یادِ ماضی

آصف علی

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ،

"یادِ ماضی عذاب ہے یا رب!

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا”

ہم اکثر حلقہ یاراں میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے شکوہ و شکایت کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں، اور اس گفتگو کا بیشتر حصہ ماضی کی تلخ یادوں پہ محیط ہوتا ہے۔ شاذو نادر ہی ہماری گفتگو میں مستقبل کے بارےمیں منصوبہ بندی یا آنے والے وقت کے ممکنہ مسائل سے نبردآزما ہونے کی تراکیب کے بارےمیں سوچا جاتا ہے۔ یادِ ماضی سے اس قدر اُلفت و یگانگت ہماری زندگی کے موثر پن کو معدوم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہم ان تلخ تجرباتِ ماضی سے خود کو اس قدر چسپاں کر لیتے ہیں کہ ہم حال میں جینے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کو ترک کر دیتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ ماضی کے تجربات سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے اور آنے والے وقت کو ان اغلاطِ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے بہتر بنا سکتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :-

"مومن ایک جگہ سے دو بار دھوکہ نہیں کھاتا ” ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کے تجربات کو بروئے کار لانے میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ وہ آپ کو ماضی کا اسیر نہ بنا دیں۔ اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے،

فرض کیجیے کچھ عرصہ قبل آپ سے ایک جگہ موبائل کھو گیا جسے پاس ورڈ بھی نہ لگا تھا۔ اب آپ کو اپنا قیمتی ڈیٹا اور موبائل چوری ہونے کا سخت رنج ہوا ہے۔

اب اس واقعہ سے اخذ کرنے والی چیز یہ ہےکہ آپ آئندہ موبائل کی حفاظت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور سب سے اہم بات یہ کہ اسے پاس ورڈ ضرور لگائیں۔۔۔ یعنی جو چیز آپ کو مستقبل بہتر بنانے میں سودمند ہو اسے اس واقعے سے اخذ کر لیں۔ لیکن اگر یہ واقعہ آپ کو ماضی میں پابند سلاسل کر دے اور آپ اس واقعے سے نکل ہی نہ پائیں تو آپ کو اس تجربے نے اسیرِ ماضی بنا دیا ہے اور آپ کی صلاحیتوں کو مختل کر دینے میں اس کا حصہ ہے، حالاں کہ آپ اسے اپنے لیے نفع بخش بنا سکتے تھے۔

اس تمہید کا مقصد محض اس حقیقت کو آشکار کروانا ہے کہ ماضی میں اتنا ہی رہیں جتنا آپ کےلیے فائدہ مند ہو، وگرنہ ماضی میں ڈوب کر آپ اپنا حال تباہ کر رہے ہیں۔ اور وہ شے جو ناقابلِ ترمیم ہے اس میں ترمیم کرنے کے سہانے خواب دیکھتے ہوئے آپ اپنے حال جس میں آپ ترمیم کر سکتے ہیں، اسے فراموش کر رہے ہیں۔ ماضی سے خود کو جوڑ کر رکھیے، لیکن جینا صرف حال میں سیکھیے۔۔ زندہ قومیں ماضی کی اغلاط سے سبق سیکھتی ہیں اور آئندہ ان سے خود کو پاک کر کے آگے بڑھتی ہیں، نا کہ ماضی پہ نادم و تفاخر کر کے اپنے حال سے نظریں چراتی ہیں۔۔۔۔

  ہم مسلمانوں کا بالعموم اور ہم ہندوستانی مسلمانوں کا بالخصوص یہ مسئلہ ہے کہ ہم ماضی کی شان و شوکت و غلبے کے زعم میں اس قدر مبتلا ہیں کہ اس سے نکل نہیں پا رہے تاکہ اپنے "حال” پہ غور و خوض کر سکیں۔ اپنے ماضی کی فتوحات پہ نازاں ہونے میں کوئی قباحت نہیں لیکن بات یہاں بھی وہی آ جاتی ہے کہ ماضی کی فتوحات ہمیں "حال” سے نظریں چرانے والا نہ بنا دے۔ ہم ماضی کے اوجِ کمال کو ذہن کے نہاں خانوں میں اس طرح سے سرایت نہ کرا لیں کہ ہمارا ذہن حال و مستقبل بارے تفکر کرنے سے عاری ہو جائے۔

