ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہو ویسی سنو

حفیظ نعمانی

کل کی خبر کے مطابق فوج کے ذمہ داروں نے سرجیکل اسٹرائک کا ویڈیو حکومت کو سونپ دیا۔ اب اسے عام کرنے نہ کرنے کا فیصلہ وزیر اعظم کریںگے۔ جس وقت یہ خبر آئی تھی کہ اڑی کے 18 جوانوں کی موت کا فوج نے انتقام لے لیا تو ہر طرف سے فوج کو مبارک باد دی گئی تھی اور ہر کسی نے کہا تھا کہ ہم اس نازک گھڑی میں حکومت کے ساتھ ہیں۔ یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ حکومت بن جانے کے بعد بھی ہمارے ملک کے لوگوں کی آنکھوں پر انتخابی نشان کا چشمہ لگا رہتا ہے۔ جب ہر کسی نے کہہ دیا کہ ہم حکومت کے ساتھ ہیں تو بی جے پی کے چھوٹے بڑے نیتائوں کو ڈھول بجانے کی کیا ضرورت تھی کہ جو کام کانگریس آج تک نہ کرسکی وہ ہم نے کرلیا۔ اور بی جے پی کی یہی وہ بچکانہ حرکت تھی جس نے پاکستان کی زبان سے نکلے ہوئے ان بیانات کو مخالفوں کا ہتھیار بنا دیا کہ ہندوستان جھوٹ بول رہاہے۔ ہمارے علاقے میں کوئی سرجیکل اسٹرائک کا واقعہ نہیں ہوا اور شہرت یہ بھی ہوگئی کہ اقوام متحدہ کے مرکز سے بھی کہا گیا کہ ایسے کسی حادثہ کی اطلاع ہمیں بھی نہیں ہے۔ ان دونوں باتوں کو کجریوال نے سامنے رکھ کر کہہ دیا کہ پاکستان کے اس جھوٹ کا پردہ فاش کرنا چاہیے اور حکومت جو پہلے ہی کہہ چکی تھی کہ ہم ثبوت دکھائیںگے اسے ثبوت دکھا دینا چاہیے۔ ان باتوں سے ہندوستان اور پاکستان کی جنگ تو ٹھنڈے بستہ میں چلی گئی، بی جے پی اور غیر بی جے پی کے درمیان الیکشن ہونے لگا۔

وزیر اعظم نے ایک بار کہہ دیا کہ ہم نے اپنے جوانوں کی موت کا بدلہ لے لیا اور پاکستان کے انکار کا جواب وزیر دفاع پاریکر نے ان جملوں میں دیا کہ سرجری سے پہلے مریض کو بے ہوکش کیا جاتا ہے۔ پاکستان شاید ابھی بے ہوش ہے۔ لیکن دوسروں پر ذمہ داری ڈالنے کے بجائے حکومت کو ساری ذمہ داری صرف بی جے پی کے ان زبان درازوں پر ڈالنا چاہیے جو ہر چینل پر کنول کے پھول سجا کر بیٹھ گئے اور چرخا چلانا شروع کردیا، اور بی جے پی کے یا نریندر بھائی مودی کے مقابلہ میں ہر وزیر اعظم کو نیچا دکھانا شروع کردیا۔ جبکہ انھیں سوچنا چاہیے تھا کہ پنڈت نہرو کے انتقال کے بعد شاستری جی نے ایوب خاں جیسے فوجی کو دھول چٹائی تھی اور ان کے بعد اندرا گاندھی نے پاکستان کو پھاڑ کر آدھا کردیا تھا اور آدھے کو بنگلہ دیش بنادیا تھا۔ ان کے مقابلہ میں ایک چھوٹا سا سرجیکل اسٹرائک اگر کسی حکومت کی قیادت میں فوج نے کردیا تو اسے گھوڑا بنا کر سوار ہونا اور اس پر بیٹھ کر الیکشن لڑنے کا پروگرام بنانا فخر کی نہیں شرم کی بات ہے۔ پارٹی حکومت بننے سے پہلے ہواکرتی ہے۔ حکومت بن جانے کے بعد ہر وزیر سب کا وزیر اور ہر افسر سب کا افسر ہوتا ہے۔ ہم تو پہلے بھی لکھ چکے ہیں اور پھر لکھ رہے ہیں کہ وزیر ا عظم نریندر مودی جس طرح سے صوبوں کے الیکشن میں اپنے کو جھونک دیتے ہیں اس پر پابندی ہونا چاہیے۔ وہ وزیر اعظم بننے کے بعد لوک سبھا کے الیکشن میں چاہے جتنی محنت کریں وہ اس لیے جائز ہے کہ مرکز میں حکومت رہنے اور بدلنے کا سوال ہوتا ہے لیکن صوبوں کے الیکشن کے لیے صوبائی لیڈر اور پارٹی کے صدر سکریٹری کو ہی میدان میں آنا چاہیے۔ وزیر اعظم تو کیا وزیر کو بھی نہیں آنا چاہیے۔

