یو پی کا دنگل 

ہم نیتا جی ملائم سنگھ یادو کے بیسویں صدی کی نویں دہائی کے آخری زمانے سے زبردست فین رہے ہیں ۔ انھوں نے ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں وہ کارنامہ انجام دیا تھا جو نہرو اور سردار پٹیل بھی انجام نہ دے سکے ۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ سنگھ کی حوصلہ افزائی میں دونوں کا ہی بڑا رول ہے۔ 1989میں کارسیوکوں نے بابری مسجد پر پہلا حملہ کیا تھا جسے ملائم سنگھ نے کشتوں کے پشتے لگا کر پسپا کر دیا تھا ۔ بس ان کا یہی کارنامہ برسوں تک ہمارے لئے مدح سرائی کا سبب بنتا رہا ۔ یہاں تک کہ ابو عاصم اعظمی کوسماجوادی پارٹی میں شامل کروانے میں ہمارا ہاتھ نہ سہی انگلی تو شامل ہے ۔ مگر اب کچھ عرصے سے نیتا جی ملائم سنگھ نہیں پہلوان ملائم سنگھ بن چکے ہیں اور یہ بات ہم ایک نہیں کئی بار لکھ چکے ہیں۔ شاید ہمارا یہ ریمارک ان تک پہنچ نہیں سکا ۔ مگر گمان غالب یہ ہے کہ برسوں کانگریس کے پہلو میں رہ کر وہ بھی نرم اور گرم ہندتو کے قائل ہو چکے ہیں پہلوان جوٹھہرے۔

وہ لوگ جو سچ مچ بی جے پی کی فکر کے قائل نہیں ہیں اگر وہ نرم ہندتو اور گرم ہندتو کوبطور ایک انتخابی حکمت عملی کے اپناتے ہیں وہ ہمارے نزدیک احمق ہیں ۔ اس طرح بی جے پی کے ووٹ بینک میں سیندھ لگانا ممکن نہیں۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا ۔ یہ فطری حشر ہے جو نقالی کرنے والوں کا ہوتا ہے۔ پھر دہشت گردانہ حملوں کا سہارا لینا۔ سرجیکل اسٹرائک کو قومی و بین الاقوامی بحث کا موضوع بنانا۔ فوجی اصولوں اور رازوں سے کھلواڑ کرنا۔ اپنے مفاد کے لئے سینئرٹی کو نظرانداز کرنا۔ جس جرات کے ساتھ بی جے پی کر سکتی ہے ملائم سنگھ کیا ۶۰ سالہ حکمراں پارٹی کانگریس کے لئے بھی یہ خواب و خیال کی باتیں ہیں ۔

درج بالا باتوں کے مد نظر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سماجوادی پارٹی اچھی حکمرانی کا نمونہ پیش کرتی اور اس بنیاد پر ووٹ مانگتی ۔ مگر اچھی حکومت کے خواب دکھانے کے باوجود۔ 2012 میں مسلمانوں کی حمایت کو قبول کرنے کے باوجود نیتاجی اور ان کے فرزند نرم ہندتو کی پالیسی کے عشق سے تادم تحریر پیچھا نہ چھڑا سکے۔ نیتا جی نے پچھلی بار الیکشن کمپین کے دوران مسلمانوں کو 18 فیصد رزرویشن کا لالی پاپ دیا تھا مگر ابھی تک انھوں نے اس جانب ایک قدم بڑھانا تو دور اس کا ارادہ بھی ظاہر نہیں کیا ہے ۔ پھر انھوں نے انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں گرفتار معصوم مسلم نوجوانوں کو رہا کیا جائے گا۔ ان کے اس وعدے کا نوٹس نہ ان کے وزیر اعلیٰ فرزند نے لیا نہ وزیر داخلہ نے ہاں ان کی پولس نے جی جان سے اس کا نوٹس لیا اور خالد مجاہد قاسمی جو چند دنوں میں جیل سے رہا ہونے والے تھے انھیں زندگی سے رہا کر دیا ۔ چلئے جو ہوا سو ہوا ۔ بعد میں ہونا یہ چاہئے تھا کہ نیتا جی اس واقعے کی ایماندارانہ انکوائری کرواتے اور قصوروارون کو سزا دلواتے مگر یہ بات انھوں نے بھی تسلیم کرلی ہے کہ مسلمان تجرباتی چوہے ہیں ۔ آخر 1989 کا پہلوان ملائم سنگھ اتنا بزدل کیسے ہو گیا ؟
ہمیں آج تک یہ سمجھ نہ آئی کہ ملائم سنگھ نے اپنے چھورے کو وزیر اعلیٰ کیو ں بنایا تھا؟کیا اس لئے کہ یو پی اس کے زمانے میں بد انتظامی کا شاہکار ثابت ہو ۔ صرف ایک سال بعد اکھلیش سنگھ یادو نے یہ قبول کیا(تہلکہ ڈاٹ کام)تھا کہ ان کے دور حکومت میں اب تک فرقہ وارانہ تشدد کے 27 واقعات ہو چکے ہیں۔ حسب معمول انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیاتھا کہ مجرموں کو بخشا نہیں جائے گا اور پولس و بیوروکریسی کے دیگر افراد کو ذمے دار ٹھہرا کر کاروائی کی جائیگی۔ چھورے نے جو کچھ کیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرقہ پرستوں کو فر ی ہینڈ ملا۔ وہ اور کھل کھیلے۔ انھوں نے فیض آباد کے ۵ قصبوں کو اکتوبر 2012 میں فساد کے حوالے کر دیا ۔ جبکہ یہ علاقہ بابری مسجد کی شہادت کے وقت بھی پر امن رہا تھا ۔