بقول اقبال رحمہ اللہ:

"تجھے نسبت اپنے آباء سے ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارہ”

ہم اگر ماضی کی فتوحات ہی پہ شادیانے بجاتے رہے تو ہم گفتار کے غازی کہلائیں گے نہ کہ کردار کے۔

کہا جاتا ہے کہ خود ایسے بنو کی تمہاری مثالیں دی جائیں، اور آنے والے وقت میں یاد کیے جاؤ، لیکن ہم اسیرانِ ماضی خود کی مثالیں تو درکنار، اپنی شناخت ہی پیدا کرنے سے عاری ہیں۔ کسی انگریز جنرل نے مسلمانوں کے بارے کہا تھا،

"یہ دِنوں کے مجاہد اور راتوں کے راہب ہیں”

ہم نے بطور مجموعی”کام چوری” کا ثبوت دیتے ہوئے دنوں کی جدو جہد کو گفتار کی سہانی راتوں کے حوالے کر دیا ہے اور نتیجہ ہمارے سامنے۔

ہم بجائے اس فکر و تدبر کے کہ اپنا کھویا ہوا عروج کیسے پائیں، اپنا غلبہ اور فتح کیسے لوٹائیں، اس یاد ہی سے نہیں نکل پا رہے کہ کبھی ہم بھی غالب اور فاتح تھے۔

انسان جب تک حال میں جیتا رہتا ہے، وہ کمال اور اوج لائے رکھتا ہے، اور جب وہ ماضی کی کامیابیوں یا ناکامیوں کو حال پہ قیاس کرنے لگے تو دامنِ ماضی ہی اس کا مقدر ہوتا ہے۔

غزوہِ حنین میں مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار تھی اور کفار کے مقابلے میں زیادہ ہونے کے سبب کچھ صحابہ کے منہ سے یہ نکل گیا کہ،

"بھلا آج ہمیں کون شکست دے سکتا ہے”

یعنی انہوں نے اپنی ماضی کی کامیابیوں کو حال پر قیاس کرتے ہوئے کہا کہ جب کم تھے تب نہ یاد لائے تو بھلا آج کیسے کوئی ہمیں شکست دے پائےگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کو ان کا یہ کہنا اچھا نہ لگا اور اس کی بھاری قیمت مسلمانوں کو اٹھانی پڑی۔۔۔ اور پھر جب وہ "حال” میں داخل ہو کر دوبارہ برسرِپیکار ہوئے تو فتح سے ہم کنار ہوئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سبق دیا کہ ماضی کی شوکت پہ پہ نازاں ہونے سے انسان کا حال بے حال ہو جاتا ہے، اور اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ سبق دیا گیا جوکہ خیر القرون میں سے ہیں، تو پھر ہماشماکاکیاشمار,ہم کس زمرےمیں آتےہیں؟

اگر بات برِ صغیر کی کی جائے تو مغلیہ سلطنت، جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر  نے ڈالی، وہ تب تک قائم و دائم رہی جب تک نئے آنے والے حکمران پرانے حکمرانوں کے طرز کی تو تقلید کرتے رہے لیکن ماضی میں نہ ڈوبے۔۔ اور جب عیاش پرست ٹولا برسرِ اقتدار آیا جو طاؤس و رباب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر بھی یہ سمجھتا رہا کہ ہم ماضی کی طرح صاحبِ اقتدار و اختیار ہیں تو ان کا حال بہادر شاہ ظفر جیسا ہوا۔

غرضیکہ تاریخ پکار پکار کر ہمیں یہ درس دے رہی ہے کہ جب تک ماضی کے تلخ تجربات کو بروئے کار لا کر "حال” میں جینا اور مستقبل کی فکر کرنا نہ سیکھو گے، تب تک تمہاری حالت نہ سنورے گی۔

تبصرے بند ہیں۔