یکساں عائلی قانون کے لیے ’اچھی باتوں‘ کو یکجا کرنے کی دلیل

سیدمنصورآغا

ایک سال قبل تین طلاق پرمسلم پرسنل لاء بورڈکے موقف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد لاء کمیشن آف انڈیا اس مشقت میں مصروف ہے کہ مسلم عائلی معاملات سے متعلق مجموعہ قوانین میں کہاں کیا ترمیمات کی جاسکتی ہیں ؟ اس کا پس منظریہ ہے کہ موجودہ حکومت ’یکساں سول کوڈ‘نافذ کرنے کے انتخابی شورکے ساتھ وجود میں آئی تھی۔ چنانچہ اس نے30جون2016کو لاء کمیشن کو ہدایت دی کہ ’یکساں سول کوڈ‘ کے نفاذ کا جائزہ لے۔ کمیشن کو  جلد ہی احساس ہوگیا کہ یکساں سول کوڈکے  خواب کی تعبیر ہند جیسے کثیرجہت معاشرے میں ممکن نہیں جہاں عوام عائلی معاملات میں مختلف ومتضاد رسوم کو مذہبی عقیدہ کادرجہ دیتے ہیں۔ کوئی بھی سرکاران کو چھیڑنا نہیں چاہے گی، البتہ اقلیتوں کو عائلی قوانین، جن کو آئین وقانون سے تحفظ حاصل ہے، بہت سی نظروں میں خارہیں۔ اس لئے جب بھی ’یکساں سول کوڈ‘ کا نعرہ لگتا ہے، تواس کا مطلب یہ ہوتا کہ مسلم پرسنل لاء کی خصوصیات کو ختم کردیا جائے۔ اب شور یہ مچایا گیا ہے کہ مسلم قانون کے تحت خواتین کو تحفظ اور مساوی حقوق حاصل نہیں، چنانچہ حقوق نسواں کے نام پر اس قانون میں مداخلت کی فکرجتائی جاتی ہے۔ تین طلاق پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جو بل پارلیمنٹ میں لایا گیا ہے اس کی یہی دلیل دی جارہی ہے۔

چنانچہ لاء کمیشن ان دنوں یہ غورکررہا ہے کہ مسلم پرسنل لاء کے نام سے مجموعۂ قوانین میں کہاں کیا ترمیم کی جاسکتی ہے؟ اسی کے تحت مختلف مسلم تنظیموں کو مشورے کیلئے بلایا  گیا۔ 21مئی 2018کو مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وفد سے ملاقات کے دوران کمیشن نے مانا تھا کہ یکساں سول کوڈ  عملاًممکن نہیں البتہعائلی قوانین میں ترمیمات کی جاسکتی ہیں۔ اگرچہ مسلم تنظیموں نے اس امکان کو مستردکردیا ہے، لیکن پھربھی بہت سی چیزوں پر بات ہوئی اورکمیشن نے چاہا کہ اس کو سات متعین موضوعات پر تمام مسالک کے موقف تحریری فراہم کردئے جائیں۔ ان موضوعات میں بچوں کی تحویل؛ وراثت کی تقسیم؛ وراثت میں عورت کو مرد کے برابرحصہ داری نہ دئے جانے کی معقولیت؛ نان ونفقہ (بچوں کی پرورش اور بیوی کے مصارف کی ذمہ داری؛ متبنٰی(لے پالک ) ؛ بچے کی پرورش اورنابالغ بچے کیلئے ماں کی سرپرستی وغیرہ شامل تھے۔

حیرانی کی بات یہ ہے سرکار نے تین طلاق کے معاملے کوقابل دست اندازی پولیس جرم بنانے کا جو ایکٹ بنایا اس کے بارے میں کسی فریق سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا، لیکن اندھیرے میں یہ تیرچلایا گیا کہ مسلم جماعتیں شرعی قوانین کے تمام پہلوؤں پر اپنے موقف پیش کریں۔ اس کے بعد کسی صلاح مشورے کو یہ کہہ کرٹالا جاسکتا ہے کہ مشورہ پہلے ہی ہوگیا۔ اس کے پیش نظر سیاسی حربہ یہ ہوتاکہ کمیشن سے کہا جاتا کہ وہ اپنے پیش نظر ترامیم کا مسودہ قانون (Draft) بناکر فراہم کردے، ہم اس پر مختلف مسالک کا موقف بتادیں گے۔ یہ بھی مطالبہ کیا جانا چاہئے تھا کہ طلاق سے متعلق جو بل پارلیمنٹ میں زیرغورہے اس پرمسلم نمائندوں سے رائے لی جائے اوراس کا لحاظ رکھاجائے۔ لیکن بہرحال بورڈ نے اپنے طورپر کچھ تفصیلات بعجلت 31 جولائی بروز منگل کمیشن کو فراہم کردیں۔ یہ فائل دفترکے کسی کارکن سے بھی بھجوائی جاسکتی ہے مگر بورڈ کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے خودجاکر کمیشن کے چیرمین سے ملاقات کی اورفائل حوالے کی۔

