ہندوستان میں فقہ شافعی کی آمد اورضرورت

محمد صابر حسین ندوی

دراصل اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، جس کے اندر انسانی ضرورتوں اورقیامت تک پیش آمدہ مسائل کا حل موجود ہے، اسی نظام وحکمت کو سمجھنا یا بالفاظ دیگر شریعت اسلامیہ کی روشنی اور فہم و فراست کے ساتھ ؛ان کے اسرار ورموز کی غمازی کے بعد کسی مسئلہ کا حل یا تجویز پیش کرناجن میں عبادات، اور احکام قطعیہ کے علاوہ وہ علوم بھی ہیں جن میں حالات کے پیش نظر تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور ایسے میں اسے زمانے سے منطبق کرنا، لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا اور ان کی صحیح رہنمائی کرنا ’’فقہ‘‘ اور پیش کرنے والا ’’فقیہ‘‘ کہلاتا ہے، جیساکہ امام غزالیؒ نے اپنی معرکہ آراء کتاب ’’المستصفی‘‘ میں نقل کیا ہے:’’الفقہ عبارۃ عن العلم والفقہ۔ ۔۔۔لکن صار بعرف الفقھاہ عبارۃ عن العلم بالأحکام الشرعیۃ لأفعال المکلفین‘‘ یعنی فقہ کے لغوی معنی علم اور سمجھ کے ہیں ،۔۔۔۔۔لیکن بعد میں مکلف (عاقل، بالغ) انسانوں کے تعلق اللہ کی طرف سے دئے گئے احکام شریعت جاننے کا نام ’’فقہ‘‘ ہوگیا۔ (المستصفی۱؍۴)،اور احکام شریعت کا مطلب یہ بتایا گیا: ’’مالا یدرک لولا خطاب الشارع، سواء کان الخطاب نفس الحکم أو بنظیرہ المقیس ھو علیہ‘‘ یعنی خداوندتعالی کی طرف سے کتاب وسنت کے ذریعہ جواحکام انسان کودئے عطا کئے گئے ؛ان کی روشنی میں اجماع وقیاس کے ذریعہ سے اخذ کردہ ’’احکام شریعت‘‘ ہیں ،جن کا دائرہ پوری انسانیت کو محیط ہے(تلویح مع التوضیح :۱۱)۔

فقہاء کرام کرام نے قیاس ومقیس کے ذریعہ اور مسائل کی تخریج، ساتھ ہی ساتھ شریعت کا نچوڑ وعرق پیش کرنے میں بڑی جاں فشانی وجہد اور عمل پیہم کا ثبوت دیا ہے،حتی کہ مقاصد شریعہ تک کی رہنمائی فرمادی ہے، جسے علامہ شاطبی ؒ نے یوں نقل کیا ہے :’’اتفقت الامۃ۔ ۔۔علی أن الشریعۃ وضعت للمحافظۃ علی الضروریات الخمسۃ وھی الدین والنفس والنسل والمال والعقل ‘‘یعنی پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ شریعت کا اصل موضوع ان پانچ چیزوں کی حفاظت ہے :مدین،جان،نسل،مال اور عقل۔ (الموافقات للشاطبی:۱؍۳۸)،قرآن کریم میں خوداللہ رب العزت نے اس سلسلہ میں یہ اصول بتلایاہے کہ ’’یرید اللہ بکم الیسر ولایرید بکم العسر‘‘ (البقرہ:۱۸۵)یعنی اللہ آسانی (جو دین کے خلاف نہ ہو)کو چاہتے ہیں اور سختی کو پسند نہیں کرتے ہیں ،اور علوم اسلامی میں یہی وہ صنف ہے جو سب سے زیادہ تغیر پذیر علم ہے، یہی وجہ ہے کہ علوم فقہ کی تدوین وترتیب کرنے والے مجتہدین فی المذہب ائمہ اربعہ نے ایسے اصول وضوابط مرتب فرمائے ؛جن کو ان کے شاگرد ومنتسبین نے ایسی وسعت بخشی کہ زمانے کا ساتھ دینے اور ان کی روشنی میں مسائل کو حل کرنے پر قادر ہوگئے۔ تاریخ کے صفحات ان عالی مرتبت فقہائے عظام کی انتھک کوششوں اور اسلام کی حقانیت وابدیت کے ثبات میں قدم استقامت معروف ومشہور ہے، اس سلسلہ میں فقہ شافعی کو خاص مقام حاصل ہے۔

