یوپی میں  کس کو یہ ساتھ پسند ہے؟

الیکشن کے موقع پر نعرے گڑھے جاتے ہیں،  نعروں  کی بھلے ہی کوئی حقیقت نہ ہو لیکن اگر کوئی نعرہ عوام کی زبان پر چڑھ جائے تو پارٹی کو اس کا فائدہ ضرور ملتا ہے۔ 2014 میں ’’ اب کی بار مودی سرکار‘‘ نعرہ چل گیا اور مرکز میں  بھاجپا کی سرکار بن گئی۔ حالانکہ اس سے قبل نریندر مودی نے جہاں  بھی چناوی ریلی کی وہاں  بھاجپا کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی سال دہلی میں ’’ پانچ سال کجریوال‘‘ کے نعرے نے اپنا کمال دکھایا۔ یوپی میں  چنائو سے پہلے اور الیکشن کی تاریخوں  کا اعلان ہونے تک ’27سال یوپی بے حال‘ ’بولو دل سے اکھلیش پھر سے‘ جن جن کے من کا بھائو، اب یوپی مانگے بدلائو‘ زمینوں  کے غیر قانونی قبضہ دار نہیں  چاہئیں ‘ ذاتی واد اور سماجواد کا ڈھونگ، اب اور نہیں  چلے گا، اب یوپی بھی بدلے گا، یوپی میں  تھا دم کہاں  پہنچ گئے ہم، نہ غنڈہ راج نہ بھرشٹا چار، اب کی بار بسپا سرکار، سروجن کوسمان دلانے کو بہن جی کو آنے دو، نردوشوں  کو نہ آنسو بہانے دو بہن جی کو آنے دو‘ وغیرہ نعرے دکھے اور سنائی دیئے۔ سماجوادی پارٹی وکانگریس نے گٹھ بندھن کے بعد مل کر نعرہ دیا’’ یوپی کو یہ ساتھ پسند ہے‘‘ نعروں  کی اس گونج نے یوپی الیکشن کو دلچسپ بنادیا ہے۔

سماجوادی وکانگریس اپنے نعرے کو جس طرح مشتہر کررہی ہے اس سے یہ سوال کرنا واجب لگتا ہے کہ آخر یوپی میں  کس کو یہ ساتھ پسند ہے۔ کانگریس کی یوپی میں  نہ زمین ہے اورنہ اپنا ووٹ بینک۔ اس نے شیلا دکشت کو وزیراعلیٰ کا چہرہ بناکر برہمن، اعلیٰ ذات دوٹوں  پر دائو لگایا تھا۔ یوپی میں  برہمن ووٹ 10فیصد ہے اور دوسری قوموں  کے مقابلے ان میں  لیڈر بھی کم ہیں۔  کانگریس کے پالیسی ساز پرشانت کشور کا ماننا تھاکہ برہمن اور اعلیٰ ذات ووٹ کانگریس کی جانب آتا دیکھ دوسری قومیں،  مسلمان بھی اس کے ساتھ آجائیں  گے۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ برہمن ووٹ یک مشت کبھی کسی ایک پارٹی کو نہیں  ملے۔ دوسرے اعلیٰ ذاتیں  کانگریس کے بجائے بھاجپا کو زیادہ پسند کرتی ہیں۔  باوجود اس کے کہ کانگریس نے دلت اور مسلمانوں  کے ووٹ کی قیمت پر اپنی حکومت میں  ہمیشہ ان کو فائدہ پہنچایا۔ دوسرے کانگریس نے بہت پہلے ہی سماجوادی پارٹی کے ساتھ مل کر چنائو لڑنے کا من بنالیا تھا۔ شاید اسی لئے شیلا دکشت شروع سے ہی دستبرداری کے موڈ میں  نظر آئیں۔  انہوں  نے کبھی اکھلیش یادو کووزیراعلیٰ کیلئے پہلی پسند بتایا تو کبھی ان کی تعریف کی۔ کانگریس نے جس کو برہمنوں  کے نمائندے کے طورپر پیش کیا تھا اسے وقت سے پہلے ہی کنارے کردیا۔ ایسی صورت میں  کیا برہمنوں  کو یہ ساتھ پسند آئے گا؟