’اچھی بات‘ کا پیمانہ؟

اس میٹنگ سے متعلق اخباری رپورٹوں اوربورڈ کی ایک پریس رلیز ( 31جولائی ) سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیشن نے تجویز کیا کہ کیوں نہ تمام مذاہب کی ’اچھی باتوں ‘ کو شامل کرکے ایک قانون مشترکہ بنادیا جائے؟ اس پر مجھے معروف ملّی رہنما جناب شفیع مونس مرحوم یاد گئے۔ اگروہ ہوتے تو کہتے کہ آپ کے نزدیک ’ اچھی بات‘ کا پیمانہ کیا ہے؟اورکمیشنکو اس کی وضاحت میں ہی خاصا سرکھپانا پڑ جاتا۔ مثلاً کہاجائے کہ عالمی رجحان اور مغربی افکارونظریات سے ہم آہنگی مطلوب ہے۔ زمانہ بدل رہا ہے۔ ہم بھی بدلیں۔ توان رجحانات کے حسن وقبح پر بات کی جاسکتی تھی جن کے نتیجہ میں فیملی لائف تباہ ہورہی ہے۔بے قیدجنسی روابط ہمارے عقائد و اقدار کے خلاف ہیں۔ اس معاشرہ  میں بے حجابی کا عالم یہ ہے کہ ایک عورت کو یہ بتانے میں جھجک نہیں ہوتی کہ میرے فلاں بچے کا اصل باپ (Biological father)   مسٹرایکس، دوسرے کا وائی اورتیسرے کا زیڈ ہے۔ جب کہ لیگل  (قانونی) باپ مسٹراین ہیں۔ اب میں مسٹرڈبلیوکے ساتھ رہتی ہوں۔ وغیرہ۔ بڑی بڑی ہستیاں بے حجاب گرل فرینڈس کے ساتھ گھومتی ہیں اورہم جنسی پر فخرکرتی ہیں۔

کوئی ملکی قانون اس لئے پیمانہ نہیں ہو سکتاکہ اس کی اساس بھی عموماً مغربی نظریات پر ہے۔جیسے یک زوجگی کا قانون۔ہندودھرم کی کوئی روایت یا مقدس کتاب کثرت ازدواج کے خلاف نہیں۔ راجوں، مہاراجوں اورساہوکاروں کا مرتبہ اتنا ہی بلند تصورکیاجاتا تھا جتنی زیادہ اس کی حرم میں رانیاں یا رکھیل ہیں۔ ملکی قانون اس لئے بھی معیار نہیں ہوسکتا کہ اس کو جب چاہو بدل ڈالو۔دیگرفرقوں میں مروج مراسم میں سے بھی کسی ایک کو پیمانہ نہیں مانا جاسکتا ہے۔ان کا مآخذکوئی خدائی گرنتھ نہیں، بلکہ صدیوں سے چلے آرہے ہیں مختلف رسم ورواج ہیں جن کو عدالتوں نے قانون کا درجہ دیا ہے۔

کوئی ایسا نظریہ بھی ’اچھی بات ‘ نہیں ہوسکتاجس کے نزدیک آپسی مرضی سے بغیرشادی جنسی تعلق جائز ہو،بیوی کی موجودگی میں دوسری عورت رکھی جاسکتی ہومگراسے شادی کے مقدس رشتے میں باندھنا جرم ہو۔ اب عدالت میں ہم جنسی کاجوازتلاش کیا جا رہا ہے۔ بغیرقانونی شادی میاں بیوی کی طرح ساتھ رہنے (live in relationship) کو قانوناً جائز کرلیا گیا ہے۔جس طرح ہرایک فرقہ کیلئے اپنے طور طریق اچھے اورمقدس ہیں، اسی طرح ہمارے نزدیک اچھی بات کاپیمانہ وہی ہے جو قرآن اورسنت کی ہدایت کے مطابق ہے۔ہاں اس میں عمل میں خامی ہوسکتی ہے، جس کی اصلاح ہم کرلیں گے۔

پوری قوم کے عائلی معاملات میں یکسانیت کا تصوربھی زیربحث لایا جاسکتاہے۔ ایک طرف ہم فرد کی آزادی کی بات کرتے ہیں اوردوسرے طرف یک رنگی کی وکالت کرتے ہیں۔

