یوپی الیکشن کی تیاری اور مسلمان

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

یوپی میں الیکشن کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔ بحث میں بنے رہنے کیلئے تمام پارٹیوں میں جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ بھاجپا نے اپنی نیشنل ایگزکیٹو کی دوروزہ میٹنگ الہ آباد میں کراس کی شروعات کی تھی۔ کیرانہ سے ہندوئوں کے نقل مکانی کا معاملہ یہیں سے اٹھاتھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی کے اس مدے کی ہوا نکل گئی لیکن اس مسئلہ نے میڈیا میں خوب سرخیاں بٹوریں۔ بی جے پی یہ بتانے میں کامیاب رہی کہ اس کا وکاس کا مدا نہیں چلا تو وہ کمیونل کارڈ استعمال کرسکتی ہے جیسا کہ وہ 2014کے عام انتخابات سے پہلے کرچکی ہے۔ دوسری طرف اس نے اپنی صوبائی یونٹ کا صدر ایک پچھڑے کو بناکر پسماندہ ووٹوں پر اپنی دعویداری کو مضبوط کیا ہے۔ بھاجپا یہ مان کر چل رہی ہے کہ اعلیٰ ذات ہندوووٹ روایتی طورپر اس کی جھولی میں ہیں پسماندہ ووٹ اور مل جائیں تو اس کی کامیابی پکی ہے۔ مسلم ووٹوں پر نہ اس کی دعویداری ہے اور نہ ہی وہ انہیں اپنے ساتھ مان کر چل رہی ہے۔ کچھ ووٹ مل جائیں تو مل جائیں البتہ مسلم ووٹوں کے بے اثر کرنے میں وہ ضرور یقین رکھتی ہے۔ اس کیلئے مسلم راشٹریہ منچ کے کارکنان کام کریں گے،  کررہے ہوں گے۔

 کانگریس جو 1989سے اترپردیش میں واپسی کی راہ دیکھ رہی ہے۔ اس نے پارٹی کی اوپری سطح پر تبدیلی کر بحث میں جگہ پالی۔ 2016میں راہل کی جگہ پرینکا گاندھی کا نام چلنے لگا۔ طرح طرح کی خبریں آتی رہیں یوپی چنائو میں کانگریس کا چہرہ پرینکا گاندھی ہوں گی یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں لیکن آگئیں شیلا دکشت،  جو یوپی کی بہو ہونے کی بات بار بار دوہرارہی ہیں۔ کانگریس نے شیلا جی کو وزیراعلیٰ کا امیدوار بناکر یہ واضح اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ معطل برہمنوں کی پارٹی ہے۔ پرشانت کشور کا یہ ماننا ہے کہ کانگریس کے پاس اپنا کوئی ووٹ بینک نہیں ہے اس لئے مسلمان بھی اس کے ساتھ نہیں ہیں۔ اگر برہمن،  ٹھاکر کانگریس کے ساتھ آجائیں تو مسلمان خود بخود اس کے پیچھے چلنے لگیں گے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ پرمود تیواری،  شیلا دکشت اور جتن پرساد کے پیچھے کتنے برہمن آتے ہیں۔ کانگر کے اس قدم سے بھاجپا میں بے چینی ہوسکتی ہے۔

