یوم آزادی یوم احتساب ہے

عادل فراز لکھنؤ

          ہم آزاد ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آزادی کی جد و جہد اور بلا تفریق مذہب و ملت دی گئی قربانیوں کی اہمیت ہم نہیں سمجھتے۔ یہ کڑوا سچ ہے۔ ہمارا جذبہ ٔ حب الوطنی صر ف اس وقت بیدار ہوتاہے جب پاکستان کے ساتھ تکرار ہو یا پاکستانیوں کے ساتھ کرکٹ میچ ہو۔ اگر واقعی ہمارے دلوں میں حب الوطنی کا جذبہ ہوتا تو اپنی ہزاروں سال کی گنگا جمنی تہذیب اور میل جول کی روایت کبھی ختم نہیں ہونے دیتے۔ ہم صرف اپنا بھلا چاہتے ہیں۔ ذاتی فائدوں کے پیچھے ہیں۔ ملک کی ترقی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہوتا پھر بھی ہم آزاد ہندوستان کے باعزت شہری ہیں۔

          کیا فقط آزادی کا جشن منالینا کافی ہے ؟۔ وطن پرستی پر مبنی فلمیں دیکھ کر تالی بجا نا یااپنے گھر کی چھت پر ترنگا نصب کرلینا ہماری حب الوطنی کے لئے کافی ہے۔ شہدائے آزادی کے چند نام ہمیں یاد ہوتے ہیں اور وہ بھی صرف اس لئے کہ وہ نام ہمارے نصاب کا حصہ ہوتے ہیں۔ اگر ان ناموں کی تاریخ کو نصاب سے ہٹا دیا جائے تو شاید ہم اتنی بھی زحمت نہ کریں کہ ملک کی آزادی کے لئے قربانیاں دینے والوں کی تاریخ کا مطالعہ کرسکیں۔ صارفیت زدہ عہد میں ہماری فکر بھی صارفی ہوتی جارہی ہے۔ زندہ قومیں کبھی اپنے شہیدوں کو مرنے نہیں دیتی ہیں بلکہ انکی تاریخ اور انکا جذبہ شہادت انکے حوصلوں کو مہمیز کرتارہتاہے۔

          جشن آزادی منانے سے پہلے ہمیں آزادی کا مفہوم سمجھنا ہوگا۔ آزادی کا مطلب ہے کہ جس ملک میں ہم زندگی گزاررہے ہیں وہاں ہمیں افکار اور نظریات کے ساتھ مذہبی آزادی حاصل ہو۔ ہر انسان اپنے عقیدہ اور نظریے کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے۔ مگر جہاں آزادی ٔ اظہار پر پہرے ہوں، مذہبی آزادی پر ہنگامے برپا ہوں اور جانوروں کو انسانوں پر ترجیح دی جارہی ہو وہاں جشن آزادی کا کیا مطلب رہ جاتاہے ؟۔ ہماری آزادی کسی ایک قوم یا کسی ایک مذہب کی مرہون منت نہیں ہے۔ ہماری آزادی ہندوستان میں موجود ہر مذہب اور ہر قوم کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ لہذا جس طرح بلا تفریق مذہب و ملت قربانیاں دیکر آزادی حاصل کی گئی ہے اسی طرح تمام مذاہب اور ہر قوم کو اسکا بنیادی حق ملنا ضروری ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آزاد ی کے بعد ملک کے اقتدار پر ایسے لوگ قابض ہوتے گئے جو سرمایہ دار وں کے غلام تھے۔ ان لوگوں کو ملک اور عوام کی ترقی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ذات پات اور مذہب کے جھگڑوں کو فروغ دیا گیا۔ نظریاتی تصادم کی بنیاد پر مسلکی تصادم کو بڑھاوادیا گیا۔ آزادی کے بعد ہندوستان کی عوام کو ایک دردمند حکومت کی ضرورت تھی جو آج تک انہیں نصیب نہیں ہوئی۔ ایسی حکومت جو انکی غربت، جہالت اور پسماندگی کو دور کرسکے۔ مگر جو لوگ اقتدار میں آئے انہوں نے غربت کے خاتمہ کے بجائے زمینداری کا خاتمہ کردیا تاکہ مسلمان کود لتوں سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے۔ جہالت کا اندھیرا ختم کرنے کے لئے تعلیم کی مشعل ضرورروشن کی گئی مگر اس مشعل کو جلانے کے لئے تیل کہاں سے آتا لہذا جو حکومتوں کو تیل دیتا گیا تعلیمی اداروں پر اسی کا قبضہ ہوتا گیا۔ پسماندگی دور کرنے کے لئے ذات اور مذہب کو پیمانہ بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دلتوں اور اقلیتوں کے حالات ویسے ہی ہیں جو آزادی کے بعد تھے۔

          آزادی کے بعداقلیتوں کے لئے بڑا مسئلہ قیادت کا تھا۔ مسلم قیادت تقسیم کے بعد بکھر گئی تھی۔ جو لوگ ہندوستان میں تھے انکی حیثیت ایسی نہیں تھی کہ اپنے بوتے پر انتخاب جیت کر اقتدار حاصل کرتے لہذا اسیاسی پارٹیوں نے ان چہروں کو صرف مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا۔ آزادی کے بعد مسلمانوں کو ہروزارت کا حصہ بنایا گیا خواہ وہ وزارت تعلیم کا شعبہ ہو یا اقلیتوں کی فلاح و بہبود کاشعبہ ہو مگر کسی بھی مسلمان وزیر کو اتنا اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ اقلیتوں ترقی کے لئے کو ئی منصوبہ بندی کرتا۔ مسلم قیادت کا یہی حال آج بھی ہے۔ چند نام ایسے ہیں جو اپنے بل پر انتخاب جیت کر آتے ہیں ورنہ زیادہ تر چہروں کو سیاسی پارٹیاں اقلتیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے آگے رکھتی ہیں۔ وہ جولوگ جو انتخاب جیت کر آتے ہیں انہیں قلمدان تو ضرور ملتاہے مگر انکے قلم اعلیٰ حکمرانوں کے اشاروں پر ہی حرکت کرتے ہیں۔ آج بھی اقلیتوں کو مضبوط قیادت کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی تفسیم کے بعد تھی۔ یہ ضروت کوئی مولوی پوری نہیں کرسکتاہے بلکہ ان کی سرپرستی میں کسی مضبوط قائد کو منتخب کرنا ہوگا۔ ورنہ جہالت، غربت اور پسماندگی کے اندھیرے کبھی نہیں چھٹیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