رہا سوال سماجوادی کوپسند کرنے کا تویہ نہیں  بھولنا چاہئے کہ ایس پی مسلمانوں  کی وجہ سے ہی اقتدار میں  آئی تھی۔ اس کا رویہ مسلمانوں  کے تعلق سے افسوسناک رہا۔ مارچ 2013 میں  ڈی ایس پی ضیاء الحق کا پرتاپ گڑھ کے گائوں  بالی پورمیں  یادو کے ذریعہ قتل، مئی 2013میں  خالد مجاہد کی پولس حراست میں  موت، ستمبر2013 میں  مظفر نگر فساد، جس نے جاٹ اور مسلمانوں  کے اتحاد کو توڑ دیا۔2012سے 2017 تک ریاست میں  تین سو سے زیادہ چھوٹے بڑے فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں۔  ان میں  دادری،  کانٹھ، کیرانہ، بریلی، آگرہ، متھرا (کوسی کلاں )، میرٹھ اور بجنور جیسے واقعات بھی شامل ہیں۔  فرقہ وارانہ فسادات میں  اکھلیش سرکار کا رول مایوس کن رہاہے۔ کتنے ہی مسلمان ابھی بھی کیمپوں  میں  زندگی گزاررہے ہیں۔  وہ فساد کے بعد اپنے گھر واپس نہیں  جاسکے۔ ان کے گھر، کھیت اور جانوروں  پر دوسروں  نے قبضہ کرلیا۔ سرکار نے ان کی واپسی کا راستہ نکالنے کے بجائے فساد زدگان سے پانچ لاکھ روپے لے کر سب  کچھ بھول جانے کو کہا۔ سپا حکومت میں  ہوئی سرکاری تقرریوں  میں  بھی مسلمانوں  کو نظرانداز کیا گیا۔2012 کے انتخابی منشور کے وعدے پورے نہیں  ہوئے، مسلمانوں  کو تعلیمی و اقتصادی طورپر اوپر اٹھانے کے بجائے  اوکھلا میں  قبرستان کیلئے چھوٹا سا زمین کا ٹکڑا جمعیۃ العلما کے حوالے کر مسلمانوں  کوخوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ ویسے ان پانچ سالوں  کے دوران اترپردیش میں  صرف یادوں  کا بول بالا رہا۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں  کا سماجوادی پارٹی سے ناراض ہونا فطری ہے۔ شیعہ سنی ایکتا فرنٹ نے سپا کانگریس گٹھ بندھن کو مسلمانوں  کے ووٹ حاصل کرنے کی ایک چال بتایا ہے۔ فرنٹ کے ذمہ دار کلب جواد نے کہا کہ سپا نے پانچ سالوں  میں  اور کانگریس نے پچاس سالوں  میں  مسلمانوں  کو صرف دھوکہ دیا ہے۔ ان حالات میں  کیا مسلمانوں  کو یہ ساتھ پسند آئے گا یہ آنے والاوقت ہی بتائے گا۔

صوبے کی85 ریزرو سیٹوں  میں  سے سماجوادی پارٹی کو2012 کے انتخابات میں  58سیٹیں  ملی تھیں۔  دلتوں  نے مایاوتی کو چھوڑ کر سپا میں  بھروسہ دکھایا تھا جس کی وجہ سے وہ اتنی ریزرو سیٹیں  جیت پائی لیکن سماجوادی کے راج میں  انہیں  یادوں  کے ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی عورتوں  اور لڑکیوں  کی عصمت دری کی گئی۔ بدایوں  میں  دو دلت لڑکیوں  کو ریپ کے بعد پیڑ پر لٹکا کر مار دینا اس کی دل سوز مثال ہے۔ دلتوں  کی ناراضگی کا شاید اکھلیش یادو کو احساس ہے، تبھی تو انہوں نے 17پسماندہ ذاتوں  کو دلت کٹیگری میں  شامل کرنا منظور کیا ہے۔ ان میں  کہار، کشیپ، کیوٹ، نشاد، بند، بھر، پرجاپتی، راج بھر، باتھم، گور، ترا، مانجھی، ملاح، کمہار، دھیمر، گوڈیا اور مچھوا شامل ہیں۔  اس طرح انہوں نے کچھ نئی برداریوں  کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ دلت ووٹوں  کی کمی پوری کرسکیں۔  فی الحال سرکار کے اس فیصلے پر عدالت نے روک لگادی ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اکھلیش سرکار میں  دلتوں  پر ہوئی زیادتیوں  کے بعد کیا انہیں  سپا اور کانگریس کا ساتھ پسند آئے گا؟

