یوپی الیکشن میں دہلی اور بہار کی تاریخ دہرانے کی ضرورت

اسجد عقابی

ملک عزیز اتنا بڑا اور آبادی سیپر ہے کہ کہیں نہ کہیں سال کے اکثر حصوں میں الیکشن کی گہما گہمی جاری رہتی ہے۔ کسی کی حکومتیں بنتی ہے، تو کچھ ٹوٹتی ہے، کچھ اپنی میعاد پوری کرکے جاتی ہے اور کچھ کو پہلے ہی روانہ کردیا جاتا ہے، کبھی کوئی پارٹی یکطرفہ ووٹ حاصل کرکے حکومت بناتی ہے کبھی دوسروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں سب معمول کے مطابق ہوتے رہے ہیں کبھی کوئی کمی زیادتی یا اشتعال انگیز بیانات کا سہارا لیا گیا ہے تو اس پر کاروائی ہوئی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی کہ الیکشن ہر طرح کے کرپشن اور غلط باتوں سے پاک صاف رہے۔ لیکن 2014 کے بعد اس میں کچھ تبدیلیاں پیدا کردی گئی ہے، اب جو بھی ریاستی الیکشن ہوتے ہیں بہت ہنگامہ خیز ہوتے ہیں، الیکشن کے دوران اپنے حریف کو طعنہ مارنا، غلط القابات سے نوازنا، خاتون لیڈروں کی عزتوں کو اچھالنا، ان کی ناکامیوں کو شمار کرانا، خود کو بہتر ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا نا، خود کو عوام کا سب سے مخلص قائد بتانا تو ہر جگہ ہوتا ہے، لیکن گالی گلوج اور اپنی پارٹی اور پارٹی کے نظریات کو وطن پرستی کا معیار قرار دینا اور اس بات کی تشہیر کرنا کہ ہمارے علاوہ اور کوئی دیش بھکت ہی نہیں۔ ایسا ہوتے نہیں دیکھا گیا تھا لیکن اب دیکھا بھی جارہا ہے پڑھا بھی جارہا ہے، کہا بھی جارہا ہے، لکھا بھی جارہا ہے۔

 دہلی الیکشن کے وقت ملک کے پارلیمنٹ کی ایک معزز رکن کی جانب سے’’رام زادے بمقابلہ حرام زادے‘‘کا نعرہ بلند کیا گیا، عوام کو مائل کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی، بڑی بڑی ریلیاں، بڑے بڑے جلوس، عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، یکطرفہ جیت کے دعوے، دوسروں کو نیست و نابود کرنے کی باتیں، اخبارات کی سرخیاں، ٹی وی اینکرز کی چیخ و پکار، نشریاتی پیغامات، تمام ممکنہ اقدامات کئے گئے، الٹی پڑ گئی ساری تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ دہلی الیکشن کا نتیجہ بہت معنی خیز ثابت ہوا، خود کو ناقابل شکست تصور کرنے والوں کو ایسی تاریخی شکست ملی کہ مستقبل قریب میں کم از کم اس کے ٹوٹنے کی امید نہیں ہے۔ دہلی الیکشن کے بعد باری آئی بہار الیکشن کی، بہار الیکشن میں نتیش کمار نے لالو پرساد اور کانگریس سے ہاتھ ملا کر سیکولر ووٹوں کو انتشار سے بچالیا، لیکن یہاں بھی وہی شور شرابہ وعدے دعوے، وعیدیں، دھمکیاں، خصوصی پیکج سے دل بہلانے کی کوشش ہوتی رہی مگر جب ان چیزوں کا جادو کام نہیں کرسکا، عوام اپنے ہر دلعزیز قائد نتیش کمار کیلئے کمر بستہ نظر ا?تی رہی تو پھر اچانک ایک ایسا جملہ وجود میں آیا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، ریلی میں ایک قومی پارٹی کے صدر نے کہا کہ اگر ہم ہار گئے تو پٹاخے پاکستان میں پھوڑے جائیں گے۔ اب بھلا بتائیں پاکستان کیلئے اب یہی ایک کام رہ گیا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے ریاستی الیکشن کے نتائج کے بعد پٹاخے پھوڑے۔ خیر ہو بہار والوں کا جنہوں نے بہار کے تاج کو یکطرفہ نتیش کمار کی جھولی میں ڈال دیا، اب ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں الیکشن کی تیاری زوروں پر ہے، ہر کوئی اپنے اپنے اعتبار سے میدان مارنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، کانگریس نے اپنی گرتی ساکھ کو بچانے کیلئے اپنا سب سے قیمتی پتہ بھی (پرینکا گاندھی) جھونک دیا ہے۔ وہیں بی ایس پی اور ایس پی بھی خم ٹھوک کر میدان میں آگئی ہے، اس کے علاوہ کئی ایک چھوٹی پارٹیوں نے بھی ہلہ بول دیا ہے۔ ان چھوٹی پارٹیوں کو کتنا فائدہ ہوگا یہ تو وقت بتائے گا لیکن یہ بڑی پارٹیوں کا کام ضرور بگاڑ سکتی ہیں۔

