ہندوستان کی آبادی میں  مسلمانوں  کا تناسب:ایک جائزہ

  ہندوستان میں  ریاستی سطح پرآبادی کے تناسب میں  سب سے زیادہ جموں  و کشمیر میں  68.31%مسلمان آباد ہیں۔ اس کے برخلاف ریاستی سطح ہی پر سب سے کم میزورم میں  1.35%مسلمان ہیں۔ دوسری جانب آسام، مغربی بنگال اور کیرلہ میں  25%سے زیائد مسلمان موجود ہیں۔ وہیں  15سے20فیصد والی ریاستیں بہار اور اترپردیش ہیں  تو وہ ریاستیں  جن میں  10سے15فیصد مسلمان رہتے ہیں  اُن میں  جھارکھنڈ،اتراکھنڈ،کرناٹک،دہلی اور مہاراشٹر شمار کیے جاتے ہیں۔ لکش دیپ جو ہندوستان کا حصہ ہے وہاں  آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔ بلکہ کہا جائے کہ لکش دیپ،ہندوستان کا مکمل طور پر مسلم اکثریتی علاقہ ہے تو غلط نہیں  ہوگا۔لکش دیپ میں  مسلمانوں  کی آبادی کا تناسب 96.58%رہتے ہیں۔ مزید آٹھ ریاستیں  ایسی ہیں  جہاں  آبادی کے تناسب سے مسلمان 8سے 10فیصد کے درمیان رہتے ہیں۔ وہیں  اگر ان اعداد و شمار کا جائزہ اس لحاظ سے لیا جائے کہ ہندوستان میں  موجود مسلمانوں  کی کل آبادی کا حصہ کون سی ریاست میں  کس حیثیت میں  موجود ہے تو اس موقع پر آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ 2011کی مردم شماری کی روشنی میں  17کروڑ22لاکھ 45ہزار158مسلمانوں  شمار کیے گئے ہیں، جو ہندوستان کی آبادی کا 14.22%فیصد حصہ ہیں۔

 تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقہ لکش دیپ ہندوستان میں  مسلمانوں  کی کل آبادی کا آدھا فیصد بھی نہیں  ہے،بلکہ یہ تعداد0.04% ہی شمار کی جاتی ہے۔کیونکہ لکش دیپ میں  کل 64,473ہے جس میں  62,268مسلمان ہیں۔ یعنی یہاں  گرچہ مسلمان اکثریت میں  اس کے باوجود ہندوستانی مسائل میں  ان کا کوئی حصہ نہیں  ہے۔اس کی بڑی وجہ کل آبادی کے تناسب میں  ان کی حقیقی تعداد بھی ہے۔وہیں  68.31%مسلمانوں  کی آبادی جس سب سے زیادہ جموں  و کشمیر میں  موجود ہے وہ بھی مسلمانوں  کی کل آبادی کے اعتبار سے 4.97%ہے۔مزید یہ کہ جموں  و کشمیر کے مسلمانوں  کے مسائل جس قدر بڑی تعداد میں  موجود ہیں، وہ انہیں  اس بات کا موقع ہی نہیں  فراہم کرتے کہ وہ مرکزی دھارے سے وابستہ مسائل میں  دلچسپی لیں  یا اس میں  حصہ داری نبھائیں۔ جموں  و کشمیر کے مسلمانوں  کی بڑی تعدادعلیحدگی پسندوں  پر محیط ہے۔ لہذا ستّر سالہ دور آزادی کے باوجود جموں  و کشمیر کے مسلمان ہندوستانی مسلمانوں  کے مسائل، ہندوستانی سماج کے عمومی مسائل،ملک اور ملت کے مسائل اور درپیش چیلنجز میں  کسی بھی حیثیت میں  کوئی کردار ادا نہیں  کرپائے ہیں اور یہ صورتحال آج بھی برقرار ہے۔اس کے باوجود کہ وہاں  بے شمار جانیں  علیحدگی کے لیے قربان کی جا چکی ہیں لیکن یہ مسئلہ کیونکہ ملک کی سا  لمیت کا اہم ترین مسئلہ ہے،اس لیے یہ مسئلہ کسی بھی صورت حل ہوتا نظر نہیں  آتا۔بہتر ہوتا کہ مسلمانوں  کی یہ 5%فیصد آبادی 95%کے ساتھ مل کر نہ صرف اپنے مسلمانوں  کے مسائل کے حل میں  حصہ داری نبھاتے بلکہ ریاست اور ملک کے مسائل میں  اہم ترین کردار ادا کرتے۔لیکن چونکہ ہمارا یہ مضمون جموں  و کشمیر کے مسائل پر نہیں  لکھا جا رہا ہے، لہذا اِس موضوع کو یہیں  پر بند کرتے ہوئے،مسلمانوں  کی کل آبادی کے تناسب میں  کس ریاست میں  مسلمان کس فیصد میں  رہتے ہیں، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔

 ملک کی راجدھانی دہلی میں  ریاستی سطح پر موجود آبادی کا 12.68%حصہ مسلمان ہیں، وہیں  دہلی سے متصل ریاست ہریانہ میں  7.03%مسلمان رہتے ہیں۔ لیکن اگر ان آبادیوں  کو ملکی سطح پر موجود مسلمانوں  کی آبادی کے تناسب میں  دیکھا جائے تو یہ دونوں  ہی ریاستیں  ایسی ہیں  جہاں  1سے1.5%فیصد کے درمیان مسلمان رہتے ہیں۔ ریاست ہریانہ میں  مسلمانوں  کی آبادی کو ریاستی سطح پر حد درجہ کم تصور کیا جاتا ہے،اس کی بڑی وجہ ایک زمانے میں  ان کا قتل عام تھا تو وہیں  ان کا مرتد ہونا اُس سے بھی ایک بڑی وجہ ہے۔اس کے باوجود ہریانہ میں  17لاکھ 81ہزار مسلمان رہتے ہیں۔ وہیں  2سے5%فیصد والی کل مسلم آبادی کا تناسب رکھنے والی ریاستیں  8ہیں، ان میں  ریاست جموں  و کشمیر، جھارکھنڈ،کرناٹک،گجرات،آندھراپردیش(2011کی مردم شماری کی رشنی میں، جبکہ ریاست تلنگانہ اور آندھرا، ایک تھے)،راجستھان،مدھیہ پردیش اور تمل ناڈو شمار کی جاتی ہیں ۔ وہیں  3ریاستیں  ایسی ہیں  جہاں  کل مسلم آبادی کا تناسب 5سے10%فیصد موجود ہے۔یہ ریاستیں آسام، کیرلہ اور مہاراشٹر ہیں۔ دوسری جانب 2ریاستیں  ایسی بھی ہیں  جہاں  مسلمان اپنی کل آبادی کے تناسب میں  سب سے زیادہ تعداد میں  موجود ہیں۔ ان میں  ریاست مغربی بنگال اور بہار شمار کی جاتی ہیں، یہاں  مسلمان اپنی کل آبادی کے لحاظ سے  10سے 15%موجود ہیں۔ دیگر وہ ریاستیں  ہیں  جہاں  مسلمان اپنی کل آبادی کے لحاظ سے1%سے بھی کم تعداد میں  موجود ہیں۔ ان میں  اترا کھنڈ بھی آتا ہے منی پور،ہماچل پردیش،پنجاب اور گوا بھی۔اس پورے تجزیہ میں  ریاست اترپردیش کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یہ بات سب ہی کے لیے عجیب و غریب ہوگی۔لیکن تذکرہ اس لیے سب سے آخر میں  کرنا چاہتیکہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں  کے ریاست اترپردیش ہندوستان کی وہ واحد ریاست ہے جہاں  مسلمانوں  کی کل آبادی کا 22.34%حصہ موجود ہے۔3کروڑ84لاکھ83ہزار967مسلمانوں  کی آبادی والی ریاست نہ صرف ہندوستان کے تناظر میں  سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے بلکہ ریاست کی آبادی کو دنیا میں  موجود مسلمانوں  کی کل آبادی کے تناسب میں  دیکھا جائے تو بھی اس کی اہمیت برقرار رہتی ہے۔پوری دنیا میں  فی الوقت ایک سو پانچ کروڑ مسلمان موجود ہیں، اِن میں  تقریبا4کروڑ مسلمان ہندوستان کی ریاست اترپردیش میں  رہتے ہیں،  یہ دنیا کی کل مسلم آبادی کا 2.53%فیصد حصہ ہیں۔

  ریاست اترپردیش وطن عزیز میں  ہر اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ہندوستان کی آزادی سے قبل اور بعد میں  ملک کی باگ دوڑ میں  ریاست اترپردیش کا اہم ترین کردار رہا ہے۔زیادہ تر صدور اور وزیر اعظم اسی ریاست کی دین ہیں۔ وہیں  مسلمانوں  اور ہندوبھائیوں  کے اہم ترین دینی و مذہبی تعلیمی ادارے اِسی ریاست میں  موجود ہیں۔ ملک کے مسائل ہوں  یا سماج اور مذہبی بنیادوں  پر موجود لوگوں  کے مسائل،وہ بھی اسی ریاست کی دین ہے۔ہندوستان میں  آزادی سے قبل اور بعد میں  مسلمانوں  کی اعلیٰ قیادت ریاست اترپردیش سے ہی آج تک حاصل ہوتی رہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ  قیادت، مسائل میں  اس قدر الجھی رہی یا اس کو الجھائے رکھا، کہ مسائل کم ہونے کی بجائے ہر دن اس میں  اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ملک کی آزادی کی تحریک بھی ریاست اترپردیش سے ہی شروع کرانجام تک پہنچی۔نیز ہندوستان کے پڑوسی ملک پاکستان کی تعمیر و ترقی سے لے کر توسیع تک ریاست اترپردیش کے مسلمانوں  نے اہم کردار انجام دیا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی خوب اچھی طرح عیاں  ہے کہ وطن عزیز کے مسلمان جن بڑے مسائل سے آج تک دوچار ہوئے ہیں  اور جس کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہوئے، اس میں  بڑا کردار ادا کرنے والی یہی ریاست اتر پردیش ہے۔پھر یہ سانحہ بھی بڑا عجیب و غریب ہے کہ ریاست اترپردیش کے مسائل ہی نے ملک کی سیاست اور اس سے متعلقہ ایشوز کو کسی کے لیے مثبت تو کسی کے لیے منفی بنا دیا، اِنہیں  مسائل کی بنا پر کسی کو عروج حاصل ہوا تو کوئی تنزل کا شکار ہوگیا،اور ہزار جتن کرنے کے باوجود آج تک اُٹھ نہیں  سکا۔لیکن افسوس اور حد درجہ افسوس کہ یہ سب کھیل تماشہ اُسی ریاست کی اکثریتی اور اقلیتی آبادی کو مہرا بناکر کل بھی کھیلا جاتا رہا ہے اور آج بھی جاری ہے!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