب نے موجودہ وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کی جانب سے کروائے گئے گجرات فسادات کو منظر عام پر لایا، جس کے بعد سے وہ دائیں بازو پارٹی کے نشانے پر ہے۔ راعنا ایوب لکھتی ہیں کہ وہ 2010 سے ان افراد کی جانب سے ذرائع ابلاغ اور دیگر ذرائع سے نشانہ پر ہے اور مختلف انداز میں ستائی جارہی ہے، جس میں انسانیت سوز الفاظ اور کسی بھی عورت کے لیے ناقابل سماعت باتیں موجود ہیں جن کا ذکر کرنا ناممکن ہے، کچھ دنوں قبل راعنا ایوب کی فوٹو کو ایک پورنوگرافک ویڈیو پر چسپاں کرکے راعنا کی شخصیت کو مجروح کیا گیا، یہ درحقیقت ملک کے ان افراد کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے کو حکومت کے خلاف کچھ سننا نہیں چاہتے۔

رویش کمار این ڈی ٹی وی کے بےباک صحافی ہے جو ہمیشہ عوام کے درمیان رہنا پسند کرتے ہیں اور زمینی رپورٹ پیش کرنے کے قائل ہیں، لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے وہ صرف اسٹوڈیو تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں جس کی وجہ ہے کہ ان کے حکومت سے سوال کرنے پر ان کو موت کی دھمکیاں ملنے لگیں ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ گزشتہ دو ہفتوں سے میرا موبائل لگاتار بج رہا ہے، رات کے دو بجے ہو یا دن کے تین بجے، وہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک منظم مہم ہے جس کا شکار ہورہا ہوں، واٹس آپ پر میرے متعلق جھوٹے بیانات تشہیر کئے جارہے ہیں اور میرے خلاف ایک مورچہ سنبھالا ہوا ہے۔

یہ دونوں صحافی جنھوں نے سچائی کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کی، آج ان کا یہ حال ہے ایک لڑکی کو جنسی ہر آسانی کے ساتھ موت کی دھمکی اور پاکستان تک مارتے گھسیٹتے لےجانے کی دھمکی دی جارہی ہے تو دوسرے فرد کو بھی موت کی دھمکی کے ساتھ اس کے گھر والوں کے خلاف مغلظات کا استعمال کیا جارہا ہے۔

آلٹ نیوز اور دھرو راٹھی نے اپنی رپورٹس میں بتایا ہے کہ ٹیوٹر پر جن افراد کی جانب سے Trolling کی جارہی ہے ان میں سے بیشتر افراد کو وزیر اعظم سمیت دیگر وزراء خود فالو کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان افراد کی پشت پناہی حکومت کررہی ہے۔

ملک میں ہورہے ان واقعات کے خلاف عالمی سطح پر بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن ملک کو چلانے والے وزیراعظم کی جانب سے ابھی تک لب کشائی نہیں ہوئی اور امید ہے کہ ہوگی بھی نہیں۔ گزشتہ دنوں UN رپورٹرس کی جانب سے بیان جاری کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ راعنا ایوب کو پروٹیکشن فراہم کریں، ان افراد نے گوری لنکیش کے قتل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ کے بعد ہم راعنا ایوب کی سیفٹی کے لئے سخت مطالبہ کرتے ہیں، مزید کہا کہ اگر راعنا کی صحافت حکومت کے خلاف بھی ہوں تب بھی راعنا کو حکومت کی جانب سے سکیورٹی فراہم کی جانی چاہیے کیونکہ وہ بحیثیت صحافی اپنی ذمہ داری ادا کررہی ہے۔

عالمی سطح پر ملک کی ایسی بدنامی پر بھی Trolls حکومت کی اندھی تعریف اور مخالفین کی توہین میں مصروف ہیں۔ Press Freedom Index کی حالیہ رپورٹ میں ملک کو 138 واں مقام حاصل ہے جو ملک میں آزادی رائے حق پر قدغن لگانے جانے کر پیش کرتا ہے۔

ان تمام کے علی الرغم یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس طرح کا زہر شہریوں میں کون بھر رہا ہے، تو اس کا جواب یہی ہے کہ یہی صحافت نوجوانوں کے اندر اس قسم کا زہر بھر رہی ہے۔ ملک میں تقریباً تمام ہی میڈیا چینلز ایسے ہیں جو سوائے ہندو مسلم ڈیبیٹ کے کچھ نہیں دکھاتے ہیں۔ حالیہ کوبرا پوسٹ کی تفتیش نے ان تمام کا پردہ فاش کردیا ہے اور بتادیا ہے کہ یہ میڈیا چینلز روپیوں کے لئے حکومت کے حق میں کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔

اس مسئلے کا سدباب کیسے کیا جائے یہ ایک اہم اور قابل غور نکتہ ہے، جب کبھی بھی ایسے واقعات پیش آتے ہیں تو ہر طرف سے وقتی احتجاج اور بیانات سامنے آتے ہیں اور کچھ دن بعد تھم جاتے ہیں لیکن ان ٹرال کرنے والوں کی بدتمیزی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اس قسم کے افراد کے لیے منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتیں جو وقتی بیانات دیتے ہیں اب انھیں چاہیے کہ وہ مستقل حل کی کوشش کریں اس سلسلے میں مسلم و غیر مسلم تمام جماعتوں کو بھی سامنے آنا ہوگا۔

اس مسئلے کا حل یہی ہوسکتا ہے کہ ہر سیاسی و مذہبی جماعت اپنے اپنے علاقے میں منظم و مستقل مہم چلائیں جس میں صوبے میں پائے جانے والے ان زہر آلود افراد کی ذہن سازی کی جائے اور ان نقصانات سے آگاہ کروایا جائے جو ان کی وجہ سے ملک کو پہنچ رہے ہیں۔ ان افراد کی ذہنیت کو سمجھتے ہوئے مختلف طریقہ کار اپنایا جائے، سیاسی مفادات کو انسانیت پر ترجیح دینے سے روکا جائے، انسانی اقدار کو پیش کیا جائے، انسانی جان و عزت کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے، تکریم انسانیت کے جذبے کو ابھارا جائے۔ درندگی کو ختم کرنے کے لیے انسانوں کے اندر کی انسانیت کو جگانا ضروری ہے اور اس کے لئے تقاریر سے کام چلنے والا نہیں ہے بلکہ انفرادی طور پر افراد سے ملاقات کرتے ہوئے ان کی ذہن سازی ہونی چاہیے، جلسہ جلوس وقتی اثر رکھتے ہیں لیکن انفرادی ذہن سازی کے دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اگر اس طرح کے کام کئیے جائیں تو ممکن ہے کہ ایسے افراد کی ذہن سازی ہوگی اور ملک میں نفرت کی سیاست کرنے والوں کو جگہ نہیں ملے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