سرجیکل اسٹرائک کے ثبوت کی بات اروند کجریوال کے علاوہ دوسروں نے بھی کہی لیکن جس طرح بی جے پی کے لیڈر اور مرکزی وزیر کجریوال کے پیچھے پڑے ایسا نہ سنجے نروپم کے ساتھ ہوا اور نہ دگ وجے سنگھ کے ساتھ ہوا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ کجریوال نے دہلی میں بری طرح ہرایا تھا اور اب پنجاب میں مقابلہ ہونے والا ہے۔ اس لیے صرف کجریوال پوری بی جے پی کا نشانہ ہیں۔ جبکہ پنجاب میں مقابلہ کانگریس سے بھی ہے۔

کل اتفاق سے پاکستان پارلیمنٹ کی کاروائی سننے کا موقع مل گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر بھی سنی جس میں کوئی اہم بات نہیں تھی اور مخالف پارٹیوں کے 6 لیڈروں کی تقریریں بھی سننے کو ملیں۔ جس بات کی سب سے زیادہ خوشی ہوئی وہ یہ تھی کہ ہر مخالف لیڈر نے حکومت کی خارجہ پالیسی کو نشانہ بنایا اور ہر ا یک نے کہا کہ سرتاج عزیز نا اہل ثابت ہوچکے ہیں۔ ہر لیڈر نے شرم دلائی کی سارک کانفرنس میں پاکستان میزبان تھا اور ڈوب مرنا چاہیے کہ پانچ ملکوں نے آنے سے انکار کردیا۔ سب کے سب اس پر شرمندہ تھے کہ پاکستان کو ہندوستان الگ تھلک کرنا چاہ رہا تھا اور وہ کامیاب ہوگیا جس کی ذمہ داری وزارت خارجہ پر ہے۔

پاکستان کے کسی لیڈر کے منہ سے جنگ کی بات نہیں سنی۔ وہ صرف اس پر زور دیتے رہے کہ ہندوستان ہماری سرحدوں میں گھس کر جنگ بندی کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ حیرت ہے کہ کسی نے سرجیکل اسٹرائک کا نہ اقرار کیا اور نہ انکار بلکہ ذکر بھی نہیں کیا۔اور نہ کسی سرحد کے دیہاتوں سے اپنی آبادی کو محفوظ ٹھکانوں پر پہنچانے کا کوئی ذکر کیا۔ جبکہ ہماری سرحد پر برابر دکھایا جارہا ہے کہ گائوں خالی ہورہے ہیں اور آبادی کو محفوظ ٹھکانوں پر بھیجا جارہا ہے۔

پاکستان پارلیمنٹ میں مولانا فضل الرحمن نے ضرور تقریر کے دوران کہا کہ اگر جنگ سامنے ہے اور پاکستان کے وجود کو خطرہ ہے تو ایٹم بم الماریوں میں سجانے کے لیے نہیں ہوتے لیکن ہمیں کہیں ایسی بات نظر نہیں آرہی ہے ۔ اس لیے وزیر اعظم جو مذاکرات کی بات کررہے ہیں تو وہیں حالات کو لایا جائے۔

ہندوستانی پنجاب کے لوگ بھی تسلیم کررہے ہیںکہ جنگ کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ گرونانک یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر سردار جگروپ سنگھ اسے پنجاب اور دوسری ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سرحد پر کسی طرح کی کشیدگی نہیں ہے۔ پروفیسر شیخوں کا کہنا ہے کہ سرحد پر رہنے والے وقت سے پہلے ہی صورت حال کو بھانپ لیتے ہیں اور خود علاقہ چھوڑ دیتے ہیں۔ الیکشن کے مسائل اور ہوتے ہیں کم از کم ملک کی سلامتی اور اپنی فوج کی کامرانیوں کو الیکشن کے لیے استعمال کرنا نہ پہلے اچھا تھا اور نہ کبھی اچھا رہے گا۔ اگر بی جے پی کے وزیر اور ٹی وی ترجمان اس اقدام کو گلے کا ہار نہ بناتے تو شاید کوئی آواز ثبوت کے لیے نہ اٹھتی اور جب ایک اسے الیکشن کا ہتھیار بنائے گا تو دوسرا مخالفت کرے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