یوپی انتخاب: آرپار کی جنگ ہے!

  اتر پردیش سیاسی اعتبار سے ملک کی سب سے اہم ریاست ہے اور اسی وجہ کر یہاں  کا انتخاب ہندوستانی سیاست میں  کافی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں  کے عوام نہ صرف پردیش کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں،  بلکہ بھارت کے قسمت کا بھی فیصلہ کرتے ہیں۔  یہ کہا جا ئے تو بجا ہو گا کہ جس نے یوپی کو جیت لیا اس نے پورے ملک پر قبضہ کر لیا۔۔ یہ انتخاب مسلمان اور سیکولرلوگوں کیلئے بھی اہم مقام رکھتا ہے تا کہ انکا ایک بھی ووٹ ضائع نہ ہواور ذات ،پات اور کچھ ذاتی فائدے کے بنیاد پر انکے ووٹ تقسیم نہ ہو۔ غور طلب ہے کہ یوپی میں  مسلمانوں  کی تعداد غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق 22%ہے۔ یہاں  403 اسمبلی حلقہ ہیں  لیکن ریزرویشن کے نام پر پنچایت سے لیکر اسمبلی و پارلیا منٹ تک میں  مسلم نمائندگی میں  کافی کمی آئی ہے۔

اتر پردیش کی اسمبلی انتخاب میں بہوجن وسماجوادی پارٹی ،کانگریس اور بھاجپا جیسی بڑی پارٹیاں  میدان میں  ہیں تو انکے ساتھ ہی کچھ مسلم  پارٹیاں  بھی زور آزمائی کرتی ہیں۔  بالعموم یہا ں  کے مسلمان سیکولر امیدوار کی حمایت کرتے ہیں،  وہ یہاں  403اسمبلی میں  سے 312 حلقہ پر  گرفت رکھتے ہیں۔  ان میں  209 اسمبلی ایسے ہیں  جہاں  مسلمان اپنے من کے مطابق زیادہ سے زیادہ مسلم و سیکولرممبران اسمبلی میں  بھیج سکتے ہیں۔  جس سے انکے من پسند حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے۔ تاہم مسلمانوں  کا ووٹ زیادہ ترسماجوا دی اور بہوجن پارٹی کو جاتا رہا ہے۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں  مسلما نوں  نے کھل کر سماجوادی پارٹی کا ساتھ دیا تھااور اسی وجہ کر اسے 224 سیٹیں  حاصل کرنے میں  کامیابی ملی تھی۔ حالانکہ گزشتہ کچھ سالوں  میں  کئی مسلم پارٹیاں  بھی میدان میں  آچکی ہیں،  ان میں اتحاد المسلمین، نیشنل لوک تانترک پارٹی، پیس پارٹی(لیکن ڈاکٹرایوب اس پارٹی کو مسلم پارٹی نہیں  مانتے ہیں  اور نہ ہی وہ مسلمانوں  کے کوئی مسئلہ سے دلچسپی رکھتے ہیں ) ،علماء کونسل،نیشنل مسلم لیگ،قومی ایکتا دل ، مسلم مجلس، پرچم پارٹی ،ایس ڈی پی آئی اور ویلفیر پارٹی کا نام اہم ہے حالانکہ اسماعیل باٹلی والا، اقبال لوکھنڈ والا ،محمد شمشاد، مظفر علی اور یوپی رابطہ کمیٹی کے ڈاکٹر امان اللہ خاں  نے انکے درمیان ایک اتحاد قائم کرنے اور انہیں  اس بات پر مفاہمت کرا نے کی کوشش کی تھی کہ وہ ان ہی سیٹوں  پر اپنی قسمت آزمائی کریں  جہاں  سے انکا جیتنا یقینی ہو۔ لیکن ان پارٹیوں  کے رہنمائوں  نے اپنے اپنے مفاد میں اس اتحاد کیلئے کوئی دلچسپی نہیں  دکھائی بلکہ اس اتحاد کیلئے ایک روڑا بنکر سامنے آگئے۔ ظاہر ہے الیکشن کے وقت منظر عام پر آنے والی ان پارٹیوں  سے مسلمانو ں  کا کچھ بھلاہو یا نہ ہو لیکن بھاجپا کا بھلا ضرور ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ کر اکثر مسلم رہنما ئوں  کا نام بھاجپا کے ایجنٹ کے طور پر لیا جاتا ہے۔

