ہندوستان کا مظلوم مسلمان : گھر واپسی سے گئو  رَکشا تک

 اشرف لون

1947 ء میں ہندوستان آزاد ہوا اور ہندوستان کے آزاد ہونے کے ساتھ ہی پاکستان وجود میں آگیا ۔پاکستان کی بنیاد بظاہراس وجہ پر ڈالی گئی کہ مسلمانوں  کا کلچر و تہذیب ہندوئوں سے الگ ہے لیکن بباطن اس تقسیم کی بہت ساری وجوہات تھیں ۔ غیر منقسم ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کی بغاوت کے بعد انگریزوں کے ظلم و ستم کا سب سے زیادہ شکار مسلمان ہی ہوئے کیوں کہ انگریزوں کے نزدیک اس بغاوت میں مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وجہ یہ کہ حکومت مسلمانوں کی ہی تھی اور دہلی کے تخت پر ایک مسلم بہادر شاہ ظفر ہی بیٹھا تھا جس نے اس بغاوت کی رہنمائی بھی کی۔مسلمانوں پر بڑھتے مظالم کو دیکھ کر سرسید احمد خان اور اُن کے ساتھیوں نے علی گڑھ تحریک شروع کی ۔سرسید اور ان کے رفقاء نے مسلمانوں میں تعلیم اور سیاسی سطح پر بیداری پھیلانے میں اہم رول ادا کیا۔ہندوئو ں کو لگ رہا تھا کہ ان کے مدمقابل کوئی نہیں ، کو اس بات سے  بہت پریشانی ہوئی اور انہوں نے اس تحریک اور سرسید کے پروگراموں کی مخالفت کرنی شروع کی۔اردو ،ہندی کاجھگڑا شروع ہوا اور ہندو سماجی و سیاسی رہنما کھلے عام اُردو کے مخالف ہوگئے۔سرسیدکو،جو اب تک ہندو مسلم اتحاد کی بات کر رہے تھے اور مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کے لیے کہتے تھے اور صرف تعلیم پر زور دیتے تھے،یہ سب دیکھ کر بہت رنج ہوا۔سرسید کو اب محسوس ہونے لگا کہ ہندو اور مسلمانوں میں دن بہ دن دوریاں بڑھتی جارہی ہے حالانکہ وہ آخر وقت ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتے رہے ۔اس کے بعد ہندوستانی سیاست میں کیا ہوا وہ سب تاریخ کی کتابوں میں محفوط ہے۔ہندو مہا سبھا، راسٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی بنیاد  پڑنے کے ساتھ ہی ہندوستانی معاشرے اور سیاست میں دن بہ دن تنائو پیدا ہوتا گیا اور مسلمانوں کو ہر طرف سے الگ تھلک کرنے کی کوشش کی گئی اور بالآخر کانگریس میں بھی اس کے اثرات دکھائی  دینے لگے جس کا اثر مسلم لیگ کی پالیسیوں پر بھی پڑنے لگا اور اس طرح پاکستان کا نظریہ وجود میں آگیا جو بالآخر پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اپنی تکمیل کو پہنچ گیا۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کے اطراف میں لاکھوں لوگوں کو ہجرت کے کرب سے گزرنا پڑا اور اس کے ساتھ ہی خونین فسادات ہوئے۔ہندوستان سے لاکھوں مسلمانوں نے ہجرت کی لیکن تاریخ کی اس بڑی ہجرت کے بعد بھی ہندوستان میں کروڑوں مسلمان رہ گئے جن کی یہاں اپنی زمینیں  اور جائدادیں تھی، یادیں تھی اور اپنی ایک تہذیب تھی۔

تقسیم کا ایک بڑا لمیہ یہ ہے کہ اس دوران جو فسادات رو نما ہوئے اُن کی گونج اور ان کا اثر آج بھی ہندوستانی معاشرے اور اس کی سیاست پر دیکھا جاسکتا ہے۔وہ اس طرح کہ ۱۹۴۷ء کے بعد جمہوریت پسند ہندوستان میں ہندو مسلم سینکڑوں فسادات ہوئے جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے ۔ان میں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔اکثر فسادات میں پولیس نے خاموش تماشائی کا کردار اد ا کیا اور کچھ میں تو پولیس نے پورا ہندو انتہا پسندوں اور بلوائیوں کا ساتھ دیا۔

