ہندوؤں کو مبارک ہو کانگریس کا ارتداد

حفیظ نعمانی

اسے مسلمانوں کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا کہا جائے کہ طلاق ثلاثہ بل کو راجیہ سبھا میں پاس نہ ہونے دینے کا انحصار کل تک کانگریس پر تھا آج وہ اتنی سی بات سے خوفزدہ ہورہی ہے کہ بل کی مخالفت کی تو بی جے پی اسے مسلمانوں کو خوش کرنے کا طعنہ دے گی اور حمایت کرتی ہے تو مسلم ووٹ بینک اس سے ناراض ہوجائے گا۔ جس اخبار کی یہ خبر ہے اس میں کانگریس کے راجیہ سبھا رکن ابھیشیک سنگھوی نے کہا تھا کہ تین طلاق پر ہم نے کچھ بنیادی ایشو اٹھائے ہیں۔ سرکار کچھ پہلو پر راضی ہوئی ہے لیکن ابھی بھی کچھ پہلو ایسے ہیں جن پر غور کی ضرورت ہے۔ مسٹر سنگھوی ایڈوکیٹ کا انداز وہ ہے جو قانون دانوں کا ہوتا ہے اور وزیراعظم اسے الیکشنی جملہ سمجھتے ہیں۔

لیکن اب یہ کہنا کہ کانگریس بل کے مسئلہ میں مذبذب ہوگئی ہے اور اسے یہ ڈر ہے کہ وہ مخالفت کرے گی تو بی جے پی اس پر مسلمانوں کی منھ بھرائی کا الزام دے گی۔ اس نے اچھے اچھوں کے ہوش اُڑا دیئے ہوں گے آخرکار 70  برس میں آج وہ بات کہہ دی گئی جس پر اب تک عمل ہوتا رہا ہے۔ اب تک تو یہ بات ہم مسلمان کہتے تھے کہ کانگریس حکومت مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی بات کرے یا مسلم اداروں کو کوئی رعایت دے یا مسلمانوں کے کسی مطالبہ پر غور کرنے کا وعدہ کرے تو فوراً ہندو پارٹیوں کی طرف سے منھ بھرائی کا طعنہ دیا جاتا تھا اور کانگریس فوراً مٹھی بند کرلیتی تھی لیکن 70  برس میں زبان سے آج تک کسی کانگریسی نے کہا نہیں تھا۔ اور آج بھی پارٹی کا نام ہے لیڈر کا نام نہیں ہے۔ لیکن یہ ہر کوئی سمجھ گیا ہوگا کہ کسی کانگریسی لیڈر یا ترجمان کی اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ اتنی بڑی بات کہہ دے۔ یہ بات راہل گاندھی سے کم حیثیت کا لیڈر کہنا تو بڑی بات ہے سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور اچھا ہے کہ انہوں نے آج وہ کہہ دیا جو برسوں سے کررہے تھے۔ اور مسلمان اس خوش فہمی میں تھے کہ راہل گاندھی ذرا اور بڑے ہوجائیں گے تو ترکی بہ ترکی مقابلہ کیا کریں گے لیکن دوسرے ہی الیکشن میں انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور جو مسلمان دو برس سے اندھیرے میں تھے وہ اُجالے میں آگئے۔

ہر مسلمان کو فخر ہے کہ کانگریس کو ہر الیکشن مسلمانوں نے جتایا ہے۔ اٹل جی کا آخری الیکشن 2004 ء میں بی جے پی کا پہلا الیکشن تھا جس میں اٹل جی نے نام لے کر مسلمانوں کو آواز دی اور سب کو یاد ہوگا کہ بڑی تعداد میں مسلمان ان کے لئے کھڑے ہوگئے عام مسلمانوں کی بات الگ رہی جامع مسجد دہلی کے امام مولوی احمد بخاری، اسمرتی ایرانی کے لئے دکان دکان ووٹ مانگ رہے تھے اردو کے بہت ممتاز شاعر بشیر بدر نے کھل کر حمایت کی اور خواص کا بڑا طبقہ اٹل جی کی حمایت میں کھڑا ہوگیا۔ لیکن عام مسلمانوں کو جو برسوں سے یاد کرایا گیا تھا کہ کانگریس کو ووٹ دینا ہے ان تک بات نہیں پہنچ سکی اور اٹل جی ہار گئے۔ اور یہی مسلمان تھے جنہوں نے 2009 ء میں اور زیادہ ووٹ دیئے اس نے آج صاف صاف کہہ دیا کہ کانگریس مسلم ووٹروں کو خوش کرنے کے الزام کے خوف کی وجہ سے تین طلاق بل میں وہ نہ کرسکے گی جو ابتک کرتی رہی ہے۔

