ہوا کا رخ بدل رہا ہے!

راحت علی صدیقی قاسمی

 گذشتہ چند ایام سیاسی فضا تبدیل ہونے کی شہادت دے رہے ہیں، یہ احساس شدت سے قلب پر ثبت کررہے ہیں کہ منظرنامہ تبدیل ہورہا ہے، ہوا کا رخ بدل رہا ہے، بی جے پی کی رفتارِ ترقی سست ہوتی جارہی ہے، اس کا عروج روبہ زوال ہے، عوام کے قلوب  میں اس کی مخالفت کا بیج بویا جا چکا ہے اور اس زراعت کا سہرا بھی بی جے پی کے سر ہے، ان کی منصوبہ بندی ناکام ہوئی، وکاس لفظوں کی قید سے آزاد ہو کر عملی دنیا میں قدم نہ رکھ سکا، کالا دھن کالا ہی رہا، نوٹ بندی کا قیمتی کریم بھی اس پر کارگر ثابت نہ ہوا، غربت و افلاس کی زندگی گذار رہے افراد کو مہنگائی نے دبوچ لیا، اس صورت حال کے اثرات حال ہی میں ہوئے چند انتخابات کے نتائج پر بھی اثر انداز ہوئے ہیں ۔ چند روز قبل جس سیاسی جماعت کی کامیابی نے دانتوں تلے انگلی دبانے پر مجبور کردیا تھا، موافقین و مخالفین محوِ حیرت ہوگئے تھے، چھ سات ماہ میں فضا کا رنگ کس طرح تبدیل ہوا، منظرنامے پر ابھرنے والے نقوش اسے مدلل کرتے ہیں، حالات واقعات دلیلِ براں بن کر ذہن و دماغ کو مطمئن کرتے ہیں اور احساس ان الفاظ کا جامہ پہن کر سپرد قرطاس ہوتا ہے، جیسے صبح کی پو پھوٹنے لگی ہو۔

 کانگریس کا سورج طلوع ہونے کے لئے بے قرار ہے، شاید ان باتوں کو مبالغہ پر محمول کیا جائے، دیوانے کی بڑسمجھا جائے، لیکن گرداس پور ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی شکست انہیں حقائق کا درجہ عطا کرتی ہے، بیس سالوں تک یہ سرزمین بی جے پی کی فتح و کامرانی کا قصہ دوہراتی رہی، ہمیشہ اس سیٹ سے بی جے پی کے رہنما اسمبلی میں قدم رکھتے رہے۔ ملک میں بی جے پی کی صورت حال کیسی بھی رہی، یہاں اس کی فتح کے تازیانے بجتے رہے۔ مضبوط سے مضبوط لیڈر بھی یہاں بی جے پی کے مقابلے میں نوآموز سیاسی طالب علم ثابت ہوا، اور یہ سلسلہ دو دہائیوں پر محیط ہے۔ اس ضمنی انتخاب میں جس کی وجہ عوام کے مقبول ترین اداکار بی جے کے قدآور لیڈر ونود کھنّا کی وفات تھا۔

 بی جے پی کی شکست ناقابل یقین ہے، ہندوستان کی کثیر آبادی ان سے محبت کرتی ہے، ان کی اداکاری کی عاشق و دلدادہ ہے، گرداس پور کے عوام بھی اس جذبہ سے خالی نہیں ہیں، ان کی وفات کے بعد اس انتخاب کا ہونا، لوگوں کے ہمدردی اور غم میں مبتلا ہونے کے باوجود بی جے پی کی ہار غیر متوقع ہی نہیں حیرت زدہ کرنے والی ہے، عام طور پر وفات کے باعث ہونے والے انتخابات کے نتائج فوت شدہ شخص کی جماعت کے حق میں ہوتے ہیں، اور ونود کھنّا کے انتقال کے بعد بی جے پی کی شکست اور وہ بھی تقریباً دو لاکھ کے واضح فرق کے ساتھ چونکانے والی ہے، یہ شکست بہت کچھ کہتی ہے بدلتے ہوئے احوال کے دعویٰ پر حقیقت کی مہر ثبت کرتی ہے، کانگریس کے اعتماد کو بحال کرتی ہے، اسے ہمت حوصلہ عطا کرتی ہے، جو مستقبل میں اس کے لئے تریاق ثابت ہو سکتا ہے۔

