ہندوستان میں گوشت خوری

محمد انصارالحق قاسمی

ہندوستان میں شدت پسند جماعت کے برسراقتدار آتے ہی فرقہ پرست عناصرننگے ناچ کرنے لگے ہیں ،ملک کے آئین اورقانون کوبالائے طاق رکھکر بے دریغ قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ۔ان فرقہ پرست عناصر کی پشت پناہی کہیں نہ کہیں حکمراں جماعت کررہی ہے۔ملک کے ہر معاملات کو ہندومسلم زاوئیے  سے تولنے کی کوشش کررہے ہیں ۔اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیراعلیٰ بنتے ہی چوہا،بلی کاکھیل شروع ہوگیاہے۔دنیا میں جہاں کہیں بھی اقلیت اوراکثریت کامعاملہ ہے وہاں کی اقلیت برادری قانون اورعدالت پرہی بھروسہ کرتی ہے۔یہی حال ہندوستانی مسلمانوں کا ہے ، مسلم رہنما الیکشن کے وقت تو اپنی ذاتی پہچان ایک مسلم لیڈرکے طورپرکراتاہے کہ شاید برادری کے ناطے مسلمان ووٹ میری جھولی میں ڈال دے،لیکن جب فتحیاب ہوکر اسمبلی یاپارلیمنٹ میں پہنچتاہے تو اپنے پارٹی کاوفادارثابت کرنے کوشش کرتاہے۔بالآخرہندوستانی مسلمان قدرغنیمت عدلیہ پر ہی توکل کرکے انصاف اوراعتدال کی امیدلگائے رہتاہے۔اب اس تپش سے قومی دارالحکومت سے ملحق ریاستیں زیادہ متاثر ہیں ۔ازیں قبل مہاراشٹر،گجرات،چھتیس گڑھ،راجستھان میں بیف پربی جے پی پابندی لگاچکی ہے۔بہار،بنگال اورکیرلاکاالیکشن بی جے پی بیف کے نام پرلڑی مگراس حربے میں فرقہ پرست جماعت کو کامیابی نہیں ملی۔

فی الحال ملک میں دومسئلے موضوع بحث ہیں ، بابری مسجد اور گئو کشی اول الذکر کامعاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے اورہندوستانی مسلمانوں کاموقف بھی عدلیہ کے فیصلہ پرمنحصر ہے۔ انہیں دو ایشوز کی بنیاد پر مرکزی حکومت اقتدارپر قابض ہے، ظاہر سی بات ہے کہ ایک جماعت کو ان مدعوئوں کی بنیاد پر اقتدارملی ہے پھر وہ اپنے حوارین اورچاہنے والوں کو بلاجھجک فساداورتخریب کاری کی اجازت کیوں نہیں دیں گے۔گوشت خور ی پر معاملہ ہندوستانی عوام کا مختلف ہوجاتا ہے، جب اس پر غورکریں گے تو معلوم ہوگاکہ ملک میں جہاں کہیں ہندو مسلم فسادات ہوئے ہیں اور جن لوگوں نے ظلم و ستم کا ننگا ناچ کیا ہے، وہ سب کچھ ان لوگوں کے ہاتھوں ہوا ہے جو سبزی خور ہیں اور گوشت خوری کے مخالف ہیں ۔

گوتم بدھ اور حضرت مسیح کو عدم تشدد اور رحم دِلی کا سب سے بڑا داعی تصور کیا جاتا ہے، لیکن کیا یہ برگزیدہ شخصیتیں گوشت نہیں کھاتی تھیں ؟ حالانکہ یہ سبھی گوشت خور تھے۔ گوتم بدھ نہ صرف گوشت خور تھے بلکہ دم آخر میں بھی گوشت کھاکر ہی ان کی موت ہوئی تھی اور ہٹلر سے بھی بڑھ کر کوئی تشدد، جور و ستم اور بے رحمی کا نقیب ہوگا؟ لیکن ہٹلر گوشت خور نہیں تھا، صرف سبزی کو اپنی غذا بناتا تھا۔مسلم قوم دنیاکی نظر میں ہمیشہ موضوع بحث رہی ہے، ان کے عقائد، نظریات، رسومات ،طریق زندگی، تہذیب و تمدن ۔ بقر عید گذرے چند روز ہوئے عالم اسلام میں اس عید کو خدا کی راہ میں جانور کو ذبح کرنا بطور عبادت رائج ہے۔ ہندوبرادری کاکہناہے کہ جانور کو ذبح کرنا بے رحمی ہے ، جیو ہتیا ہے ،دوسرے یہ کہ ان جانوروں مثلاً گائے ، بھینس کو ذبح کرنے سے انسانی ضروریات مثلاً دودھ ، گھی وغیرہ میں کمی آئے گی اور ان کی قیمتیں بڑھ جائے گی۔ تیسرے گوشت کھانے والے کی طبیعت متشدد ہوجاتی ہے اور وہ تشدد اور ظلم پر آمدہ ہوتا ہے جس سے انسانیت کا امن پارہ پارہ ہونے کا خوف ہے وغیرہ وغیرہ۔جو لوگ گوشت خوری کو منع کرتے ہیں ، ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ زندہ وجود کو قتل کرنا ہے، یعنی یہ ’’جیو ہتیا‘‘ کا باعث بنتا ہے، لیکن غور کیا جائے تو اس بات کا سمجھنا دشوار نہیں کہ کائنات کا فطری نظام یہی ہے کہ خالق کائنات نے کم تر مخلوق کو اپنے سے اعلیٰ مخلوق کے لئے غذا اور وسیلہ حیات بنایا ہے۔

