یوں نہ ہوتا!!!!

وزیر اعظم نریندر مودی اپنے شوق کے مطابق مختلف ممالک کا دورہ کرتے ہوئے ہندوستان واپس ہونے والے ہیں اور اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے سعودی عرب کا بھی دورہ کیا اور وہاں پر شاہی مہمان بن کر وہ تمام مزے کئے جنہیں انہوںنے سوچابھی نہ تھا ۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان نے عربوں کی روایت کے مطابق انکی خوب میزبانی کی اور انہیں سعودی عرب کے سب سے بڑے اعزاز سے بھی نوازا اور نریندرمودی کو سب سے بہترین شہر ی ہونے کا اعزاز دیا ۔ سعودی فرماںروا کی جانب سے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی اس قدر خاطر تواضع حکومتی نظریات سے ٹھیک ہے لیکن ہندوستان کے وہ تمام مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ خادم الحرمین شریفین جو اس امت کے ایک طرح سے خلیفہ بھی ہیں انہوںنے ایک ایسے شخص کو بہترین شہری کے اعزاز سے نوازا جس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں اور انکی جماعت اور وہ خود مسلمانوں کے دشمن ہیں ۔ نریندر مودی کی مسلم دشمنی اور مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے کئی برسوں تک امریکہ انہیں ویزا دینے سے انکار کرتا رہااب اسی وزیر اعظم کو ایک مسلم ملک میں شاہی میزبانی کے لئے چنا گیا ہے ۔ بھلے ہی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے آپ کو بے گنا ہ کہہ رہے ہوں ، بھلے ہی انکے خلاف عدالتوں و کچہریوں میں مسلمانوں کے قتل عام کے کوئی ثبوت نہ ہوں لیکن ہندوستان کی عوام کی سوچ ابھی اتنی مفلوج نہیں ہوئی کہ وہ گناہگار اور بے گناہ کے درمیان فرق نہ سمجھتی ہو۔ اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے مختلف مقامات کی سیر کی ۔ ہندوستانی کمیونیٹی کے ساتھ تبادل¿ہ خیال کیا اور سعودی حکومت و ہندوستانی حکومت نے ایک دوسرے کا ساتھ دینے ، دونوں ممالک کے رشتوں کو ہموار رکھنے کے وعدوں کے علاوہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنے کا عزم بھی کیاہے ۔ لیکن شاہ سلمان سے ہندوستانی مسلمانوں کی ایک شکایت رہیگی وہ یہ کہ اگر اپنی ملاقات میں شاہ سلمان وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ نصیحت کرتے کہ دہشت گردی بھی ختم کرینگے ، رشتے بھی بنائینگے ۔ تجارت بھی کرینگے لیکن آپ ہندوستانی مسلمانوں کو تکلیف نہ پہنچائیں ۔ جو مسجدیں مسلمانوں کی ہیں ان مسجدوں کی حفاظت کریں ۔ ہندوستان بھر میں مسلمانوں کا جہاں کہیں بھی خون بہایا جارہاہے اس قتل عام کو روکیں ۔ اگر یہ نصیحت پیار سے بھی کردیتے تو شاید مودی کا دل بدل جاتا اور وہ انکی بات کو ماننے سے انکار کردیتے تو اسکے جواب میں وہ دھمکی بھی دے سکتے تھے جس کی وجہ سے کہیں نہ کہیں مودی پر دباﺅ پڑتا۔ غور طلب بات ہے کہ جب کبھی کسی عیسائی پر حملہ ہوتاہے ، چر چ کو منہدم کیا جاتاہے یا کسی پادری کو اذیت پہنچائی جاتی ہے تو اسکے خلاف شکایت درج کروانے کے لئے نہ صرف امریکہ کے صدر آواز بلند کرتے ہیں بلکہ روم کے چرچ سے بھی آواز بلند ہوتی ہے جس کی وجہ سے حکومتوں میں ایک طرح کا دباﺅ پیدا ہوتاہے اور وہ مجبوراََ عیسائیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ لیکن ہمارے شاہ سلمان نے ایسا کچھ نہیں کہا جس کی وجہ سے مودی کے منہ پر ذرا برابر بھی تشویش دکھائی نہیں دی ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مودی کو قہوہ نہ پلایا جائے ، انہیں اعزاز سے نوازا نہ جائے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جس طرح سے غیر انکے مذاہب کی تحفظ کے لئے آواز بلند کرتے ہیں اسی طرح سے ہمارے مسلم ممالک کے حکمران بھی آواز بلند کریں ۔ جس موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی سعودی عرب کے دورے پر ہیں اسی موقع پر امام کعبہ شیخ صالح ہندوستانی دورے پر آئے ہوئے ہیں ۔ ہمارے امام کی آمد پر ہندوستان بھر میں خوشی کی لہر ہے ، بہار سے لے کر بنگلور تک انکے لئے پھول بچھائے گئے ایسے میں ملک کے غیر مسلم سیاستدانوں اور حکمرانوں میں انکی آمد بھی معنی خیز رہی ہے ۔ شیخ صالح نے اپنے دورے کے دوران نہ صرف دینی مدارس و مساجد کا دور ہ کیا اور ان سے ملاقاتیں کرنے والوں میں علماءو مسلم قائدین ہی نہ تھے بلکہ ملک کے چوٹی کے سیاستدان بھی ان سے ہاتھ ملانے کو بابرکت سمجھتے رہے اور انکے ہاتھ چومنے کے لئے آگے آئے ۔ انکی قدر ومنزلت اونچی ہونے کی وجہ سے ہر جگہ پر انہیں تعظیم کے ساتھ مدعو کیا گیا ۔ اب ایسے وقت میں مسلمانوں کی حمایت میں شیخ صالح اگر اتنا بھی کردیتے کہ سعودی عرب کی حکومت ہندوستانی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو ہرگز بھی برداشت نہیں کرتی ، جس طرح سے عرب میں ہندوستانیوں کو تحفظ دیا جاتاہے اسی طرح سے ہندوستان میں مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا جائے تو یہ سن کر ہندوستانی حکومت کے پسینے چھوٹ جاتے ۔ ویسے بھی سعودی عرب کے مال و دولت اور وسائل کے سامنے ہندوستان کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے اور یہی وہ ملک ہے جہاں کے پٹرول سے ہندوستانی وزیر اعظم کی گاڑی بھی چلتی ہے ، اگر سعودی حکومت چاہے تو وہ ہندوستانی حکومت کو اپنے اشاروں پر چلا سکتی ہے لیکن درد کااحساس تو اسی وقت ہوگا جب ہم مسلمانوں کو سعودی اپنا سمجھتے ۔ سعودی حکمرانوں کی اس لاپرواہی اور تنگ نظری کی وجہ سے ہم مسلمان مجبور و مظلوم زندگی گزارنے پر مجبورہیں ۔ اگر پاپائے روم کی طرح ہمارے لئے بھی کوئی آواز ٹھانے والا ہوتا تو ہندوستانی مسلمان یوں نہ ہوتے جو اب ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