ستمبر 2013 کو 7 مسلمان پولس کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ قرآن کی بے حرمتی کی گئی مگر اکھلیش کی پولس بس دیکھتی رہی ۔ کوسی کلاں متھرا میں بھی 15 افراد مارے گئے ۔ مئی 2012 میں استھانہ پرتاپ گڑھ میں بھی فرقہ وارنہ تشدد برپا ہوا ۔ اکھلیش یادو حکومت کو سب سے زیادہ شہرت اگست ؍ستمبر 2013 میں برپا ہونے والے مظفر نگر فساد سے ملی ۔ 62 اموات ہوئیں اور کئی ہفتوں کرفیو لگا رہا ۔ دہائیوں بعد فوج کا استعمال کرنا پڑا۔ 50ہزار لوگوں کو چھورے کے نکمے پن کی بدولت اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ۔ اور آج جب کہ الیکشن سر پر کھڑا ہے وہ اپنی ہی ریاست میں شرنارتھی ہیں۔ امید ہے کہ صرف اس ایک واقعے کی بدولت یہ حکومت سیاسی تاریخ میں صدیوں یاد رکھی جائے گی ۔ ویسے کارنامے تو ان کے اس سے بھی بڑھ کر ہیں۔ کس کس کو لکھیں ۔ راجہ بھیا کو منسٹر صرف اور صرف مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے بنایا گیا ۔ اگر نہ بنایا جاتا تو وہ کیا کرلیتا ۔ ہم لکھاری تو ہیں مگر ساتھ میں ایک کمزور دل انسان بھی ہیں ۔ اپنی قوم کا نوحہ لکھتے دل خون کے آنسو روتا ہے جہاں تک قاری پہونچ نہیں پاتا۔ اکھلیش کا آخری کارنامہ لکھ کر اس باب کو بند کرتے ہیں۔ دادری کے اخلاق کا واقعہ ابھی سال ڈیڑھ سال پہلے کا ہے جو حکومت کی غیر کارکردگی اور شر پسندوں کے بڑھتے حوصلوں کا شاہکار ہے اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ فرقہ پرست وہاں حکومت اور بیوروکریسی کوجوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ حکومت نے تو شاید چوڑیاں پہن رکھی ہیں ۔ اپنے کرموں پر تو ندامت دور کی بات ہے فرقہ پرست مظلوموں کو ظالم ثابت کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں ۔
سماجوادی پارٹی کے تعلق سے آخری بات یہ ہے جو اب تک ہمارے پلے نہیں پڑی کہ عین الیکشن کے وقت خانہ جنگی کا آغاز کیوں ہوا؟ویسے ہم امر سنگھ کو بہت سبز قدم سمجھتے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی بڑے بڑے مہارتھی ان کی وجہ سے پارٹی چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ مگر انھیں تو دوبارہ بھی باہر کا راستہ دکھایا جا سکتا تھا ۔ پھر آخراس خاندانی جھگڑے کو میڈیا میں نمایاں کرنے کی اور اسے طول دینے کی وجہ کیا ہے؟کیا اس طرح کوئی انتخابی فائدہ اٹھایاجا سکتا ہے؟ہماری سمجھ میں تو نہیں آتا ۔ مگر پہلوانی دماغ کو کوئی بھروسہ نہیں ۔ مگر نریندر مودی تو پہلوان نہیں۔ نوٹ بندی کا ان کا فیصلہ شایدکسی پہلوان ہی سے مستعار ہے ۔ ان کے ڈھائی سالہ دور حکومت میں کوئی کارنامہ ایسا نہیں جس کی بنا پر وہ عوام سے ووٹ مانگ سکیں۔ بے شرمی کی بات الگ ہے۔ پھر عین الیکشن کے وقت نوٹ بندی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟یا تو یہ کہ تمام اپوزیشن پارٹیاں فنڈز کی کمی میں مبتلا ہو جائیں۔ اور ان کے لئے کما حقہ عوام تک پہنچنا مشکل ہو جائے یا پھر اس بار بھی ووٹنگ مشینوں کاسہارا لے کر چمتکار کر دکھایا جائے گا۔