غور کرو کہ کیا اس جیوہتیا سے بچنا ممکن بھی ہے؟ آپ جب پانی یا دودھ کا ایک گلاس اپنے حلق سے اْتارتے ہیں تو سینکڑوں جراثیم ہیں جن کے لئے آپ اپنی زبان حال سے پروانہ موت لکھتے ہیں ، پھر آپ جن دواؤں کا استعمال کرتے ہیں ، وہ آپ کے جسم میں پہنچ کر کیا کام کرتی ہیں ؟ یہی کہ جو مضر صحت جراثیم آپ کے جسم میں پیدا ہوگئے ہوں اور پنپ رہے ہوں ، ان کا خاتمہ کردیں ۔ پس ’’جیو ہتیا‘‘ کے وسیع تصور کے ساتھ تو آپ پانی تک نہیں پی سکتے اور نہ دواؤں کا استعمال آپ کے لئے روا ہوسکتا ہے۔پھر آج کی سائنس نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ جس طرح حیوانات میں زندگی اور روح موجود ہے، اسی طرح پودوں میں بھی زندگی کار فرما ہے اور نباتات بھی احساسات رکھتے ہیں ۔ خود ہندو فلسفہ میں بھی پودوں میں زندگی مانی گئی ہے۔

سوامی دیانندجی نے ’’آواگمن‘‘ میں روح کے منتقل ہونے کے تین قالب قرار دیئے ہیں : انسان، حیوان اور نباتات۔ یہ نباتات میں زندگی کا کھلا اقرار ہے تو اگر ’جیوہتیا‘ سے بچنا ہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچنا ہوگا۔ گویا اس کائنات میں ایسے انسانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں جو مکمل طور پر جیوہتیا سے بچ کر جینا چاہتے ہوں ۔ انسانی خوراک کا بڑا حصہ جانور ہی سے پورا ہوتا ہے، بعض بہت ٹھنڈے یا بہت گرم صحرائی علاقے ہیں کہ وہاں کھیتی نہیں کی جاسکتی۔ وہاں گوشت ہی انسانی غذا کے کام آتے ہیں ، خود جسم انسانی میں بعض ایسے عناصر ہیں کہ ان کی کمی کو بغیر گوشت کے پورا نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک جانوروں کی افزائش نسل کرکے بڑے پیمانے پر ان کے گوشت برآمد کرتے ہیں اور اس طرح وہ کثیر اقتصادی منافع حاصل کرتے ہیں ۔ اگر ہمارے ملک میں اس پر روک لگادی گئی تو یہ ملک و قوم کو گوشت اور چرم وغیرہ کی برآمدات کے ذریعہ حاصل ہونے والی کثیر آمدنی میں شدید خسارہ کا باعث ہوگی۔

 ہندو بھائیوں کے یہاں یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ ان کے یہاں گوشت خوری سے منع کیا گیا ہے، لیکن یہ محض اپنے مذہب اور اپنی تاریخ سے ناواقفیت کی بناء ہے۔ خود ویدوں میں جانوروں کے کھانے، پکانے اور قربانی کا تذکرہ موجود ہے۔ رگ وید میں ہے: ’’اے اندر! تمہارے لئے پسان اور وشنو ایک سو بھینس پکائیں ‘‘۔ یجر وید میں گھوڑے، سانڈ، بیل، بانجھ گایوں اور بھینسوں کو دیوتا کی نذر کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ منوسمرتی میں کہا گیا ہے: ’’مچھلی کے گوشت سے دو ماہ تک، ہرن کے گوشت سے تین ماہ تک، بھیڑیے کے گوشت سے چار ماہ تک اور پرند جانور کے گوشت سے پانچ مہینے تک پتر آسودہ رہتے ہیں ۔خود گاندھی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایک زمانے تک ہندو سماج میں جانوروں کی قربانی اور گوشت خوری کا عمل عام تھا اور ڈاکٹر تاراچند کے بقول ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے بھی ہوا کرتے تھے۔اور گاندھی نے تجسس کے خاطر لندن میں بیف کاجوانی میں استعمال کیاہے۔

