یوپی انتخاب :منظرنامہ پر ابھرتے نقوش

ہندوستان کی عظیم ریاست اتر پردیش میں  انتخابی عمل کا اعلان ہوچکا ،تمام سیاسی جماعتیں  اور دھڑے اس صوبہ کی سیاسی اہمیت سے بھرپور واقف ہیں ،ان کے علم میں  ہے ،یہاں  فتح کا پرچم لہرانا ،نمایاں  مقام اور کامیابی حاصل کرنا کیا معنی رکھتا ہے ،یہاں  کی کامیابی دہلی کی راہیں  ہموار کرتی ہے ، مقدر کا ستارہ روشن کرتی ہے اور کسی بھی لیڈر کے سیاسی قد کو بلند کرتی ہے ،اس خیال کے پیش نظر تمام رہنماؤں  کی راتوں  کی نیند اور دن کا سکون غارت ہے ،جب دیکھئے تب سڑکوں  پر برق رفتاری سے دوڑتی گاڑیاں  ،ریلیوں  میں  چیختے لیڈر ،گلی محلوں  میں  دوڑتے سیاسی جماعتوں  کے کارکن اور ہر دن ریاست کے کسی نہ کسی شہر میں  ہوتے لیڈران کے خطابات اس امر کا احساس کرانے کے لئے کافی ہیں  کہ وہ یوپی میں  تاج پوشی کے لئے کس قدر بے قرار اور فکر مند ہیں  اور اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے کس حد تک جا سکتے ہیں  ،حتی کہ وزیر اعظم واضح طور پر کہہ چکے ہیں  یوپی میں  وہ خود پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں  اور کسی کی دخل اندازی برداشت نہیں  کریں گے ،اپنے اعتبار سے فیصلے لیں  گے،کب کیا ہونا ہے؟کیا حکمت عملی ہے ،وہ خود ہی پایۂ تکمیل تک پہنچائیں  گے ، نوٹ بندی کے بعد یہ انتخاب بی جے پی کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے اور اس کے نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے کی حکمت عملی تیار کی جائے گی ،چوں کہ مزید چار صوبوں  میں  انتخاب ہونے ہیں  اور بی جے پی آگے بھی کامیابی کا سفر جاری رکھنا چاہتی ہے،پینترا بدلنے میں  اسے وقت نہیں  لگے گا ،گذشتہ دنوں  ساکشی مہاراج کے بھونڈے الفاظ اسی قبیل کی ایک دلیل ہیں  ،اس صورت حال کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ یوپی میں  وہ کیا گل کھلاتے ہیں  ،مگر ان کی جد و جہد اور محنت جاری ہے۔

 دوسری طرف بی ایس پی بھی پوری طرح مصروف عمل ہے اور جس تعداد میں  اس نے مسلمانوں  کو میدان میں  اتارا ہے ،اس سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ بہوجن سماج پارٹی کی حکمت عملی صاف ہے ،وہ مسلمانوں  اور دلتوں  کے دم پر کرسی حاصل کرنا چاہتی ہیں  اور یہ دونوں  طبقے یوپی کا وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کی بھرپور قدرت رکھتے ہیں  ،لیکن عوام کے ذہنوں  میں  بہن جی کے وہ الفاظ ابھی بھی گردش کررہے ہیں  اور ابھی تک وہ تقریر ذہنوں  سے محو نہیں  ہوئی ،جو انہوں  نے اسمبلی انتخاب کے لئے کہے تھے اور مسلمانوں  کو بے وفا متشدد ثابت کرنے کی کوشش کی تھی اور ساتھ ہی بی جے پی کو ووٹ ڈلوانے کے فیصلہ پر فخریہ کلمات کہے تھے ،اس صورت حال کے بعد ریاست کے مسلمان تذبذب میں  مبتلا ہیں۔   بہن جی پر بھروسہ کیسے کیا جائے ؟انتخاب کے بعد ان کی حکمت عملی کیا ہوگی ؟کیا وہ بی جے پی کی طرف جھک سکتی ہیں ؟کیا جیت اور ہار دونوں  صورتوں  میں  وہ مسلمانوں  کو بھلا سکتی ہیں  ؟یہ سوالات ذہنوں  میں  الجھن پیدا کررہے ہیں اور پاؤں  کی بیڑی بنے ہوئے ہیں  ،علاوہ ازیں  کانگریس کی صوبہ میں  کیا حالت ہے ،وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں  ہے ،اس کے باوجود وہ بھی اپنے دائروں  کو ذہن میں  رکھتے ہوئے ،اپنی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور انتخاب میں  کسی طرح کے کسل اور سستی سے کام نہیں  لینا چاہتی ،اگر چہ’’بہت مشکل ہے ڈگر پنگھٹ کی‘‘لینے حوصلوں  اور آرزوؤں  کے رتھ پر سوار وہ بھی معرکہ سر کرنے کے فراق میں  ہے۔  