اگرچہ 1947سے کرہندوستان میں فسادات میں ہزاروں مسلمان مارے گئے ، یہاں تک کہ بابری مسجد کو بھی منہدم کیا گیا لیکن اس دوران میں بھی ہندوستانی مسلمانوں نے جمہوریت میں اپنا یقین دکھاتے ہوئے اپنی دیش بھکتی کا ثبوت دیا اور کبھی بھی انتہا پسندی کا وہ رُخ نہیں اپنایا جہاں پہنچ کر مفاہمت کے سارے دروازے بند ہوتے ہیں ۔ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے ملک کے  لیے عالمی سطح  پرنام کمایا اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ہندوستان ایک جمہوریت والا ملک ہے جہاں سب فرقوں اور مذاہب کے لوگوں کو آزادی اور عزت کے ساتھ جینے کا حق ہے، بھلے ہی اس دوران ہندوستانی مسلمانوں کواپنے ہی گھر میں بہت سی ازیتوں اور بے عزتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن ہندوستان کی سیاست اور معاشرے نے اُس وقت زبردست کروٹ لی جب 2014ء میں  ہندو بنیاد پرست سیاسی تنظیم  بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP) اقتدار میں آگئی۔یوں تو بی جے پی نے اقتدار میں آنے سے پہلے تمام بھارتی فرقوں سے اچھے دن لانے کے وعدے کیے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی اس نے اپنی تمام تر قوت بھارت کو ایک’’ ہندو راشٹر‘‘ میں  تبدیل کرنے پر لگا دی ہے اور اس کا سب سے پہلا نشانہ ہندوستان کا مسلمان رہا ہے۔

حکومت کا واضح چہرہ تب سامنے آیا جب دسمبر 2015میں آگرہ میں غریب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ’’گھر واپسی‘‘ پروگرام  کے تحت ہندو بنانے کی کوشش کی گئی۔’’گھر واپسی ‘‘ نظریے کے تحت ہندوستان کا مسلمان اصل میں پہلے ہندو تھا اور مسلمانوں کے دور حکومت میں وہ مسلمان بن گیا۔اس طرح بعد کے مہینوں میں یہ سلسلہ لگاتار چلتا رہا جو آج بھی جاری ہے۔ ظاہر سی بات ہے اس دوران حکومت ہند نے اس معاملے میں چُپی سادھ لی ہے۔ نتیجہ یہ کہ مسلمانوں کو یہ کالونی چھوڑنی پڑی اور وہ محفوظ جگہوں کا رُخ کرنے لگے۔اور اصل ملزم  اور آر ایس ایس کے رُکن  نند کشوربالمکی کوجلد ہی جیل سے ضمانت پر رہا کیا گیا۔بالمکی نے جیل سے باہر آتے ہی بیان جاری کیا کہ ’’گھر واپسی ‘‘ کا پروگرام جاری رہے گا۔یوگی ادتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے کے ساتھ ہی اس’’گھر واپسی ‘‘ پروگرام میں پھر سے سرعت آگئی ہے۔

’’لَو جہاد‘‘(Love Jehad) کو بھی بطور ایک ہتھیار کے طور پر مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔لو جہاد کے معنی کہ مسلمان ہندو لڑکیوں کو بہلا بھسلاکر دام محبت میں گرفتار کرکے پھر انکو مسلمان بناتے ہیں اور شادی کرتے ہیں ۔اور اس طرح بعض ہندو انتہا پسند تنظیمیں اسے ہندوئو کو مسلمان بنانے کی ایک سازش کے طور پر دیکھتے ہیں ۔اس کو بہانہ بنا کر بہت سے مسلمان نوجوانوں کو تششد کو نشانہ بنایا گیا ۔اپریل میں جارکھنڈ کے گُملا ڈسٹرک میں ’’لَو جہاد‘‘  کے الزام میں ایک مسلم نوجوان محمد شکیل کو پیڑ کے ساتھ باندھ کر اتنا پیٹا گیا کہ بعد میں اس کی موت واقع ہوئی۔

 اس کے بعدہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے گائے کے گوشت (Beef) کو اہم مدعا بنا کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور اس دوران میں کئی ایک مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔سب سے پہلے ایک بڑے واقعے میں ریاست اتر پردیش کے ضلع دادری میں ۵۰ سالہ مسلمان محمد اخلاق کو اس بے بنیاد الزام پر قتل کیا گیا کہ اُس نے اپنے فِرج fridge)) میں گائے کا گوشت چھپا رکھا ہے۔اخلاق کے متعلق مندر میں اعلان کیا گیا اور مشتعل ہجوم نے پیٹ پیٹ کر محمد اخلاق کو رات کے اندھیرے میں قتل اور اس کے بیٹے کو زخمی کردیا۔اسی طرح گائے اور اس کے گوشت کو لے کر بہت سے واقعات میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا  اور قتل کیا گیا۔

اسی طرح راجستھان میں اسی سال اپریل میں ’’ گوئو  رکشکوں ‘‘ (گائے محافظوں ) نے ایک ٹرک میں گائے لے جارہے مسلمانوں کو سر عام تشدد کا نشانہ بنایا ۔اس تشدد کے نتیجے میں ایک مسلمان پہلو خان کی موت واقع ہوئی ۔یاد رہے کہ ناانصافی کی انتہا کرکے پولیس نے گائے کو لے جارہے مسلمانوں کو خلاف ہی ایف آئی آر FIR)) درج کرائی۔افسوس کی بات یہ ہے مختلف سیاسی رہنمائوں نے اس واقعے اور گئو رکشکوں کی مذمت کرنے سے زیادہ پہلو خان کو مجرم قرار دیا۔