 پارٹی کی صوبائی اعلیٰ ٹیم راج ببر صدر،  آرپی این سنگھ سینئر نائب صدر،  جتن پرساد،  عبدالمنان انصاری،  کوری سماج کے رہنما گیان دین انوراگی،  جاٹ لیڈر چودھری وجیندر سنگھ،  پرمود تیواری نائب صدر اور شیلا دکشت نے الیکشن کیلئے بنائی گئی خصوصی بس کے ذریعہ ریاست کا دورہ کر زمین پر پارٹی تلاش کرنے کی کوشش کی۔ تین دن کے دورے کے اختتام پر کانپور میں عوامی جلسہ کرنعرہ دیا گیا27سال یوپی بے حال۔ یہ بھی کہا گیا کہ شیلا دکشت نے جس طرح دہلی کا وکاس کیا ہے اسی طرح وہ یوپی کو ڈولپ کریں گی۔ کانگریس کی ریلی میں جٹی بھیڑ سے متاثر ہوکر کل بنارس سے سونیاگاندھی نے پارٹی کی انتخابی مہم کا باضابطہ آغاز کیا۔ اس موقع پر کہا گیا کہ 1989کے بعد سے یوپی میں دھرم اور ذات کی سیاست کی جاتی رہی ہے۔ کانگریس وکاس کے نام پر عوام کے درمیان جائے گی۔ بنارس میں سونیا نے مودی کے انداز میں ہی روڈ شو کیا۔ مودی نے کہا تھا کہ ماں گنگا نے انہیں بلایا ہے۔ سونیا نے ماں گنگا کے نام پر بنارس کے لوگوں کو بھاجپا کے ذریعہ دھوکہ دینے کی بات کہی۔ کانگریس مسلمانوں کا ساتھ تو چاہتی ہے لیکن ان کی زبوں حالی دورکرنا نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس حال میں پہنچانے کی خدمت کانگریس نے ہی انجام دی ہے۔ کانگریس کی سوچ اس سطح تک نیچے آگئی ہے کہ پارٹی نے روزہ افطاری کی دعوت اس لئے نہیں دی کہ کہیں غیر مسلموں میں مسلمانوں کو نوازنے کا پیغام نہ چلاجائے۔ رہا سوال شیلا دکشت کا تو اپنے پندرہ سالہ دہلی کے دورحکومت میں انہوں نے کسی مسلم پسماندہ کو سرکار وپارٹی میں کوئی جگہ نہیں دی۔ ہم نے جب بھی مسلم پسماندہ کے مسئلہ پر ان سے بات کی انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ میں نہیں مانتی کہ مسلمانوں میں بھی پچھڑے ہوتے ہیں۔ انہوں نے الٹے ہم پر مسلمانوں کو بانٹنے کا الزام لگایا۔ یوپی کے مسلمانوں میں پسماندہ برادریوں کی اکثریت ہے۔ ایسی صورت میں یوپی کے پسماندہ شیلا جی سے کیا امید کرسکتے ہیں۔

سماج وادی پارٹی نے اشتہارات اور یوسٹرس کے ذریعہ اپنی انتخابی مہم کی شروعات کی ہے۔ اشتہارات میں تمام ہی طبقوں کیلئے سرکار کے ذریعہ کئے گئے کاموں کو بتایا جارہا ہے۔ یوپی کے ٹیمپو ٹرک پر پوسٹرچسپاں ہیں ’’کہو دل سے اکھلیش پھر سے‘‘ یہاں وزیر اعلیٰ کے نام کا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہیں بہوجن سماج پارٹی اپنی انتخابی سرگرمی کے بجائے پارٹی چھوڑ کر جانے والے مایاوتی کے قریبیوں کی وجہ سے سرخیوں میں رہی۔ بھاجپا کے صوبائی نائب صدر دیاشنکر سنگھ کی زبان پھسلنے سے مایاوتی بیٹھے بٹھائے عام جن کی گفتگو کا حصہ بن گئیں۔ دلت ناانصافی کے نام پر حاشیہ پر پڑی بہوجن سماج پارٹی الیکشن کی دوڑ میں آگے آگئی۔ بھاجپا پہلے دیا شنکر سنگھ کی وجہ سے اپنے آپ کو بیک فٹ پر محسوس کررہی تھی لیکن دلتوں کے رد عمل میں کی گئی بد کلامی نے بھاجپا کو اسے بھنانے کا موقع دے دیا۔ مانا جارہا ہے کہ دیا شنکر سنگھ کی اہلیہ،  بیٹی اور ماں کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کی وجہ سے بی جے پی کو پلٹ وار کرنے کا موقع مل گیا۔ وہ اس کے سہارے ٹھاکرووٹوں کو لام بند کرسکتی ہے۔