 یوپی الیکشن کا بخار جس طرح دیگر پارٹیوں کو ہے اس سے کہیں زیادہ بی جے پی کو ہے، پے در پے الیکشن میں شکست نے بی جے پی کے خیمہ میں ہلچل مچا رکھی ہے، آنکھوں کی نیند حرام ہوگئی ہے، گزشتہ چند ریاستوں میں ہوئی شکست سے ایک توقع یہ تھی کہ شاید یہ الیکشن اس طرح کی زبان درازی اور بیان بازی سے بچا رہے گا، مستقل لائحہ عمل تیار کرکے میدان مارنے کی کوشش ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ ابھی تو یوپی الیکشن کی تاریخ کا اعلان بھی نہیں ہوا ہے اور ہنگامہ مچا دیا گیا، ایسا ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش ہوئی ہے جس کا کوئی سر پیر ہی نظر نہیں آرہا ہے، بی جے پی کے ایک ممبر اسمبلی نے کہہ دیا کہ یو پی میں بی جے پی کی ہار پاکستان کی جیت ہے۔ اب بھلا کوئی بتائے کہ اگر بی جے پی ہار گئی تو کیا یو پی میں پاکستان سے وزیر اعلی بلایا جائے گا؟ جو ملک اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے وہ دوسروں کو کیا کہے گا، افسوس ہوتا ہے، کہاں چلی گئی ہمارے ملک کے راہنماوں کی عقلیں ؟ کیا تعصب میں ہم اس قدر گر چکے ہیں کہ اپنے اور دوسروں میں فرق نہ کرسکے؟ کیا اس طرح نفرت پیدا کرکے عوام میں دہشت پھیلا کر ہم ایک مہذب اور تعلیم یافتہ سماج بنا سکتے ہیں ؟ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، کیا  جمہوریت کیلئے اس طرح کے بیانات قابل نقصان نہیں ہے؟اس طرح کے بیانات کا ایک تسلسل ہے جو مخصوص ذہنیت کے لوگوں کی جانب سے دیگر اقلیتوں کو ہراساں کرنے کیلئے آتے رہتے ہیں، یوپی الیکشن کا سکندر کون ہوگا؟ یہ تو وقت آنے پر معلوم ہوگا لیکن اگر سماج دشمن عناصر کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی، اشتعال انگیز بیانات پر پابندی عائد نہیں کی گئی؟ بے لگام ہوتے درندوں پر نکیل نہیں کسی گئی تو بہت ممکن ہے کہ یو پی میں پھر ایک مظفر نگر کا دلدوز سانحہ پیش آجائے۔ یو پی الیکشن بہار الیکشن سے بہت مختلف ہوگا، بہار میں سیکولر پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگء تھی جبکہ اب تک یو پی میں اس طرح کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں، یو پی میں مقابلہ کئی سمتوں میں بٹ سکتا ہے، اگر سیکولر پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوتی ہے اور ہر کوئی خود کو تیس مارخاں تصور کئے بیٹھا رہا تو اس بار 2014 کے پارلیمانی الیکشن سے بھی بد تر حالت ہوجائے گی، یو پی الیکشن صرف مسلمانوں کی سیاسی ذہنیت کا امتحان نہیں ہے بلکہ ہر انصاف پسند اور جمہوریت نواز کی اگنی پریکشا ہے، پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت دوران الیکشن اپنے ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچانا ہوگا، بیدار مغزی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے سمجھوتہ کے تحت ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچائے اور اپنی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاسی لائحہ عمل تیار کریں۔ اگر سیکولر سیاسی پارٹیاں بہار میں سیکولر ازم کی جیت کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے تو بہت ممکن ہے کہ یوپی سے فرقہ پرستی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اگر اسی طرح ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں قائم رہیں تو بی جے پی کو یوپی فتح کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا لہذا وقت کا تقاضہ اور جمہوریت کی بقا کے لئے اپنی انا کو فنا کرتے ہوئے سیکولرزم کو مضبوط کریں اور متحد ہوکر فرقہ پرست طاقتوں کا مقابلہ کریں۔ مذہب ذات پات اور مسلک سے اوپر اْٹھ کر عظیم سیکولر جمہوری ملک کی حفاظت کے لئے کود پڑیں یہ ایک امتحان ہے ایسا امتحان جس پر لوک سبھا الیکشن کی بنیاد ڈالی جائے گی۔ موجودہ حکومت اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہے اس کا مقصد محض ملک کو ہندو راشٹر کی طرف لے جانا ہے اس راہ میں روڑا یوپی الیکشن ہے اگر وہ فاتح ہوگئی تو ملک کی گنگا جمنی تہذیب فنا ہوجائے گی۔ اسی لئے سوجھ بوجھ کے ساتھ اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال کریں اور یوپی کو فرقہ پرستی سے بچائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