ہندوستان کی ایک اور ریاست آسام میں اسی سال 30 اپریل کو پرتشدد ہجوم نے دو مسلمانوں ، ابو حنیفہ اور ریاض الدین علی کو گائے کے چوری کے الزام میں قتل کیا۔پولیس کے بیان کے مطابق گائوں والوں نے گائے کے چوری کے الزام میں ان دونوں کا کھیتوں میں پیچھا کیا اور پھر لاٹھیوں سے اتنا پیٹ ڈالا کہ ان کی موت واقع ہوگئی۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم (Human Rights Watch) کے مطابق  2014سے ہندوستان میں قوم پرست ہندو تنظیم بھارتی جنتا پارٹی مرکزی حکومت میں آنے کے ساتھ ہی مسلمانوں اور دلتوں پر گائے کو گوشت کے بیچنے، خریدنے یا مارنے کی افواہوں پر ، حملوں میں سرعت آئی ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی ریاستوں اتر پردیش ، اندھرا پردیش ،بہار چھتیس گڑھ ،گجرات ، اڑیسہ ،کرناٹک ، مدھیہ پردیش  ، مہاراشٹر اور راجستھان میں مسلم اور دوسری اقلیتیوں پر سب سے زیادہ حملے ہوئے ۔یاد رہے کہ ’’گئو رکشکوں ‘‘ کے ان حملوں میں ایک 12 سالہ بچہ میں مارا گیا ۔حال ہی میں ہریانہ میں دہلی سے ٹرین میں آرہے ہیں چار مسلمان نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بناگیا اور پھر سفر کے دوران کسی اسٹیشن پر پہنچتے ہی ٹرین سے باہر پھینک دیا گیا۔ان میں سے بعد میں ایک کی موت واقع ہوئی۔ان میں ایک کے مطابق ٹرین میں موجود پولیس اہلکاروں نے مشتعل ہجوم سے بچانے سے انکار کیا۔

حال ہی میں ریاست گووا Goa)) میں ’’قومی ہندو کنکلیو‘‘ میں سادھوی سرسوتی اور رام شنڈے نے ہندوستان کے آئین کی توہین کرتے ہوئے کہ کہا کہ ’’اصل آئین وہی ہے جو رام اور کرشن نے لکھا ہے‘‘۔سادھوی سرسوتی نے  کھلے عام گائے کا گوشت (Beef)  کھانے والوں اور سکیولر پسندوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کو کہا یہاں تک کہ انہیں پھانسی پر لٹکائے جانے کی بات کی ۔اس کے ساتھ ساتھ سادھوی نے یہ بھی کہا کہ ’لَو جہاد ‘‘( Love Jehad) سے بچنے کے لیے ہندئوں کو خود کو تھیاروں سے لیس کرنا چاہیے۔

ہندوستان میں ان حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ۔سیاسی، تعلیمی اور معاشرتی بھگو اکرن سے ہندوستان بکھرائو کی طرف گامزن ہے۔تعلیمی اداروں کے نصاب کو نئے سے ترتیب دیا جارہا ہے۔ یونیورسٹیوں اور دیگر بڑے تعلیمی اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر سنگھ پریوار  یا اس نظریہ سے وابستہ افراد کی تقرری عمل میں لائی جارہی ہے۔ وہیں دوسری طرف ان تعلیمی اداروں میں بہت سے دلت اور مسلمان  استادوں کی تقرری پر بلا وجہ روک لگادی جارہی ہے۔ بہت سے مفکروں اور دلت و سماجی اصلاح پسندوں کا قتل  اور میڈیا پر قدگن نہ صرف ہندوستان کی جمہوریت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے بلکہ حالیہ واقعات نے  ہندوستان کی بچی کھچی جمہوریت کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔  وہیں دوسری طرف محض  اپنے پڑوسی ملک پاکستان کرکٹ ٹیم کی جیت پر ہلکی خوشی منانے پر مسلمانوں پر’’دیش دروہی ‘‘ کا الزام لگایا جاتا ہے۔الیکشن سے پہلے جن اچھے دنوں کا وعدہ کیا گیا تھا وہ دیوانے کا خواب ثابت ہوا۔بہت سے تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں اس وقت ایمرجنسی جیسی صورت حال ہے اور اگر ہندوستانی سیاست، معاشرت و سماج کا اسی رفتار سے’ بھگوا کرن‘ رہا  اور اس کی مزاحمت و م خالفت نہیں کی گئی تو آنے والے دنوں میں اس کے مزید بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں اور ساتھ ہی اس’ بھگوا کرن ‘کا اثر پوری اکیسویں صدی پر رہے گا جو ہندوستان میں ایک طرح کی خانہ جنگی جیسی صورت حال پیدا کرسکتا ہے اور اس صورت حال کے بھیانک نتائج اس ملک میں رہ رہی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ہی  زیادہ تر بھگتنے پڑ یں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