یک زوجگی اورلاء کمیشن

لاء کمیشن نے اس موقع پر ہندوکوڈ بل کے تحت ’یک زوجگی‘ کو’ اچھی بات‘ شمارکیا۔ بورڈقائدین نے بجا طور پر واضح کر دیا ہے کہ دیگراقوام کے عائلی قوانین کسی متفقہ مذہبی مقدس کتاب سے اخذ نہیں جب کہ ہمارے قوانین کی بنیاد مقدس قرآن اور سنت رسولؐ ہے۔ ان کو بدلا نہیں جاسکتا۔ دراصل یہ ہماری عقیدت اور آستھا کا معاملہ ہے۔اس ضمن میں یہ بھی توجہ طلب ہے کہ یک زوجگی کے قانون کے باوجوداس ملک میں بعض قبائل میں کئی کئی بیویاں (Polygamy) اورایک ساتھ کئی کئی مردرکھنے (Polyandry) کا رواج ہے۔ قانون بیوی کی موجودگی میں بغیرشادی دوسری عورت رکھنے کونہیں روکتا۔چیلی کے ساتھ گرو کا جنسی فعل سادھنا بن جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کی نظرمیں یہ ’اچھی بات ‘ ہوسکتی ہے، ہمار ی شریعت میں نکاح کے بنا جنسی رشتہ قائم کرنا حرام ہے اوراس کی سخت سزاہے۔ہمارادین نسل اوروراثت کا تحفظ کرتا ہے اورنکاح سے یہ متعین ہوتا ہے کہ پیداہونے والابچہ کس کا وارث ہے۔

لاء کمیشن کی رپورٹ 227

یک زوجگی کے تعلق سے کمیشن کو اس کی رپورٹ (227)بھی یاددلائی جائے جو 5اگست 2009 کو پیش کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں اسلام کے قانون ازدواج کی تحسین اورہندویک زوجگی قانون کے نقائص کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جو چیزلاء کمیشن کی نگاہ میں پہلے مستحسن تھی، وہ اب معیوب اور جو ناقص تھی وہ اب ’اچھی‘کیسے  ہوگئی، حالانکہ حکومت نے ابھی تک رپورٹ کو مسترد نہیں کیا؟

اس رپورٹ پر راقم الحروف کا ایک طویل مضمون اگست 2009 کے آخری ہفتہ میں کئی اخباروں میں شائع ہوا تھا جس میں یہ نشاندہی کی گئی ہے:’اس رپورٹ میں جامع اور متوازن انداز میں اسلام میں تعدد ازداج کی وضاحت کے ساتھ، تمام بیویوں کے حقوق کے تحفظ کے ہدایت کی تحسین کی گئی ہے اور ہندو میرج ایکٹ میں بلااستثنٰی یک زوجگی کے قانون کی قباحتوں کی نشاندہی اوراس میں ترمیم کا مشورہ دیاگیاہے۔رپورٹ میں اسلام میں تعدد ازدواج کی اصل حیثیت کو مثبت انداز میں ضبط تحریر میں لایا گیا ہے اور بیویوں کے ساتھ عدل و مساوات کے زریں اسلامی اصول کو ابھارا گیا ہے۔‘‘

کثرت ازدواج کے تعلق سے کمیشن نے لکھا ہے: ’یہ یقین کیا جاتا ہے کہ ہندو مذہب بلا روک ٹوک کثرت ازدواج کی اجازت دیتا ہے اور شوہر پر بیویوں کی کوئی متعین ذمہ داری عائد نہیں کرتا ہے۔ ‘  شریعت اسلامی میں کثرت ازدواج کی گنجائش پر کہا گیا ہے: ’عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلم قانون میں مرد کو ایک بیوی کے ہوتے ہوئے بے روک ٹوک دوسری شادی کا حق ہے۔لیکن قرآن اور شرعی قوانین کے ماخذات پر غور کرتے ہیں تو یہ خیال درست نہیں لگتا۔ اسلام ایک سے زیادہ شادی کی اجازت درحقیقت اس تصور کے ساتھ دیتا ہے کہ ایک شوہر کے ساتھ ایک سے زیادہ بیویاں خوشی خوشی زندگی بسر کرلیتی ہیں۔ پہلی بیوی کو چھوڑ کر یا  اس سے بے تعلق ہو کر دوسری بیوی لے آنا اسلام کے تصور کثرت ازدواج کے مطابق نہیں ہے۔‘