الغرض تمام ہی  چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں  اپنے نشانہ کو پانا چاہتی ہیں ،لیکن یوپی کی سب بڑی اور عظیم سیاسی جماعت، جس کے بانی کو مرد آہن کہا گیا جس کے کھویا اعظم ہیں  ،وہ رشتوں  کے تلاطم خیز دریا میں  ہچکولے کھارہی ہے اور ہر گذرنے والا لمحہ اس احساس کو شدت بخش رہا ہے کہ کہیں  یہ کشتی ڈوب نہ جائے ،اور سائیکل کا نشان اس انتخاب میں  ہماری نگاہوں  سے اوجھل ہو جائے ،اس صورت کو تو وقت کا پہیہ عالم آشکارہ کردے گا ،اس کے علاوہ بھی اگر گفتگو کی جائے تو چند دنوں  سے جس صورت حال سے ملائم نبرد آزما ہیں  ،ہر کوئی اسے انتخابی تدبیر خیال کررہا تھا ،لیکن وقت کے بہاؤ نے خیالات کا رخ موڑ دیا ،اور یہ ہوائی شئے حقائق میں  تبدیل ہوگئی ،چچا بھیجے کے اختلاف نے گھروندا ہی تنکے تنکے کردیا۔  باپ ایک کنارے اور بیٹا دوسرے کنارے پر ،جس کو جدھر مفاد کا احساس ہے ،وہ اسی جانب تال ٹھوک رہا ہے ،وقت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ سنئیر لیڈران اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتے ،لیکن منظر نامے پر کچھ اور ہی تصویر ابھر کر آئی ہے،اعظم خان کے علاوہ کوی ایسا لیڈر نظر نہیں  آیا جس نے اتحاد کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا تو دور کی بات ہے کوشش بھی کی ہو ،اعظم خاں ہی ایسے لیڈر تھے جنھوں  نے ثابت کردیا کہ وہ پارٹی کے تئیں  مخلص ہیں ، ورنہ مفاد پرستی نے ہر چہرے سے نقاب الٹ دیا اپنے اور پرائے کی صراحت کردی ،انتخاب کی قربت کے وقت یہ صورت حال بہت خطرناک ہے ،تمام سیاسی جماعتیں  عوام کو اپنی طرف مائل کرنے میں  مصروف ہیں  اور انہیں  اپنے کارناموں  سے متعارف کرا رہی ہیں  ،صرف سماجوادی پارٹی ہی ہے ،جہاں  سائیکل ہماری ہے، ہماری ہے کا نعرہ سننے میں  آرہا ہے۔ اب تک کی صورت حال واضح کرتی ہے کہ یہ گھریلو تنازع سماجوادی کے لئے مفید تھا ،لیکن اب گذرنے والا ہر لمحہ اس صورت حال کا فائدہ بی جے پی اور بی ایس پی کو پہنچائے گا اور یہ انتخاب جو بہت حد تک سماجوادی کے حق میں  جاسکتا تھا ،کہیں  اور چلا جائے گا، لیکن ابھی بھی اگر صلح ہو جاتی ہے ،ملائم اپنے سابقہ فیصلوں  کی طرح کوئی بڑا فیصلہ کرتے ہیں  ،سماجوادی برقرار رہتی ہے تو نتائج کچھ اور ہی ہوں گے اور خاص طور پر اگر اکھلیش سماجوادی پارٹی کا چہرہ رہتے ہیں  ،تو یہ امر بعید از قیاس نہیں  کہ وہ سابقہ روایت کو دہرا سکتے ہیں  اور سماجوادی تاریخی مراحل کا سامنا کرسکتی ہے اور اگر اکھلیش سماجوادی سے الگ ہوجاتے تو سماجوادی کی ساکھ ختم ہونے کہ امکانات روشن ہیں ۔  اس جھگڑے نے اکھلیش کو عوام سے جتنا قریب کیا ہے ،شاید پانچ سال کے کاموں  نے نہیں  کیا ،عوام شکوہ شکایتیں  بھول بیٹھے ہیں  ،ہمدردی کا جذبہ بیدار ہوگیا ہے ،ان سے محبت کا اظہار کررہے ہیں  ،ان میں  مستقبل کا عظیم رہبر اور اپنی تکلیفوں  کے خاتمہ کی صلاحیت محسوس کررہے ہیں ، ،نئی فکر، نئی نظر، نیا جوش و جذبہ دیکھ رہے ہیں ۔  ہر حال میں  انہیں  ترقی کے منازل طے کرتے دیکھنا ان کا خواب محسوس ہورہا ہے ،اب یہ دیکھنا باقی ہے کیا سماجوادی کے افراد اس صورت حال کو سمجھ پائیں  گے ؟کیا طوفان خاموش ہو جائے گا ؟کیا اعظم خاں  کی محنت رنگ لائے گی ؟کیا ملائم سنگھ یادو بیٹے کو واپس پالیں  گے ؟کیا رام گوپال یادو کا لہجہ نرم پڑے گا؟ کیا شوپال پارٹی کے مستقبل پر توجہ دیں  گے ؟کیا امر سنگھ پارٹی کے مفاد کو سمجھ پائیں گے ؟کیا ٹکٹوں  کے کھیل کا یہ گھماسان رک جائے گا ؟آنے والے دو چار دن ان تمام سوالوں  کے جواب فراہم کردیں  گے اور یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ سماجوادی اس سنہرے موقع کا فائدہ اٹھا پاتی ہے یا نہیں ، جب کہ دیگر سیاسی جماعتیں  اتنی مضبوط اور مستحکم پوزیشن میں  نظر نہیں  آرہی ہیں  اور مطلع ابھی صاف نہیں  ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