سنیل جاکھڑ، نوجوت سنگھ سدھو اور کیپٹن امریندرسنگھ کے بیانات میں اس حوصلہ کی تصویر ہم دیکھ چکے ہیں، بی جے پی کے لئے یہ انتخاب یقینی طور پر خفت کا باعث رہا، قصہ یہی ایک نہیں واقعات اور بھی ہیں، بھلے ہی ان کی حیثیت کم ہے، لیکن عوام کا بدلتا مزاج ان واقعات سے واضح ہوتا ہے، ناندیڑ کارپوریشن انتخاب میں بی جے پی کی شرمناک شکست بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، حالانکہ مہاراشٹر بی جے پی اور شیوسینا کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، مہاراشٹر میں ہوئے پچھلے دنوں کے کارپوریشن انتخابات میں بی جے کامیاب رہی تھی، حالانکہ ناندیڑ میں کانگریس ہمیشہ این سی پی کی محتاج ہوتی تھی اور اس مرتبہ کانگریس کو 76میں سے 69 نشستیں حاصل ہونا، یہ اعلان کررہا ہے کہ کچھ تو بدلا ہے، یہ انتخاب وزیراعظم کی گھٹتی مقبولیت کو اجاگر کررہا ہے، ساتھ ہی این سی پی کو ایک بھی سیٹ حاصل نہ ہونا بھی معنی خیز ہے اور کانگریس کے لئے حوصلہ افزا ہے۔

 اسی طرح کیرل میں وینگارا اسمبلی سیٹ پر ہوئے ضمنی انتخاب میں کانگریس کی حمایت یافتہ مسلم لیگ نے فتح کا پرچم لہرایا اور بی جے پی امید وار ضمانت بچانے میں بھی ناکام رہا، تعلیمی اداروں میں تو جیسے بی جے کی شکست کی ہوا چل گئی اور ہندوستان کے مختلف اداروں میں بی جے پی شکست سے دوچار ہوئے، حالانکہ کچھ تجزیہ نگار اس بدلتے منظرنامے کو تسلیم نہیں کرتے، میڈیا اس موضوع پر مباحثے کرکے عوام کو بی جے پی سے مزید دور نہیں کرنا چاہتا ہے، لیکن حقائق سے کب تک اور کہاں تک منھ چرایا جاسکتا ہے، ایک دن وہ نگاہوں کو خیرہ اور زبانوں کو گنگ کردیں گے، بی جے پی کو بھی اس صورت حال کا احساس ہے، بی جے پی لیڈران کا رویہ ان کی حکمت عملی اس بات کی عکاسی کررہی ہے، چند دن قبل بھوپال میں آرایس ایس کی سہ روزہ میٹنگ منعقد ہوئی جس میں 2019 اسمبلی انتخاب کی حکمت عملی پر گفت و شنید ہوئی، نوجوانوں کو آرایس ایس سے جوڑنے اور زمینی سطح پر محنت کرنے پر زور دیا گیا۔