 2012کے انتخاب میں  کل 67مسلم ممبران اسمبلی منتخب ہوئے تھے، جبکہ دوسرے نمبر پر رہنے والے 63 مسلم تھے۔ یعنی 130لوگ اس دوڑ میں  تھے۔ جن میں کچھ ایسے امیدوار بھی تھے جو چند سو ووٹوں  سے ناکام ہوئے۔ اگر مسلم ووٹراور قائدین کوئی حکمت اپنا تے توانہیں  ہار نہ ہوتی۔ اسطرح وہ 39اور مسلموں  کو ممبر اسمبلی بنا سکتے تھے۔ یعنی یوپی اسمبلی میں  مسلمانوں  کی تعداد 105سے 115 تک جاسکتی تھی۔۔ واضح ہو کہ رامپور میں  مسلما ن 52%،میرٹھ میں  53 ،مرادآبادمیں 46 ،امروہہ میں  44 ، بجنورمیں  42 ، کیرانہ میں  39، مظفر نگر میں  38، سنبھل میں  36 ، بریلی میں  25 ،سرسوتی میں  23 ، جونپور میں  21 ، بدایوں ،علی گڑھ ،اعظم گڑھ ،سیتا پور،کھیری ، ڈومریا میں  20% ،جبکہ فروخ آباد ، سلطا نپور، ورانسی ،غازی پور ،گھوسی ، میں   18-19% مسلمان بستے ہیں  لیکن مسلما نوں  کا ووٹ بٹ گیا اور وہ اپنی پسند کا امیدوار نہیں  چن سکے۔

 اگر2014کے انتخاب کے قبل سیکولر پارٹیوں  کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہو جا تا تو انہیں  وہاں  کی سبھی  سیٹیں حاصل ہوسکتی تھی۔ واضح رہے کہ اس انتخاب میں  بھاجپا اور اسکے اتحادیوں کو محض 42% ووٹ ملے تھے، جس کے وجہ کر بھاجپا کو 71 اور اسکے اتحادی اپنا دل کو دو 2سیٹیں  ملی تھی، جبکہ سماجوادی پارٹی کو 22% ووٹ لیکر صرف پانچ 5سیٹ اورکانگریس  8% ووٹ لیکردو سیٹ بچانے میں  کامیاب ہوئی تھی جبکہ بہو جن پارٹی  20%ووٹ لیکر ایک بھی سیٹ نہیں  جیت سکی اگریہ پارٹیاں  متحد ہو جا تیں  تو 50% ووٹ حاصل کرنے کے بعد ساری سیٹیں  انہیں  کے حق میں  آجاتی یعنی بھاجپا کا صفایا ہوجاتا۔  اسی طرح 2012کے اسمبلی انتخاب کے نتائج کے بنا پر بہوجن سماج پارٹی26%، کا نگریس کی 13.26%،پیس پارٹی کا 6.34%، قومی ایکتا دل کی 5.23%اتحاد ملت کی 2.35%اور آر ایل ڈی کے 2.33% ووٹوں  کو یکجا کر دیا جائے تو 55.5% فیصد ووٹ ہوجاتا ہے .