اب ہم اصل بحث کو لیتے ہیں ۔ طبی لحاظ سے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچی ہوئی ہے کہ گوشت خوری کا اثر انسان میں شجاعت،بہادری ، جوش و خروش اور سختی اور اسی قسم کی دوسری صفات کے رنگ میں ظاہر ہوتاہے اور سبزیوں کااثر نرمی ، حلم اور صبرو برداشت اور اسی قسم کے دوسرے صفات کے رنگ میں ظہور پذیرہوتاہے۔یہ ایک طبی تحقیق ہے اور صرف ایک تھیوری کے طورپر نہیں بلکہ مشاہدہ اور تجربہ کے معیار سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے۔ حیوانات میں دیکھ لو گوشت خور اور سبزی خور حیوانات علی الترتیب انہی صفات سے متصف نظرآئیں گے۔ اہل علم نے اس کے متعلق بڑی تحقیقاتیں کی ہیں اور نہایت مفید معلومات اور تجارب کا ذخیرہ پیدا کیا ہے۔ جانوروں سے ہٹ کر انسان پر نظر ڈالیں تویہاں بھی یہ فرق نمایاں طورپر نظر آتاہے یعنی اگر گوشت خوری پر ناجائز اور نامناسب زور دینے والی اقوام میں بہادری، جرأت، جوش اور سخت دلی کی صفات نظرآتی ہیں تو صرف سبزی کھانے والی اقوام میں یہ صفات قومی اخلاق کے طورپر مفقود ہیں اور ان کی جگہ نرمی ، حلم، برداشت اور تحمل کی صفات پائی جاتی ہیں ۔یعنی گوشت خور اقوام کا جب کبھی صرف سبزی کھانے والی اقوام سے مقابلہ پڑاہے تو گوشت کھانے والوں کاپلّہ بھاری رہاہے اوروہ ہمیشہ غالب آئے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی اور وجوہات پیدا ہو گئی ہوں جنہوں نے اس اثر کو وقتی طورپر دبا دیاہو۔ یہ باتیں صرف دعویٰ کے طور پرنہیں ہیں بلکہ ان کی مدد میں تاریخی شہادتیں اور زمانہ حال کی علمی اور طبی تحقیقاتیں موجود ہیں ۔ گائے کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا جاتا ہے اور اس کی کھال سے جوتے، پرس اور بیلٹ وغیرہ بنتے ہیں ۔

لوگوں میں یہ غلط تاثر ہے کہ ہندوستان میں صرف مسلمان ہی ہیں جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں ۔ یہ بالکل ہی بے بنیاد خیال ہے کیونکہ اس کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے۔قدیم ہندوستان کے ویدک ادب میں ایسی کئی شواہد ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں بھی گائے کے گوشت کا استعمال کیا جاتا تھا۔ جب یگیہ (ایک مذہبی تقریب) ہوتی تھی تب بھی گائے کو قربان کیا جاتا تھا۔اس وقت یہ بھی رواج تھا کہ اگر مہمان آ جائے یا کوئی خاص شخص آ جائے تو اس کے استقبال میں گائے کوذبحہ کیا جاتا تھا۔شادی بیاہ کے رسم میں یا پھر گھر باس (نئے گھر میں آباد ہونے کی رسم) کے وقت بھی گائے کا گوشت کھلانے کا رواج عام ہوا کرتا تھا۔ یہ عہد گپت (تقریبا 550- 320 عیسوی) سے پہلے کی بات ہے۔گائے ذبح کرنے پر کبھی پابندی نہیں رہی ہے لیکن پانچویں صدی سے چھٹی صدی عیسوی کے آس پاس چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے وجود میں آنے اور زمین عطیہ کرنے کا رواج عام ہوا۔اسی وجہ سے کاشت کاری کے لیے جانوروں کی اہمیت بڑھتی گئی۔ بطور خاص گائے کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ اس کے بعد کی مذہبی کتابوں یہ باتیں سامنے آئیں کہ گائے کو ذبحہ کیوں نہیں کرنا چاہیے۔رفتہ رفتہ گائے کو نہ مارنا ایک نظریہ بن گیا،پانچویں اور چھٹی صدی تک دلِتوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی تھی۔ اس وقت برہمن مذہبی اصولوں میں یہ بھی ذکر کرنے لگے کہ جو گائے کا گوشت کھائے گا وہ دلِت ہے۔