رپورٹ کہتی ہے،ـ’اسلام کا جب ظہو رہوا تو معاشرے میں بے روک ٹوک کثرت ازدواج کا رواج عام تھا۔ دنیا کے دوسرے معاشروں میں بھی یہی رواج تھا۔ مقدس قرآن نے اس پرحد عاید کی۔ کثرت ازوداج کی اجازت ایک حد کے اندراور اس سخت شرط کے ساتھ دی کہ ہر پہلو سے دونوں بیویوں کے ساتھ برابرکا سلوک کرے۔ قرآن نے زور دیکر کہا کہ نیک نیتی کے باوجود سبھی بیویوں کے ساتھ مساوی سلوک ممکن نہیں، اس لئے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا ’نا انصافی سے دور رکھے گا‘( ۴: ۳ ‘ ۱۲۹) ‘

رپورٹ آگے کہتی ہے: ـ ’قرآن کی اس اصلاحی تلقین پر اللہ کے رسولؐ نے ایک بہت ہی سخت تنبیہ کا اضافہ فر مادیا ہے۔ ’ جو شخص اپنی سب بیویوں کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کریگا وہ قیامت کے دن جوابدہ ہوگا۔ـ‘یہ وہ اصلاحات ہیں جو(بے مہار کثرت ازدواج کے معاشرتی نظام میں ) ساتویں صدی عیسوی میں اسلام نے متعارف کرائیں اور جو نافذ کی گئیں۔ ‘

کمیشن نے دوسری شادی کی غرض سے دکھاؤٹی تبدیلی مذہب کے حیلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے نوٹ کیا ہے: ’اس حیلے کے علاوہ بھی شادی ٹوٹ جانے کے دوسرے بہت سے اسباب ہیں۔ غیر مسلم فرقوں کے جو لوگ دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں ان کیلئے اس میں کوئی مذہبی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن نئے قانون کے تحت سزاسے بچائو کا کوئی راستہ درکار ہوتا ہے۔ چنانچہ دکھاوے کیلئے مذہب بدلنا ایسا ہی بچائو کا راستہ ہے۔‘ رپورٹ میں ان حالات کا ذکر ہے جن میں دوسری شادی ضروری ہوسکتی ہے۔ مثلا بیوی دائمی مریض، محتاج یا دیوانی ہوگئیہے یا اولاد کے قابل نہیں ہے، وغیرہ۔ایسی صورت میں گرہستی کو چلانے کیلئے دوسری عورت درکار ہوتی ہے۔ اس کیلئے یہ شرط کہ پہلے پہلی بیوی کو طلاق دے، قطعی غیراخلاقی اوربعض حالا ت میں ظالمانہ ہے۔ آدمی چاہتا ہے اس کو بے یارومددگار نہ کردیا جائے۔ وہ گھر میں رہے۔ اوردوسری شادی کرلے۔ ایسے مخصوص حالات کے مدنظر ہندوکوڈبل میں ترمیم ہونی چاہئے تاکہ دائیں بائیں کے راستے بند ہوں۔ اسلام نے کثرت ازدواج کی اجازت دے کرایسی کسی صورت میں پہلی بیوی کی حفاظت کی ہے۔ہمارے نزدیک یہی اچھی بات ہے۔ اس کو کیوں نہعام کیا جائے؟

سابق اورموجودہ نظریہ

لاء کمیشن کے موجودہ چیرمین کی نظرمیں جو چیزاچھی ہے اس کویہی کمیشن 9سال قبل دلائل کے ساتھ ناقص قراردے چکاہے۔ کمیشن کو مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ سب پر یک زوجگی کاناقص نظریہ مسلط کرنے کی فکرکے بجائے مشکل میں پھنسی ہندوخواتین کو راحت پہنچانے کیلئے قانون میں اصلاح اور بعض حالات میں دوسری شادی کو جائز کرنے کی سفارش کو دوہرائے۔ہماری پرسنل لاء بورڈ سے گزارش ہے کہ اس رپورٹ پرغورکرکے اپنے تفصیلی نوٹ کے ساتھ کمیشن کو یک زوجگی کے قانون میں ترمیم پر متوجہ کرائے۔ اپنی دفاع کرتے رہنا کافی نہیں۔ دفاع کا ایک حربہ یلغار ہے۔ اس کے علاوہ یہ گزارش بھی ہے کہ ’یہ برداشت نہیں ہوگا‘ والی دھمکی آمیز متکبرانہ زبان سے گزیزکیاجائے۔ آج کا ماحول اس قدرمسموم اورجھوٹ کی اتنی عمل داری ہے جس میں ممکن ہے قائدین تواپنے قصرمیں محفوظ رہیں، غریب بے سہارا مسلمان نشانہ بن جائیں اورسرکاری حربوں کی زد میں آکرنقصان اٹھائیں۔ اس سے ملت کو بچائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