اجیت سنگھ مغربی اترپردیش میں  بکھرے ہوئے جاٹ مسلم ووٹوں  کو جمع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔  این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق جاٹ یہ مان رہے ہیں  کہ مظفر نگر فساد ان کی بڑی بھول تھی۔ کچھ لوگوں  کے بہکاوے میں  آکر ان سے غلطی ہوگئی۔ اب وہ اس طرح کی غلطی نہیں  کریں گے۔ انسان کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے یہ بڑی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنی اس بھول کو سدھاریں گے؟ جو لوگ فساد کے دوران اپنا گھر بار، زمین جائیداد چھوڑ کر چلے گئے ہیں  کیا انہیں  وہ واپس بلاکر لائیں گے؟ اجیت سنگھ فساد کے دوران اس علاقے میں  کیوں  نہیں  آئے؟ اس وقت انہوں  نے جاٹوں  اور مسلمانوں  کو کیوں  نہیں  سمجھایا، آج جب یوپی میں  الیکشن ہورہا ہے تب انہیں  اپنے جاٹ اور مسلمان ووٹوں  کی فکر ہورہی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں  کہ چودھری چرن سنگھ کے کسان آندولن میں  جاٹ اور مسلمان دونوں  شامل تھے۔ دونوں  نے ہی جان دی تھی۔ چودھری اجیت سنگھ اپنی پارلیمنٹ کی سیٹ ہار گئے تو انہیں  یہاں  کے لوگ یاد آرہے ہیں۔  وہ اپنا کھویا ہوا ووٹ بینک واپس حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔  ایسے میں  کیا مغربی اترپردیش کے لوگ سپا اور کانگریس کا ساتھ اجیت سنگھ کے بغیر پسند کریں گے؟

بی جے پی نے ایک طرف لوک لبھاون وعدوں  کی جھڑی لگا رکھی ہے تو دوسری طرف وہ رام مندر کے چیک کی فوٹو کاپی کو بھی بھنانے کی کوشش کررہی ہے جس کی وہ پہلے ہی پوری قیمت وصول کرچکی ہے۔ اسے وہ ہر الیکشن میں  بھنانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اکھلیش یادو بھی پیچھے نہیں  رہے۔ انہوں نے بھی ایودھیا میں رامائن پارک بنانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اپنے ووٹ بینک کے کھسکنے کے ڈرسے اس کو زیادہ مشتہر نہیں  کیا گیا۔ قوم واد فرقہ واریت کی سرپرستی کے باوجود سپا اور کانگریس سیکولرزم کانگاڑا پیٹ رہی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے ترقی کے تمام دعوے بھی کھوکھلے ہیں۔  آدھے ادھورے پروجیکٹس کا افتتاح کر اکھلیش یادو اس کا فائدہ لینا چاہتے ہیں۔  سچائی یہ ہے کہ ڈولپ منٹ کے زیادہ تر کام ان کے خاندانی یا قریبی لوگوں  کے حلقہ انتخاب میں  ہوئے ہیں۔   باقی ریاست کے کئی علاقے اپنے حالات سدھرنے کا انتظار کررہے ہیں۔  ایسی حالت میں  سپا کانگریس کا ساتھ کس کو پسندہے اس پر غور کرنا پڑے گا۔

اترپردیش میں  سماجوادی سرکار کا سب سے زیادہ فائدہ یادوں  کو ہوا ہے۔ ریاست میں  ان کا ووٹ 9فیصد ہے۔جو مسلمانوں  کے 19.3فیصد کے ساتھ مل کر28.3فیصد ہوجاتا ہے۔ 2012 کے انتخاب میں  سماجوادی پارٹی 29.13 فیصد ووٹ حاصل کرکے سب سے بڑی پارٹی کے طورپر ابھری تھی۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ مسلم یادوں  کے کچھ ووٹ دوسری پارٹیوں  کو بھی ملے ہوں گے، تب بھی اس حقیقت سے انکار نہیں  کیا جاسکتا کہ انہیں  کے ووٹوں  کی وجہ سے سماجوادی پارٹی کو یوپی کی کرسی ملی تھی۔ مسلمانوں  کے تئیں  سماجوادی اور کانگریس کی بے حسی کو دیکھتے ہوئے ان کا اس ساتھ کی طرف متوجہ ہونا سیاسی سمجھ کی کمی ہی کہا جائے گا۔ البتہ یادوں  کو یہ ساتھ ضرور پسند آنا چاہئے جن پر سماجوادی پارٹی نے پچھلے پانچ سالوں  میں  پوری توجہ دی ہے۔ ایس پی اور کانگریس کا ساتھ کس کس کو پسند آیا اور کس نے اس سے دوری بنائی انتخاب کے نتیجوں  سے اس کااندازہ ہوگا۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ یہ الیکشن جہاں  2019کے عام انتخابات کے رخ کو طے کرے گا وہیں مسلمانوں  کے سیاسی شعور کو بھی ظاہر کرے گا۔ سیاست میں  بھلے ہی بدلائو آرہے ہوں  لیکن یوپی کے لوگ اب بھی دل سے ہی سوچتے ہیں۔  حد تو یہ ہے کہ نوجوان بھی اپنے مسائل پر توجہ نہ دے کر جذباتی ہوکر ہی فیصلہ لیتے ہیں۔  اس لئے یہ قوی امید ہے کہ الیکشن کے نتیجے دلت اور مسلمانوں  کے ووٹوں  سے ہی طے ہوں گے کہ وہ کس کے ہاتھوں  میں  یوپی کی کمان سونپتے ہیں  اور کس کو اس سے باہر رکھتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