فقہ شافعی جس کی نسبت امام محمد بن ادریس الشافعی کی جانب ہے، جنہوں نے انبیاء ورسل کی سرزمین ملک شام کے مقام ’’غز‘‘ سنہ ۱۵۰ھ؁ میں زندگی کی صبح کی،جن کی شخصیت بڑی جامع تھی، انہیں غیر معمولی فہم قرآن حاصل تھا،بلندپایہ کے محدث تھے، تفقہ واجتہاد میں ید طولی حاصل تھا، عربی نظم ونثر میں ایسی مہارت کہ ادیب کہلائیں ! اور گویا کہ شعرو شاعری بھی ان کی زندگی کا ایک حصہ ہو، ورع، تقوی وزہد میں اپنی مثال آپ تھے،اللہ رب العزت نے انہیں اپنا نور نظر بنایا جس کی واضح مثال دنیا میں ان کی فقہی وفکری اجتہادکی مقبولیت ہے،فقہ شافعی کی ترویج واشاعت کے متعلق قاضی اطہر مبارکپوری ؒ اپنی مشہور کتاب ’’ائمہ اربعہ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’فقہ شافعی کی ابتدا ء مصر سے ہوئی، اس کے بعد حجاز وعراق میں اس کو فروغ ہوا، تیسری صدی ہجری میں بغداد، خراسان،توران، شام، یمن، ماوراء النہر،فارس، ہندوستان، افریقہ اور اندلس تک پہونچ گیا، مقدسی بشاری کے بیان کے مطابق اقلیم مشرق کے بڑے بڑے شہر’ کور،شاش،ابلاق،طوس،ابی ورد اور فسا‘ وغیرہ میں شافعی مسلک غالب تھا، موجودہ دور میں مصر اور فلسطین میں شافعیت کا غلبہ ہے، شام میں بھی شوافع کی خاصی تعداد ہے،اسی طرح کُردستان، آرمینیہ  پر شوافع کا اثر ورسوخ ہے، فارس کے اہل سنت میں اہل شوافع زیادہ ہیں ، ترکستان اور افغانستا ن میں بھی شوافع کی کچھ تعداد ہے، ہندوستا ن میں قدیم زمانے میں شوافع زیادہ تھے، سندھ میں ان کی اکثریت تھی، فی الحال ممبئی، کوکن، بھٹکل، کیرلا کی کل تعداد یا اکثریت شوافع کی ہے،اسی طرح تمل ناڈو اور کرناٹک کے بہت سے علاقوں میں شوافع کی خاصی آبادی ہے، حیدرآباد، بارکس میں شوافع کی بڑی تعداد آباد ہے جو نسلاً عرب ہیں ، اسی طرح اکولہ، عمرہ باد اور کشمیر وغیرہ میں کچھ قبائل آباد ہیں ، جزیرہ مالدیپ کی کل آبادی شافعی المسلک ہیں، سری لنکا، جاوا،سماترا،جزائر شرق الہند اور جزائر فلپائن میں شوافع زیادہ ہیں ، نیزانڈونیشیا، اور میلشیا میں کل اور تھائی لینڈ میں بڑی تعداد شوافع کی ہے، حجاز میں شوافع بکثرت آباد ہیں ، اہل عسیرِ عدن، یمن اور حضر موت میں اہل سنت شافعی ہیں ، عمان اور قطروبحرین میں بھی بہت سے لوگ اصلاً شوافع المسلک ہیں۔‘‘(ماخوذ از:ائمہ اربعہ’’ذکر امام شافعی‘‘ قاضی اطہر مبارکپوریؒ)۔

ہندوستا ن میں فقہ شافعی کی آمد کیسے ہوئی اور کیوں کر ہوئی ؟ اس سلسلہ میں عرب تجّار کی تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان میں ’’مسلمان تاجروں کے قافلے سمندری راستوں سے ساحلی علاقوں میں داخل ہوئے اور جنوب ہند، لنکا،مالابار،گجرات،تمل ناڈو وغیرہ میں عہد صحابہ ؓ میں ہی اسلام پہونچ چکا تھا، یہاں تک کہ جب ان کا تجارتی دائرہ وسیع ہو ا اور رفتہ رفتہ ساحلی علاقوں میں ان کی آبادیاں قائم ہوئیں اور ملک کے دوسرے باشندوں کے ساتھ ان کی سکونت اور ان کا رہنا، سہنا ہونے لگا تو انہوں نے ’کالی کٹ ‘کے نام سے ایک تجارتی منڈی قائم کرلی، مہاراجہ سامری معجزہ شق القمر کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوا اور لنکا کا راجہ سنہ چالیس؍۴۰ ہجری میں مسلمان ہوا، اورکالی کٹ کے علاقہ میں پہلی صدی ہجری میں مالک بن دینار کے ہاتھوں ایک مسجد کی سنگ بنیاد رکھی گئی، بہر حال اس علاقے کے راجاؤوں نے مسلمانوں کو اسلامی نطام کے ساتھ زندگی گزارنے کی پوری پوری آزادی دی۔

