ہندو راشٹر میں آپ کا سواگت ہے

ڈاکٹر عابد الرحمن

ہندوراشٹر میں آپ کا استقبال ہے شرط یہ ہے کہ آپ مسلمان نہ ہوں، حکومت نے ان دنوں دو اقدام کے ذریعہ دراصل یہی اعلان کیا ہے، ایک تومسلمانوں کی مسلسل اور پر زور مخالفت کے با وجود طلاق ثلاثہ بل لوک سبھا میں پاس کر کے اور راجیہ سبھا میں پاس نہ کرواسکنے کی وجہ سے اس کے لئے آرڈیننس جاری کر گویا مسلمانوں کو یہ باور کروایا کہ یہ دراصل ہندو راشٹر ہے جہاں آپ کو ہمارے رحم و کرم پر اور ہمارے حساب سے رہنا ہوگا یہاں تک کہ اپنے مذہب پر بھی ہمارے ہی حساب سے عمل کرنا ہوگا۔ دوسرے یہ کہ حکومت نے سیٹیزن شپ امینڈ مینٹ بل پاس کیا جس کے مطابق تین مسلم اکثریتی ممالک بنگلہ دیش پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، بدھسٹ، جین، پارسی اور عیسائی مہاجرین کو بھارتی شہریت کیلئے آسانی فراہم کی گئی۔ اس سے پہلے شہریت کا جو قانون موجود تھا اس کے مطابق بھارتی شہریت کے حصول کے لئے ضروری تھا کہ کوئی بھی غیر ملکی قانونی طور پر یعنی ویزہ اور ضروری دستاویزات کے ساتھ انڈیا میں داخل ہو اور قانونی طور پر ہی کم از کم گیارہ سال یہاں رہے۔ اس نئے بل میں مودی سرکار نے یہ دونوں شرائط آسان کر دی۔

سب سے پہلے تو یہ کہ مدت رہائش کم کر کے چھ سال کردی گئی اور اس سے بڑی آسانی یہ کہ درخواست گزار یا مہاجر کا ملک میں قانونی داخلہ ضروری نہیں یعنی مذکورہ کمیونٹی کے لوگ اگر غیر قانونی طور پربھی ملک میں داخل ہوجائیں تو کوئی بات نہیں ملک کا قانون انہیں قید نہیں کرے گاملک بدر نہیں کرے گا ان کی پکڑ جھکڑ نہیں ہوگی وہ آرام سے یہاں چھ سال گزارنے کے بعد ملکی شہریت حاصل کر نے کے اہل ہو جائیں گے۔ لیکن یہ ساری سہولت صرف غیر مسلموں کے لئے ہے مسلمانوں کے لئے نہیں، مسلمان کتنا بھی ستایا گیا، اپنے دیش سے نکالا گیا اور کتنا بھی مظلوم ہو وہ اس کا اہل نہیں ہو سکتا کہ اس نئے قانون کے ذریعہ بھارتی شہریت حاصل کر کے آزار رسانی سے بچ سکے۔ خاص طور سے دنیا کی سب سے زیادہ ستائی ہوئی قوم میانمار میں اپنی ہی حکومت کے ذریعہ نکالے گئے روہنگیا اس قانون کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں۔ حکومت نے اس قانون کو ستائی گئی اقوام کے تئیں انسانی ہمدردی کے اقدام کے طور پر پیش کیاہے لیکن اس میں صرف غیر مسلم اقوام کو شامل کر کے اور خاص طور سے روہنگیا کو شامل نہ کر کے خود ہی اپنے جھوٹ کو عیاں بھی کر دیا ہے۔ یہ بل دراصل ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی سمت ایک قدم ہے۔ اور اس میں مسلمانوں کو شامل نہ کر کے حکومت نے مسلمانوں کو ملک کی تمام تر غیر مسلم آبادی سے الگ تھلگ کر نے اور غیر مسلموں کی تمام اقوام کو ہندوؤں میں جمع کر نے کی چال بھی چلی ہے۔ ویسے بھی سنگھ کا تو یہی ماننا ہے کہ یہ ملک ہندوؤں کا ہے مسلمان حملہ آور، غاصب ظالم اور نہ جانے کیا کیا ہیں، اور اب انتخابات کے زمانے میں حکومت ملک کے ہندوؤں کو یہ پیغام بھی دینا چاہتی ہے کہ اس نے ملک کو ہندوراشٹر بنادیا ہے جس میں ہندوؤں کا استقبال ہے اور مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔

لیکن اس بل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ ہندوراشٹر کتنا نازک ہو گا کیونکہ پوری شمال مشرقی ریاستوں اور خاص طور سے آسام میں اس بل کی زوردار مخالفت ہو رہی ہے۔ فی الوقت غیر قانونی مہاجرین کا مسئلہ آسام میں موجود ہے اور اس میں ہندو مسلمانوں کی تفریق نہیں ہے وہاں کے لوگ بنگالی ہندوؤں اور مسلمانوں کو اپنی تہذیب و تمدن کے لئے یکساں خطرہ سمجھتے ہیں وہ کسی بھی غیر قانونی بنگالی کو اپنے یہاں نہیں رہنے دینا چاہتے چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو، جبکہ بی جے پی چاہتی ہے کہ ان کی مخالفت صرف مسلمانوں سے ہو ہندو بنگالیوں سے نہیں۔ اسی طرح یہ نیا قانون آسام میں پہلے سے موجود آسام معاہدے سے بھی ٹکراتا ہے جس کے مطابق وہی لوگ بھارتی شہریت لے کر آسام میں رہ سکتے ہیں جو یہ ثابت کریں کہ وہ یا ان کے والدین مارچ ۱۹۷۱ سے پہلے وہاں آگئے تھے، پچھلے سال اسی آسام معاہدے کے مطابق شہریوں کا قومی رجسٹر بنایا گیا تھا جس کے مطابق قریب چالیس لاکھ لوگ ایسے رہ گئے تھے جو اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائے ان میں ہندو بھی ہیں اور مسلما ن بھی۔

دراصل بی جے پی چاہتی ہے کہ آسام سے صرف مسلمانوں کو نکال باہر کیا جائے اور ہندو بنگا لیوں کو رہنے دیا جائے۔ مودی جی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہندو بنگالیوں کو بھارتی شہریت دیں گے اور اب بھی انہوں نے اسی کا اعادہ کیا کہ ’ اگر ماں بھارتی کے بچے مصیبت میں ہوں تو ان کی خبر گیری کرنا ماں بھارتی کی ذمہ داری ہے۔انہوں نے اس نئے بل کو تقسیم ہند کے دوران ہوئی اغلاط کا کفارہ قرار دیا۔ ابھی راجیہ سبھا میں اس کا پاس ہونا باقی ہے اور پھر مذہب کی بنیاد پر تفریق کے معاملہ میں یہ سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ کونسی زندہ قوم اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