 بی جے پی لیڈران کی زبانیں آئے دن ایسے جملے اگل رہی ہیں، جو حقائق کو لوگوں کے ذہنوں سے محو کردیں، نفرت و تعصب کے خیالات سے انکا ذہن مملو ہوجائے، زمینی صورت حال سے وہ غافل ہوجائیں، تاج محل جو ہندوستان کی عزت وقار کو دوبالا کرتا ہے، اس کو ہدف ملامت بنایا گیا، اسے سیاحتی فہرست سے خارج کر دیا گیا، حالانکہ وہ عرصہ دراز سے حکومت کے لئے آمد کا اہم ذریعہ ہے، مستقل سیاح اس کے دیدار کے لیے آتے ہیں، اس سے محبت و دیوانگی کا اظہار کرتے ہیں، حکومت اس سے حاصل ہونے والی رقم کا استعمال کرتی ہے، پھر اسے ہدف تنقید بنایا جانا چہ معنی دارد؟ ٹیپو سلطان شہید کا یوم پیدائش جو سالوں سے سرکار مناتی چلی آئی ہے، اس کی تقریبات کی مخالفت کا دعویٰ کرنا، تاریخ کو از سر نو مرتب کرنے کا راگ الاپنا، مؤرخین کو چاپلوس کہنا، ٹیپو سلطان کو ظالم و جابر کہنا، زبردستی مذہب تبدیل کرانے والا بتانا، اسی حکمت عملی کا حصہ ہے، لوگ اسی میں الجھ کر رہ جائیں گے، بلکہ الجھا دیا جائے گا، چینلوں پر بحثیں ہوں گی، حقائق کو عوام کے ذہنوں سے محو کردیا جائے گا، لوگوں کو مذہبی تعصب کا عینک لگا کر انتخاب میں شریک پر مجبور کردیا جائے گا، اور بی جے پی پھر سے تاریخ رقم کردیگی۔

 نوشتۂ دیوار پر یہی لکھا ہوا ہے، زبان حال یہی گویا ہے، غور و فکر کا نتیجہ یہی کہتا ہے، آپ بھی اپنے ذہن و دماغ کے گھوڑے بے لگام کردیجیے، اور نتائج اخذ کرنے کی کوشش کیجئے، اگر آپ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں، تو آنکھیں کھولئے، نیند سے بیدار ہوجائیے، جذبات پر قابو پائیے، نفرت و عداوت کو شکست دیجئے، جذبات کے تلاطم خیز دریا میں غرق مت ہوئیے، پھر دیکھئے نتائج کیا ہونگے، نفرت کے بیج بونے والوں کی کیفیت ہوگی؟ عداوت کی آبیاری کرنے والوں کا حشر کیا ہوگا؟ اور مستقبل خوبرو ہوگا، ترقی کے امکانات روشن ہونگے-

اس کے ساتھ ہی سکہ کا دوسرا رخ انتہائی دلچسپ ہے، اس صورت میں کانگریس کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ کیا وہ بی جے پی کی حکمت عملی کا توڑ تلاش کرپائیگی؟ کیا وہ اس سنہرے موقع کا فائدہ اٹھا پائیگی اور کھڑی ہو پائے گی ؟ سنیل جاکھڑ احمد پٹیل اور ناندیڑ کی فتح سے حاصل حوصلہ کو مستقبل میں زیست کا ذریعہ بنا پائیگی؟ یا پھر سے یوپی انتخاب کی طرح سستی کا مظاہرہ ہوگا؟ اور کانگریس مکت بھارت کا نعرہ حقیقت میں تبدیل ہوگا ؟ ان سوالات کے جوابات گجرات انتخاب ہی نہیں 2019انتخاب اور ملک کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے، واضح کریں گے، ملک ترقی کریگا یا نہیں فرقہ پرستی بڑھیگی یا ختم ہوگی؟ انتخابات ترقی کے نعروں کے ساتھ لڑیں جائیں گے یا پھر نفرت کے بل پر؟ مستقبل قریب میں ان سب سوالوں کے جوابات ہمارے سامنے ہونگے، ملک کا مستقبل نگاہوں کے سامنے ہوگا، اس میں ہمارہ بھی بھرپور کردار ہوگا، جو ملک کی بہتری اور ابتری کے اثرات پر مرتب ہوگا .

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