 اور خصوصا فقہ شافعی کی نشرواشاعت میں تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مخدوم(شیخ علی مہائمی شافعی)کا خاندان نویں ؍۹صدی ہجری ، پندرہویں ؍۱۵ صدی عیسویں کے اوائل میں مالابار کے علاقے میں پہونچا، کیرالا میں اس خاندان کے بانی شیخ قاضی زین الدین ابراہیم بن احمد یمن کے ایک علاقے ’’معبر‘‘ سے چل کر ریاست تمل ناڈو کے علاقے’’کایل پٹنم‘‘اور کیلککراکے راستے کو چین پہونچے، پھر وہاں پنّانی(مالابار) منتقل ہوئے، اور وہیں سکونت اختیار کی اور یہیں فقہ شافعی کا پھیلاو ٔہوا، یہی وجہ کہ ریاست کیرالا میں شوافع کی اکثریت ہے، اس کے علاوہ ریاست کرناٹک میں بھٹکل، اور ریاست مہاراشٹر میں کوکن کے علاقے میں شوافع بڑی تعداد میں ہیں ‘‘(فقہ شافعی ؛تاریخ وتعارف:۲۹۵)۔

 واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کے بدلتے اس پس منظر اور مسائل کی بدلتی نوعیت پر ایک طرف جہاں فقہ حنفی (جوکہ ہندوستان کے سواد اعظم کا مسلک ہے)پر نت نئے طریقوں سے کام ہوتارہا اور قابل رشک علمی ذخائر سے مالامال ہوتا رہا ہے؛تو وہیں حیرت کی بات ہے کہ یہاں فرزندان شوافع کی بڑی تعدادہونے کے باوجود خاطر خواہ وہ کام نہ ہوسکا جس کا یہ مسلک مستحق تھا، حتی کہ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتھم لکھتے ہیں :’’فقہ شافعی کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ  اسمیں برے بڑے محدثین وفقہاء پیدا ہوئے، انہوں نے اپنی تحریر سے اس دبستان فقہ کی خوب خوب خدمت کی اور فقہی تالیفات کے ڈھیر لگادئے، فقہ شافعی کی ان خدمات میں کم لیکن اہم بعض ہندوستانی مؤلفین کا حصہ بھی ہے، مگر افسوس کہ بر صغیر میں فقہ شافعی کا کما حقہ تعارف نہیں ہے،عوام تو کجا اہل علم بھی اس سے کم واقف ہیں ‘‘(فقہ شافعی :تاریخ وتعارف۔۸)،اس کا اندازہ ان حضرات علماء کرام کو بخوبی ہوگا جنہوں نے شمالی ہند کے علاقوں کا دورہ کیا ہو اور وہاں کی علمی درس گاہوں یا وہاں سے نکلنے والے مجلوں کا مطالعہ کیا ہو یا جدید مسائل کے حل کرنے والی اکیڈمیوں وغیرہ سے منسلک ہوں ،انہیں یہ بھی اندازہ ہوگا کہ بسااوقات فقہ شافعی کو ’’سلفیت واہل حدیث ‘‘سے تعبیر کیا جاتاہے۔

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آئے دن جدید مسائل کا سامنا ہے، بدلتے حالات وسیاست اور اخلاق کے آگے فقہائے متقدمین کی جزئیات کے انطباق کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہاہے، یا مستقل فتاوی کی تیاری یا اس سلسلہ میں رجال سازی کی ضرورت ؛بھٹکے کو راہ اور پیروں کو زمین کے مثل ہوتی جارہی ہے،یا یوں کہئے کہ جسم کو سر کی طرح محسوس کیا جارہا ہے، نیز ہندوستان میں فقہ شافعی کے تعارف وتدوین کے ساتھ ساتھ مذہب میں تصلب لیکن تعصب سے دوری کا پیغام عام کرنے اور جدید مسائل کا حل خصوصاً فقہ الاقلیہ کی روشنی میں انجام دینے کی فکر لازم ہوتی جارہی ہے، جسے نہ صرف ملک وبیرون ملک میں مقیم شوافع رہنمائی پائیں ؛بلکہ اکیڈمیاں بھی اسے اپنے فیصلوں وتجاویز میں شامل فرمائیں اور بلا کسی کی مزاحمت ومقابلہ کے علم وعمل کا یہ کارواں رواں دواں ہو۔

تبصرے بند ہیں۔