یوپی میں چھوٹی پارٹیوں نے بھی اپنا وفاق بنایا ہے۔ اس میں مسلم لیگ،  پیس پارٹی وغیرہ شامل ہیں۔ اویسی کی پارٹی کے الگ چنائو لڑنے کا امکان ہے۔ اس طرح یہ چھوٹے دل ووٹ کٹوا پارٹی کا رول اداکریں گے۔ اس سیاست کی شطرنج میں مسلمان کہیں بھی نہیں ہیں۔ نہ کھیلنے والوں میں نہ کھلانے والوں میں جبکہ ووٹ فیصد کے لحاظ سے آسام،  مغربی بنگال اور کیرالہ کے بعد یوپی میں مسلمان سب سے زیادہ 19فیصد اور دلت 21-20فیصد ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے صرف یوپی میں اتنے مسلمان رہتے ہیں جتنے کئی مسلم ممالک میں بھی نہیں ہیں۔ یوپی کی403نشستوں والی اسمبلی میں 68سیٹیں ایسی ہیں جن میں مسلمان35سے 78فیصد ہیں۔ ان زبردست آبادی والی سیٹوں میں بھی60فیصد سیٹوں کی نمائندگی غیر مسلم کررہے ہیں۔ 12فیصد پر ایس سی ریزرو ہونے اور باقی پر مسلمانوں کے بکھرائو کی وجہ سے۔ اس کے علاوہ 89انتخابی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلم آبادی 20سے 28فیصد تک ہے۔ 44پر مسلمان 15سے 19 فیصد اور 91پر 10سے 15فیصد کے درمیان ہیں۔ 108حلقوں میں مسلم آبادی 5سے 10فیصد ہے۔ مسلمان اتنی بڑی اور قابل ذکر موجودگی کے باوجود یوپی میں اپنی بنیاد پرآزادی کے 70سال بعد بھی اپنی سیاست کھڑی نہیں کرسکے ہیں۔

بہوجن سماج پارٹی،  کانگریس اور سماجوادی پارٹی میں سے مسلم ووٹوں کے بڑے دعویدار کے طورپر ملائم سنگھ کو دیکھا جاتا ہے۔ یوپی میں یادوووٹ صرف9فیصدہیں۔ وہ مسلمانوں کے دم پر اقتدار کی ملائی کھارہے ہیں۔ 2012کے انتخابی منشور میں سماجوادی پارٹی نے اقلیتوں سے 14وعدے کئے تھے۔ ان میں سچر کمیٹی رپورٹ کو لاگو کرنا اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کو لاگو کرانے کیلئے مرکزی سرکار پر دبائو ڈالنا شامل تھا۔ 48ماہ ہونے کے باوجودسرکار نے اس طرف کوئی پیش رفت نہیں کی ہے۔ اقلیتی مالیاتی کارپوریشن جس کے ذریعہ اقلیتوں کو روزگار شروع کرنے کیلئے قرض دیا جاتا ہے۔ مرکز اور ریاست کے جھگڑے کی وجہ سے یہ کارپوریشن بند ہے۔ کارپوریشن اقلیتی وزارت کے تحت آتی ہے جس کے وزیر مسلمانوں کے نام پر سیاست کرنے والے اعظم خان ہیں۔ دہشت گردی کی آڑ میں جن بے قصور مسلم نوجوانوں کو جیل میں ڈالا گیا انہیں رہا کرنے اور معاوضے کے ساتھ انصاف کرنے کا وعدہ کیاگیاتھا اس لئے جسٹس نمیش کمیشن رپورٹ کو لاگو کر مقدمات کو واپس لیا جانا تھا۔ باوجود کابینہ میں منظوری کے اس رپورٹ کو نظرانداز کیا جارہا ہے؟ اردو اساتذہ کی بھرتی،  وقف جائیدادوں کو تحویل اراضی قانون سے باہر رکھنا اور ان کے تحفظ کیلئے الگ قانون بنانے کا وعدہ صرف وعدہ ہی رہا۔ بلکہ خواجہ معین الدین چشتی اردو،  عربی،  فارسی یونیورسٹی سے ہی اردو کو نکال دیاگیا۔ 700مدرسوں کی جدید کاری کا اشتہار میں ذکر ہے لیکن یہ نہیں بتایاگیا کہ انہیں کتنا پیسہ دیا گیا۔ اس دوران سرکاری نوکریوں میں ہوئی بھرتی میں مسلمانوں کا حصہ نا کے برابر رہا۔ لوک سیوا آیوگ کے ذریعہ منتخب کئے گئے پی سی ایس کے 86عہدوں میں سے 54پر یادوں کا انتخاب ہوا ہے۔