چونکہ برہمن اوردلت کے خوردونوش معاملہ یکساں تھا،امتیازی پہلوبرقراررکھنے کیلئے آریہ سماج نے یہ سازش رچی کہ گائے کھاناصحیح نہیں ہے۔اسی دوران اسے قابل تعزِیر بنایا گیا یعنی جس نے گائے کو ذبح کیا اسے کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔پھر بھی ایسی سزا نہیں تھی کہ گو کشی کرنے والے کی جان لی جائے، جیسا کچھ آج لوگ کہہ رہے ہیں ۔ لیکن گئوکشی کو برہمن کے قتل کے زمرے میں رکھا گیا۔اس کے باوجود اس کے لیے کسی سخت سزا کا قانون نہیں تیار کیا گیا۔سزا کے طور پر صرف اتنا طے کیا گیا کہ گائے کوذبحہ کرنے والے کو برہمنوں کو کھانا کھلانا پڑے گا۔مذہبی کتب میں یہ کوئی بڑا جرم نہیں ہے اس لیے زمانہ قدیم میں اس پر کبھی پابندی نہیں لگائی گئی۔البتہ اتنا ضرور ہوا کہ مغل بادشاہوں کے دور میں کہ راج دربار میں جینیوں کا عمل دخل رہا اس لیے بعض مخصوص موقعوں پر گائے ذبحہ کرنے پر پابندی رہی۔سارا تنازع 19 ویں صدی میں شروع ہوا جب آریہ سماج کی تشکیل ہوئی اور سوامی دیانند سرسوتی نے ’گورکشا‘ کے لیے مہم چلائی۔اور اس کے بعد ہی یہ امتیاز سامنے آیا کہ جو ‘بیف’ فروخت کرتا اور کھاتا ہے وہ مسلمان ہے۔اسی کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی کا بھی آغاز ہوا۔ اس سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوتے تھے۔ویسے گوونش کی ایک پوجا ہوتی ہے جس کا نام ’گوپاشٹمی‘ ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ریاست یعنی حکومت کھانے پر اپنا قانون چلا سکتی ہے یا نہیں ؟جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ملک کی اکثریت کے جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بیف پر پابندی لگانا چاہیے تو آپ انہی میں سے ایک طبقہ کے جذبات کو ٹھیس بھی توپہنچا رہے ہیں ۔وہیں ایک دوسرے طبقے کے کھانے پینے پر آپ قدغن بھی لگا رہے ہیں ، دلت اورقبائیلی بیف کھاتے ہیں ۔کیرالہ میں برہمنوں کو چھوڑ کر باقی سب کھاتے ہیں ۔

کشمیر گھاٹی میں برہمن بیف کھاتے ہیں ،تمل ناڈو میں بھی ایک بڑا طبقہ ہے جو بیف کھاتا ہے۔نیپال میں ہندوبرادری بیف کھاتی ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ان مذبح  (سلاٹر ہائوس) کوکیوں نہ بندکردیاجائے جوکہ زیادہ تر 90فیصدسلاٹرہائوس غیر مسلموں کے ہیں ،70 فیصدہندوستانی گوشت خورہیں ان میں 50 فیصدکون لوگ ہیں ؟۔الکبیر ہندوستان کی سب سے بڑی بیف کمپنی ہے جس کامالک جینی ہے۔دہلی ومضافات میں تمام پولٹری فارم جاٹ ،گوجروں کے ہیں، شاید مسلمانوں کاجرم اتناہے کہ وہ ریٹیل کاکام کرتے ہیں ۔ بیف کمپنی سے چندہ بی جے پی نے لی، مودی کے دورحکومت میں بیف ایکسپورٹ کاگراف بڑھاہے ۔واہ! گڑ کھائے گلگلا سے پرہیز۔مختلف مذاہب کی تقلید کرنے والے ملک میں کسی خاص مذہب کے نظریہ کونافذ کیاجائے یہ کہاں کی جمہوریت ہے کہ عبادت، کھانا پینا اوررہن سہن کانظام دوسرے مذہب پر ہواورملک کے آئین وقانون کوبالائے طاق رکھ دیاجائے؟ہندوستانی عوام اتنا سمجھ لیں یہ حکمرانی کا ایک انداز ہے جوفرقہ پرستی پرمبنی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. سید آصف جلال کہتے ہیں

    ہندو مذہب کے جمود کی وجہ ہی یہی ہے وہ سبزی خور ہیں، ان میں ہمت، جرات و بہادری کی کمی ہے جس بنا پر بزدلی کا مادہ ان میں زچ بچ گیا ہے

تبصرے بند ہیں۔