اب تک کانگریس نے مسلمانوں کو چھوڑا تھا ہر الیکشن میں وہ مسلمان کو کم سے کم ٹکٹ دے رہے تھے اور مسلمان وزیر بناتے وقت ان کا ہاتھ کانپ جاتا تھا۔ گجرات میں صوبائی الیکشن میں راہل گاندھی نے جو کیا وہ آخری درجہ کی ذلت تھی لیکن بی جے پی سے دوسری کی وجہ سے وہ ذلت بھی برداشت کی گجرات اور مہاراشٹر کے بڑے بڑے عالموں نے گجرات کے مسلمانوں سے کہا کہ نہ کانگریس کا جھنڈا لگائو نہ اشتہار بس خاموشی سے خود اور اپنی بیوی بیٹی کو لے جاکر کانگریس کو ووٹ دے کر آجائو۔ پورے ملک میں 1952 ء کے پہلے الیکشن سے آج تک ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کہیں ایسے رازداری کے الیکشن نہیں ہوئے ہوں گے جیسے گجرات میں ہوگئے اور کانگریس کو زبان سے نام لئے بغیر ہی ممبر مل گئے۔ آج اس راہل سے یہ سن کر دل پر جو گذری ہے وہ ہمیں جانتے ہیں۔ اب راہل گاندھی کانگریس کے صدر ہیں یا دوسرا کوئی ہر مسلمان کا فرض ہے کہ کانگریس کو وہ ہندو مہاسبھا سمجھے اور قسم کھائے کہ ووٹ دینا تو بڑی بات ہے اس کا نام بھی نہیں لے گا۔

پرشوتم داس ٹنڈن، منیشور دت اُپادھیائے یا بابو سمپورنانند ان سے مسلمانوں کی کیا دشمنی تھی؟ سوائے اس کے کہ وہ اردو کے بدترین دشمن تھے اور اردو میں مسلمانوں کا دینی سرمایہ اتنا منتقل ہوچکا تھا کہ اگر اب اسے ہندی میں منتقل کرنا چاہیں تو آدھا اردو میں ہی رہ جائے گا۔ یہ حضرات یہ بھی چاہتے تھے کہ مسلمان اردو میں ہی الجھے رہیں ورنہ وہ اسلام کو ہندی میں منتقل کریں گے تو اسلام کا مطالعہ ہندو کریں گے۔

اب یہ باتیں تو پرانی ہوگئیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ راہل گاندھی اس بات سے ڈرنے لگے کہ اگر مسلمانوں کی کسی موڑ پر حمایت کیا تو اب تک پاکستان کا رشتہ جو آیا تھا اب اس سے ڈر گئے کہ مسلمان کی حمایت کررہے ہیں۔ اور راہل گاندھی کے منھ میں زبان ہی نہیں ہے جو یہ کہہ سکیں کہ مودی جی جو پانچ کروڑ مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کو اسکالر شپ (عیدی) دے رہے ہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہیں؟ اب وہ پالا بدلیں اور مودی جی پر الزام لگائیں کہ وہ مسلمانوں کی منھ بھرائی کررہے ہیں اور رام مندر کے مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں لیں اور کھل کر کہیں کہ بی جے پی وشو ہندو پریشد یا شیو سینا نے کیا کہا۔ بابری مسجد میں تالا ہم نے ڈلوایا اور ہمارے باپ راجیو گاندھی نے کھلواکر پوجا پاٹ کرائی اور ماحول بنایا کہ مسجد گرادی گئی۔ ان تمام کاموں میں سے ایک کام بھی نریندر مودی کا نہیں ہے۔ ہم نے اب تک اس لئے زبان بند رکھی تھی کہ مسلمان کو تکلیف ہوگی لیکن جب مسلمان سے رشتہ ختم ہوگیا تو پھر ہم سچ کیوں نہ بولیں؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