مظفرنگر فساد میں اکھلیش سرکار کا رویہ انتہائی مایوس کن رہا۔ سماج وادی کی سرکار کے دوران مسلمانوں کے خلاف جتنے چھوٹے بڑے فرقہ وارانہ واقعات رونما ہوئے اتنے تو بھاجپا کے دور حکومت میں بھی نہیں ہوئے تھے، ابھی بھی اس طرح کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ راجیہ سبھا اور ودھان پریشد کی نمائندگی میں بھی اکھلیش سرکار نے مسلمانوں کو مایوس کیا۔ ڈی ایس پی ضیاء الحق کے قتل کی سازش کاا لزام لگنے والے راجہ بھیا کو وزیر بنائے رکھا۔ بابری مسجد پر گولی چلواکر ملائم سنگھ نے ہی اس کے انہدام کی بنیادرکھی تھی۔ بابری مسجد کی اینٹیں لاکر اپنے بیت الخلا میں لگوانے والے ساکشی مہاراج کو سپا نے ہی راجیہ سبھا بھیجا تھا۔ بعد میں بھاجپا میں شامل ہوکر وہ لوک سبھا کے ممبر بنے۔ بابری مسجد کو منہدم کرانے والے کلیان سنگھ کو بھی ملائم سنگھ نے سپا میں شامل کیا تھا۔ ملائم سنگھ نے بہار میں مہاگٹھ بندھن سے ناطہ توڑ کر بھاجپا کو کامیاب کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔

خیر مسلمانوں کو اپنی لڑائی خود لڑنی ہوگی۔ اس کیلئے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ مسلمان اپنی سیاسی پارٹی بناکر انتخاب میں حصہ لیں۔ دوسرے کسی پارٹی کے ساتھ معاہدہ کریں۔ اس کیلئے گائوں کی سطح سے لے کر ضلعی سطح تک کمیٹیاں تشکیل کی جائیں۔ ان کمیٹیوں میں سبھی مسلم جماعتوں و مسلکوں کی نمائندگی ہو۔ پھر یہ ضلعی کمیٹیوں کے ذمہ دار پوری ریاست کی کمیٹی تشکیل کریں۔ وہ کمیٹی تمام پارٹیوں کے لوگوں کو بلاکر بات کرے۔ جو ملت کے حق میں ہو اس کے ساتھ معاہدہ کیا جائے۔ اس سے مسلمان اپنی طاقت اور موجودگی کا احساس کرانے میں کامیاب ہوں۔ یہی طاقت آگے چل کر اپنی سیاست کھڑی کرنے میں معاون ہوگی۔ دوسروں کے ہاتھوں اپنی کمان سونپنے کے بجائے اپنی لڑائی خود لڑنا بہتر ہوتا ہے،  کتنا ہی ایماندار ہو کوئی دوسرا آپ کیلئے آپ کے بغیر نہیں لڑسکتا۔ بس جتنی جلد یہ بات سمجھ میں آجائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