مودی جی کے چمچوں کے سوا شاید ہی کوئی اس بات سے انکار کرے گا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ عین الیکشن کے وقت سیاسی خودکشی سے کم نہیں ۔ سونے پہ سہاگہ یہ خبریں کہ وینزوئلا نے مودی جی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نوٹ بندی کا فیصلہ کیا تھا مگرصرف ایک عوامی موت سے گھبرا کر اپنا فیصلہ واپس لے لیا ۔ جبکہ وطن عزیز میں مودی جی کے فیصلے نے اب تک 100 سے زائد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور مودی جی ’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘بنے ہوئے ہیں۔ دوسری خبر ازلی دشمن پاکستان کی ہے۔ وہاں بھی 5000 ہزار کے نوٹ بند کرنے کا فیصلہ ہوا ہے مگر 3 سے 5 سالوں کے درمیان۔ ہر طرح سے غور کرنے پر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ کسی سیاسی پارٹی کے سربراہ کا فیصلہ نہیں بلکہ یہ مجبور و بے بس corporates کے چاکر کا فیصلہ ہے ۔ بہرحال کوئی چمتکار ہو جائے تو الگ بات ہے ورنہ بی جے پی کو 10 فی صد سے زیادہ ووٹ ملتے نظر نہیں آتے۔

کانگریس کا جہاں تک تعلق ہے اب یہ پارٹی صحیح معنوں میں ووٹ کٹوا پارٹی ہو گئی ہے۔ اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ کم سے کم یو پی کی سیاست سے تو کچھ عرصے کے لئے سنیاس لے لے ۔ بابری مسجد معاملے میں اس کا رول۔ ہاشم پورہ میرٹھ ملیانہ میں اس کا کردار مسلمان ابھی تک بھولے نہیں ہیں۔ یکساں سول کوڈ کا مسئلہ بھی کانگریس ہی کی دین ہے ۔ اسلئے امید تو نہیں ہے کہ مسلمان اس کی طرف متوجہ ہونگے۔

اس بار سب سے اچھی حالت میں بہوجن سماج پارٹی ہے ۔ مگر بہن جی بہت سارے کمپلکسیز کا شکار ہیں ۔ وہ بنیادی طور پر دلت ہیں اسلئے احساس کمتری و احساس محرومی کا شکار ہیں ۔ اسی لئے اب انھیں دولت کی بیٹی کہا جانے لگا ہے ۔ وہ جیتیں تو پھر ہر طرف ہاتھی اور کانشی رام کے مجسمے نظر آئیں گے ۔ ایک نفسیاتی مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ عورت بھی ہیں اور کنواری بھی۔ اور ان کے خاندان کا کوئی فرد سیاست میں بھی نہیں ہے ممکن ہے کہ تحفظ کے احسا س سے بھی محروم ہوں۔ جے للیتا کی طرح انھوں نے بھی کسی کو اپنے برابر نہیں پہنچنے دیا ۔ ان کے بعد لگتا ہے کہ ان کی پارٹی تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی ۔ ان کے احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ ان کے دربار میں کوئی بھی کرسی پر نہیں بیٹھ سکتامسلمانوں کوخوب سوچ سمجھ کر ان پر اعتماد کرنا چاہئے کیونکہ ان پر اکثر بی جے پی کے عشق کا دورہ پڑتا رہتا ہے۔ پھرآخر مسلمان کیا کریں۔ 70 سال میں مسلمانوں نے وطن عزیز کی ہر سیاسی پارٹی کو آزما لیا ہے ۔ اب 20؍25 سال مسلم سیاسی پارٹیوں کو بھی آزما کر دیکھیں۔ جن حالات میں ہم ہیں اب ہم اس سے بھی برے حالات میں جی سکتے ہیں اسلئے تجربہ مہنگا نہیں پڑے گا ۔ اویسی برادران کا اب تک کا ریکارڈ اچھا ہے ۔ جہاں ممکن ہو وہاں ان کو آزما کر دیکھیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