بہار کے نقشہ قدم پر کانگریس علاقائی پار ٹیو ں  کے ساتھ ملکر انتخاب کی تیاری کرے تو صرف یوپی ہی نہیں ملک کا نقشہ ہی بدل جائیگاایک با ت تو طے ہے کہ اسکے بنا پر مسلمانوں  کا ووٹ صرف سیکولر کی جانب جائیگا تو اوران کا حشر ایسا نہیں  ہوگاظاہر سی بات ہے اس انتشار کا فائدہ بھاجپا اور اسکے اتحادیوں کو ہواتھا اور سیکولر پارٹیو ں  کی ہوا نکل گئی آئندہ اسمبلی انتخاب میں  بھی بھاجپا یہی چاہتی ہے کہ سیکولر اور مسلم ووٹوں  کو منتشر کیا جائے اس طرح مسلما نوں  کا ووٹ صد فی صد ایک طرف ہو جائے  ۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ مغربی اتر پردیش کے آگرہ ،متھرا،علی گڑھ،بلند شہر،خورجہ ،غازی آباد،گوتم بدھ نگر ، مرآداباد ،سنبھل، بریلی ،شاملی، میرٹھ ،مظفر نگر،باغپت اور سہارن پورکے پہلے مرحلہ میں  15اضلاع 77اسمبلی سیٹ پر ووٹنگ ہونا ہے 2012 کے اعدادو شمار کو دیکھیں۔  تو یہاں  سماجوادی کو 34،بہوجن پارٹی کو 23، بھاجپا کو 13 ، ارایل ڈی کو 9 اور کانگریس کو 5 سیٹوں  پر کامیابی ملی تھی۔ متھرا کی مانٹ سیٹ ضمنی انتخاب میں  بھاجپا کو مل چکی ہے جبکہ متھرا کے ہی گووردھن اور علی گڑھ کی برولی کے ار ایل ڈی ممبر اسمبلی بھاجپا میں  شامل ہو چکے ہیں۔

گزشتہ 2014کے انتخاب میں  بھاجپا نے اترپردیش کے 80 میں  سے 71سیٹوں  پر کامیابی حاصل کرکے حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا تھا۔ اس طرح بھاجپا نے 337 سیٹوں  پر اپنا قبضہ جما لیا تھا جبکہ اس اسمبلی انتخاب میں  انہوں  نے 265 کا نعرہ دیا ہے۔ یعنی انہوں  نے خود ہی شکست تسلیم کر لیاہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اس انتخاب میں  لوک سبھا والی پوزیشن یعنی 42% ووٹ کسی بھی حال میں  نہیں  ملے گا جبکہ 2012 کے انتخاب میں  صرف 15.16%ووٹ بھاجپا کو ملا تھا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر بھاجپا لوک سبھا کے اعدادو شمار کی بنیاد پر کچھ سوچ رہی ہے تو یہ اسکا وہم ہی ثابت ہوگا۔ جنوبی بھارت کی طرح شمالی بھارت و ہندی علاقہ میں  اسکے مطابق کوئی رائے قائم کرنابہت ہی مشکل کام ہے۔ یہاں  ذات پات اور علاقائی رہنمائوں  پر پارٹیاں  ابھرتی اور زوال پزیر ہوتی ہیں  شاید ہی ایسا کبھی ہوا ہوگا جب مرکزی رہنمائوں  کے بل بوتے کوئی پارٹی ابھری ہو کانگریس کا حال جگ ظاہر ہے۔ بہار اور اترپردیش میں  اسی وجہ کر اسکا برا حال ہوگیا ہے۔ اسوقت کانگریس اور بھاجپا کا حال بھی ایک جیسا ہے کہ ریاستی سطح پر ان پارٹیوں  کوئی ایک بھی ایسا رہنما نہیں  ہے جو اپے بل بوتے اپنی پارٹی کی نیا کھیپ سکے ویسے بھی نوٹ بندی کے بعد عام لوگوں  کو بھاجپا سے دلچسپی ختم ہوگئی ہے جو اسے نقصان پہنچائے گا اسکے علاوہ یہاں  کا انتخاب مکمل طور سے ذات کی بنیاد پر لڑا جاتا ہے۔ اس حالت میں  کوئی بھی بہوجن پارٹی او ر سماجوادی پارٹی سے انکار نہیں  کر سکتا ہے تقریبا  اسمبلی میں  سے 312 حلقہ ایسے ہیں  جہاں  مسلمانوں  کا اثر و رسو خ ہے اور ان میں  کم سے کم 209 اسمبلی ایسے ہیں  جہاں  مسلمان اپنے من کے مطابق زیادہ سے زیادہ مسلم و سیکولر ممبران اسمبلی میں  بھیج سکتے ہیں  جس سے انکے من پسند حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے۔

 اتر پردیش میں  اگر بھاجپا شکست ہوتی ہے تو امیت شاہ اور مودی جی کیلئے 2019 کا لوک سبھا کا انتخاب کافی مشکل ثابت ہو سکتا ہے اسلئے وہ کوئی بھی کسر چھوڑنا نہیں  چاہے گی۔ اس نے اپنے کور ذات براہمن ،پنڈت،یعنی اعلی ذات کے علاوہ پسماندہ طبقہ کانفرنس ،دلت کانفرنس ،نوجوان کانفرنس ،مہیلا کانفرنس ، مسلم کانفرنس کے ساتھ ساتھ کسانوں  کو بھی اپنے ساتھ لانے کیلئے ایک لائحہ عمل تیار کررہی ہے اوربھاجپا اس نہج پر کام بھی کر رہی ہے۔ اسکے علاوہ اس بات کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھا ہے کہ جو چاہے بھاجپا میں  شامل ہونا چاہتا ہے اسے بنا روک ٹوک کے پارٹی میں  شامل کردیا جائے گا۔

اترپردیش میں  30%ووٹ پانے والی حکومت بنا لیتی ہے گزشتہ تین اسمبلی الیکشن میں  سماجوادی پارٹی کو اوسطا 25% ، کانگریس کو 10% اور راشٹریہ لوک دل کو مغربی اترپردیش میں  10% ووٹ ملتا رہا ہے۔ اگر سماجوادی پارٹی سے کانگریس اور راشٹریہ لوک دل کا اتحاد ہو جاتا ہے تو اس سے نہ صرف مسلمانوں  کا بھروسہ بڑھے گا بلکہ وہاں  کے سیکولر ووٹروں  کا بھی ان پر اعتماد قائم ہو گا۔ مغربی یوپی کے 77 اسمبلی سیٹیں  ایسی ہیں  جہاں  26% مسلم اور 17% جاٹ رہتے ہیں جبکہ یوپی میں  19% مسلم ہیں  جو عام طور پر سماجوادی ، بہوجن پارٹی اور کانگریس کو ووٹ کرتے ہیں ۔

اس بات سے انکار نہیں  ہے کہ کانگریس کے پرمود تیواری، سلمان خورشید، شری پرکاش جیسوال،جتن پرشادجیسے تقریبا دو درجن رہنما ایسے ہیں  جو اپنے کو پارٹی کا ایک بڑا رہنما تسلیم کرتے ہیں  چاہے انہیں  یوپی کے عوام ووٹ کریں  یا نہیں  انکا ماننا ہے کہ اگر شیلا دکشت کو وزیر اعلی کی حیثیت سے پیش نہیں  کیا گیا تو براہمن اور اعلی ذاتوں  کا ووٹ انہیں  نہیں  ملے گا۔ جسکا انہیں  نقصان ہوگا۔ لیکن دوسری جانب کانگریس کا ایک طبقہ یہ مانتا ہے کہ اگر کانگریس کو سماجوادی کا ۲۵ فیصد ووٹ مل جاتا ہے تو 35% ووٹ لے کر کانگریس بہت ہی زیادہ سیٹوں  پر کامیابی حا صل کر سکتی ہے یعنی اسے کم سے کم 52 سیٹوں  پر کامیابی حاصل ہو سکتی ہے 1989کے بعد کانگریس کی مقبولیت میں  لگاتار کمی آتی رہی ہے۔ 1989 میں  کانگریس کے پاس 94 اسمبلی تھیں ۔ 1991 میں  وہ گھٹ کر 46 ہو گئی ،1993میں  28، تو 1996 میں  33 ہوگئی ،2002 میں  25 تو 2007 میں  22 اور پھر 2012 میں  28 سیٹیں  ہی اسے مل سکیں۔  کانگریس کے مانے جانے والے گڑھ امیٹھی ،رائے بریلی اور سلطان پور میں  بھی سماجوادی پارٹی نے 2012 میں  15 میں  سے 12 پر کامیابی حاصل کی تھی (کانگریس امیٹھی اور رائے بریلی کی 12 میں  سے 9سیٹیں  پردعوی کر رہی ہے، کیونکہ یہ علاقہ سونیا اور راہل کا گڑھ ہے جبکہ ان 12 اسمبلیوں  میں  سے 9 سماجوادی کے پاس ہے )اسکے علاوہ مغربی یوپی اور کھیری کے 25 سیٹوں  پر کچھ یہی کہانی ہے۔ ان سیٹوں  پر یا تو سماجوادی پارٹی کے ممبر اسمبلی ہیں  یا وہ دوسرے نمبر پر رہے ہیں۔  کانگریس چاہتی ہے کہ ان 15 سیٹوں  پر کانگریس کے امیدوار سماجوادی کے سمبل (نشان )پر الیکشن لڑیں  لیکن سماجوادی پارٹی کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو انکے لیڈران کہیں  بغاوت نہ کردیں  غور طلب بات یہ ہے کہ یوپی میں  19% مسلمانوں  کی آبادی ہے 2012کے الیکشن میں  اس میں  سے سماجوادی کو39% کانگریس کو 18% ووٹ ملا تھا جسکا فائدہ اس اتحاد کو ملنا لازمی ہے۔

2012کے الیکشن میں  کانگریس کو صرف 28 سیٹیں  ملی تھی اور وہ 32 سیٹوں  پر دوسرے نمبر پر رہی تھی۔ جبکہ ان میں  تین سیٹیں  ایسی تھیں  جہاں  کانگریس صرف 500ووٹوں  سے شکست رہی تھی بقیہ 15 سیٹیں  ایسی تھیں  جہاں  جیت اور ہار کا فرق پانچ سے پندرہ ہزار ووٹوں  کا تھا اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر کانگریس کو پندرہ ہزار ووٹ مل جائے تو اسے 46 سیٹوں  پر کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر اس طرح وہ کامیابی کا سفر کرتی ہے تو 2019کے لوک سبھا انتخاب میں  وہ سماجوادی سے ایک بڑا سودا کر سکتی ہے۔

جہاں  مسلمانوں  کی آبادی 20% سے 35% فیصد ہے لیکن وہ اپنی پسند کے امیدوار کو منتخب کرنے میں  ناکام رہے۔ کیو نکہ انتخاب سے قبل انہوں  نے متحدہ حکمت عمل تیار کرنے میں  کوئی دلچسپی نہیں  لی تھی اور نہ ہی ووٹروں  کی رہنمائی کرنے کی طرف کوئی توجہ کی تھی۔ اسکے علاوہ ٹکٹ لینے والے اور انکے حا می بھی صرف یہ نہ سوچیں  کہ انہیں  ذاتی طور پر جیتنا یا کسی کو جیتانا کافی اور لازمی ہے بلکہ یہ سوچیں  کہ ملت کی جیت کس لائحہ عمل میں  ہے اسکے ساتھ ہی ملک کے باقی صوبہ کے لوگوں  کو بھی اترپردیش کو اپنے حال پر چھوڑدینا ملک کیلئے بہتر نہیں  ہوگا۔ بلکہ انہیں  بھی انکے درمیان جاکر اور کوئی راہ  ہموار کر کے انکے درمیان اتحاد کا کوئی راستہ نکالنا چاہئے۔ اسی سے مثبت فرق پڑنے کی امید ہے جس طرح دہلی اور بہارکے مسلمانوں  نے متحد ہوکر بھاجپا کے خلاف زیادہ سے زیادہ ووٹ دیکر سیکولر پارٹیوں  کو کامیاب بنایا تھا اسی طرح کی مثال اترپردیش کے لوگوں  کو بھی قائم کرنی چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